یکم مئی ” مزدوروں کا عالمی دن "
تحریر:زبیر احمد
نظام بدلنے تک یہ درد بہی سہنا ہے
مزدور کے بچے کو مزدور ہی رہنا ہے,,,
یکم مئی کو لیبر ڈے کے نام سے منسوخ کیا گیا ہے جوکہ مزدوروں کی اہمیت اور عوام کو ان سے ہمدردی، محبت اور احساس جیسے جذبوں کو اجاگر کرتا ہے۔ اس دن مختلف قسم کی ریلیاں اور جلوس نکال کر مختلف جگہوں پر سینیمارز کا انعقاد کرکے میڈیا پر مزدوروں کے متعلق اشتہارات اور مخصوص ڈرامے نشر کرکے مزدوروں کو ملک میں ان کی ضرورت اور قدر کا احساس دلایا جاتا ہے۔ اس دن چھٹی کرکے مزدوروں سے یکجہتی کا اظہار کیا جاتا ہے۔ ایک طرف تو یہ خوشی کی بات ہے اس قدم سے نچلے طبقے کو احساس کمتری سے نکالنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن دوسری طرف اس کڑوی حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے دل خون کے آنسوں روتا ہے کہ یکم مئی کو عوامی سطح پر چھٹی ہونے کے باوجود مزدور طبقہ اپنے پیٹ کا ایندھن بجھانے کی خاطر چھٹی نہیں کرتا اور سڑکوں پر رزق تلاش کرنے کی ناکام کوششوں میں لگا ہوتا ہے۔ لیبر ڈے بنانے کا مقصد صرف ریلیاں، جلسے جلوس نکالنا اور سینیمار منعقد کرکے لمبی لمبی تقریریں کرنا نہیں ہوتا بلکہ مزدوروں کے مسائل حل کرنے اور ان کے حقوق پورے کرنے کا دن ہوتا ہے۔ لیکن حقیقت بالکل اس کے برعکس ہے۔ ۔ اگر یکم مئی کو کسی مزدور سے اس دن کے متعلق پوچھا جائے تو وہ بے چارہ اپنی معاشی فکروں میں اس طرح گہرا ہوتا ہے کہ وہ اس دن کی اہمیت کے بارے میں بے خبر ہوتا ہے کہ آج کا دن اس کے نام کیا گیا ہے۔ اس کے ہاتھوں کی سختی، چہرے پر فکر کی جھریاں، کمزور جسم، اور آنکھوں سے جھلکتی پریشانی اور فکر اس دن کو منانے کی خوشی ظاہر نہیں کرتیں، بلکہ وہ اس بات کا ثبوت ہوتی ہیں کہ اس دن حکومت اور حکومتی عہدیداروں کی طرف سے کئے گئے وعدے کبھی پورے نہیں کئے گئے۔ اس کے پاں میں ٹوٹی چپل اس حقیقت کی ترجمانی کرتی ہے کہ وہ اپنے حقوق حاصل کرنے کے لئے کتنی کوشش کرتا ہے۔ہاتھ اور پاں بتاتے ہیں کے مزدور ہوں میں "
” میراملبوس بھی کہتا ہے کہ مجبور ہوں میں "
” فخر کرتا ہوں کہ کھاتا ہوں فقط رزقِ حلال”
” اپنے اس وصفِ قلندر پہ تو مغرور ہوں میں "
” سال تو سارا ہی گمنامی میں کٹ جاتا ہے”
” بس یکم مئی کو یہ لگتا ہے کہ مشہورہوں میں "
” بات کرتا نہیں میری کوئی ایوانوں میں "
” سب کے منشور میں گو صاحبِ منشور ہوں میں "
” اپنے بچوں کو بچاسکتا نہیں فاقوں سے”
” ان کو تعلیم دلانے سے بھی معذور ہوں میں "
” پیٹ بھر دیتا ہے حاکم میرا تقریروں سے”
” اس کی اِس طفل تسلی پہ تو رنجور ہوں میں "
” یومِ مزدور ہے، چھٹی ہے، میرا فاقہ ہے”
” پھر بھی یہ دن تو مناؤں گا کہ مزدور ہوں میں "
” مجھ کو پردیس لئے پھرتی ہے روزی واصف”
” اپنے بچوں سے بہت دور، بہت دور ہوں میں "
کیا یہ دن منا کر ان کی محرومیوں اور نامکمل خواہشات کا ازالہ کیا جاسکتا ہے؟ نہیں! بالکل نہیں! مزدور طبقہ کسی بھی ملک کی معاشی ترقی کے لیے ریڑھ کی ہڈی کا کردار ادا کرتا ہے لیکن افسوس! اس طبقے کو معاشرے میں وہ مقام حاصل نہیں ہوتا جو ان کا حق ہے۔ پاکستان لیبر کے حساب سے پوری دنیا میں 9نویں نمبر پر آتا ہے۔ پاکستان کی لیبر کی مانگ دوسرے ممالک میں بھی بہت زیادہ ہے۔ ہمارے ہاں سے بہت ساری مشرق وسطی کے ممالک میں بھیجی جاتی ہے۔ CIA World Facebook کی تحقیق کے مطابق پاکستان کی لیبر کی شرح 572 ملین ہے جس میں 43 فیصد لیبر زراعت کے شعبے سے منسلک ہے 203 فیصد صنعتی شعبے میں کام کرتی ہے اور بقیہ 366 فیصد مختلف جگہوں پر اپنی خدمات سرانجام دیتی ہے۔ ہوٹلوں پر کام کرنا، لوگوں کے گھروں میں نوکری کرنا، کارخانوں میں مزدوری کرنا، سڑکوں پر ٹیلے لگانا، پھیری لگانا، اور اس طرح کے بہت سارے کام نچلا طبقہ ہی کرتا ہے۔ اگر ایک منٹ کے لیے حقیقت پسند بن کر سوچا جائے کہ اگر یہ مزدور طبقہ نہ ہو تو ہماری تو روزمرہ کی زندگی ہی تہس نہس ہو جائے کیونکہ مزدوروں کے بغیر کوئی بھی کام پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ سکتا، لیکن افسوس! معاشرے میں ان کی قدر بہت کم ہے۔ حکومت پاکستان نے ایک مزدور کی تنخواہ 15,000 مختص کی ہے سوال یہ ہے کہ ایک پورے خاندان کی کفالت کرنے والا شخص 15,000 میں اپنے اخراجات کیسے پورے کرسکتا ہے؟
” اس شہر میں مزدور جیسا کوئی دربدر نہیں "
” جس نے سب کے گھر بنائے اس کا کوئی گھر نہیں "
” یہاں مزدور کو مرنے کی جلدی یوں بھی ہے محسن "
” کہ زندگی کی کشمکش میں کفن مہنگا نہ ہو جائے "
” مجھ کو بھوک سے مارا جاتا ہے مزدور کہہ کر "
” انہیں ہیرے دیے جاتے ہیں باشعور کہہ کر "
مہنگائی کے دور میں روزانہ کی بنیاد پر دیہاڑی لینے والا بندہ اگر ایک دن کسی وجہ سے مزدوری پر نہ جاسکے تو اس دن وہ فاقے کاٹنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ ایک مزدور کے پاس کوئی جاب سیکورٹی نہیں ہوتی نہ ہی اسے بغیر تنخواہ کے کوئی چھٹی دی جاتی ہے۔ اور نہ ہی اسے بڑھاپے میں کوئی پنشن جیسی امید نظر آتی ہے جس کے سہارے وہ اپنا بڑھاپا بے فکری سے گزار سکے۔
” پہلی تاریخ ہے مہینے کی۔۔۔۔۔۔۔
پھر وہی بات مرنے جینے کی”
” ہم کو عادت سی پڑ چکی ہے اب
بھوک کھانے کی، پیاس پینے کی”
” ننھے بچوں کے جسم میں خوشبو
بوڑھے مزدور کے پسینے کی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔”
آئین پاکستان بھی مزدوروں کے حقوق کے بارے میں بات کرتا ہے۔ پاکستان میں اب تک مزدوروں کے حقوق کے متعلق پانچ پالیسیاں (1955, 1959, 1969, 1972, 2002) تشکیل دی گئی ہیں لیکن بات صرف پالیسیاں تشکیل کرنے کی نہیں، بلکہ ان پر عمل پیرا ہونے اور سختی سے عمل کروانے کی ہے۔موبائل کتنا ہی مہنگا کیوں نہ ہو،کتنے ہی فیچرز،ایپلی کیشنز اور بہت سے کمالات اس میں موجود ہوں، مگر اس کی بیٹری خراب ہوجائے یا ختم ہوجائے تو یوزر اس موبائل سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا جب تک کہ بیٹری کا بندوبست نہ کر لیا جائے۔ٹھیک اسی طرح کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں مزدور کی اہمیت و حثیت ایسی ہی ہے جیسے موبائل کے اندر بیٹری کی، مزدور کسی بھی ملک کی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی کی حثیت رکھتے ہیں۔مزدور صرف مستری کو اینٹیں پکڑانے والے ہی کو نہیں کہتے مزدور زندگی کے تمام شعبوں سے منسلک ہوتے ہیں۔اگر آپ کے ملک کی یونیورسٹیاں ہزاروں انجینیئرز پیدا کر لیں مگر ان انجینیئرز کو ورکنگ کرنے کے لیئے لیبر دستیاب نا ہو تو آپ کے انجینئرز بے کار ہیں۔آپ مستریوں (معماروں) کی اک بڑی تعداد تیار کر لو مگر ان کے پاس مزدور نام کی کوئی چیز نا ہو تو آپ کے مستری کسی کام کے نہیں رہ جاتے۔آپ بڑی بڑی فیکٹریاں تعمیر کرلیں، ایک سے بڑھ کر ایک انجینئر،آیی ٹی کا ماہر، کمپیوٹر کا ماسٹر،کیلکولیشن میں دسترس رکھنے والے لوگ ارینج کر لیں لیکن مزدور نا ملے تو آپ کی فیکٹری زیرو ہے،مختصر یہ کہ مزدوروں کی ضرورت تقریبا ہر شعبے میں ہوتی ہے۔مزدوروں کی اسی اہمیت و ضرورت کے پیشِ نظر پیغمبرِ اسلام بلکہ یوں کہوں گا محسن انسانیتﷺ نے ضابطہ بنا دیا۔