محنت کش طبقہ سامراجیت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے:نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی
کوئٹہ:نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی کے مرکزی ترجمان نے بین الاقوامی مزدور دن کے مناسبت سے بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ انسان کی مالی زندگی کی حالت اسکے سماجی تعلقات ؤ زندگی سے اسکے خیالات تصورات اور نظریہ کے ساتھ ساتھ شعور بھی بدل جاتا ہے جو سماج شعوری تبدیلی کو اپناتے ہیں یقیناً وہ پرانے سماج کے اندر ایک نئی ترقی پسندانہ سماج کی بنیاد ڈال دیتے ہیں اور نئے حالات زندگی کے ساتھ ہر قدم پر پرانے دھکیا نوسی خیالات کو مٹاتے جاتے ہیں چنانچہ اس شعوری تبدیلی کا تعلق عمل سے ہے اور جب مزدور اور محنت کش طبقے نے اشرافیہ کے ظلم و ذیادتیوں کے خلاف کمربستہ ہوکر انقلابی حکمت سے جدوجہد کی ہے تو اس وقت سامراجیت کو بھی لگام لگا ہے بلکہ سماج میں موجود سرمایہ کار اور محنت کش طبقے کے مابین توازن برقرار رہا ہیسرمایہ دار کے پاس ذریعے پیداوار ہے جو مزدوروں اور محنت کشوں سے اُجرت پر کام لیتا ہے جبکہ مزدوروں کے پاس اپنے استعدا محنت بیچنی پڑتی ہے مزدوروں محنت کش طبقے کی صدیوں پر محیط طویل جدوجہد کے ثمرات پورپی ممالک میں زیادہ مثبت نظر آتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سرمایہ کاری کے حوالے بہترین توازن یورپی خطے میں زیادہ ہے جس کی وجہ سے معاشی طور پر مستحکم ہونے کے ساتھ ساتھ تہذیب یافتہ اخلاقی اقدار کے حوالے سے پوری دنیا کے لئیے مشعل راہ بن چکی ہیاسکے برعکس جنوبی ایشیاء ممالک میں مختلف محکوم اقوام بدقسمتی سے یورپ کے نصبط ایک مختلف خاکہ پیش کرتی ہے جہاں بلادست قوم اپنے زیرئے تسلط اقوام سے نوآبادیاتی پالیسوں کے تحد مزدور و محنت کش طبقے سے اسکا حق چھین رہی ہے جسکی واضع مثال بلوچ قوم ہے.مزید یہ کہ بلوچ سماج میں موجود اکثریت مزدور ؤ محنت کش طبقہ آج بھی اس جدید دور میں غلامی کی تصویر پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف اشرافیہ نے چند مٹھی بھر سرمایہ دار کے ساتھ مل کر بلوچ قوم اور محبت کش عوام کا بدترین استحصال کررہے ہیں.اکیسوی صدی میں بلوچ محنت کش طبقہ سامراجیت کے شکنجے میں جکڑا ہوا ہے جہاں نہ اسے پینے کے لیئے صاف پانی میسر ہے جبکہ خوراک,صحت ؤ تعلیم جیسی بنیادی ضرورتوں کے لیئے محتاج رکھا گیا ہے. بیروزگاری اپنے عروج پر ہے جبکہ زراعت ؤ مال داری سے منسلک محنت کش کسان دھکان,گڈاریوں کو نہ سرکاری سبسڈی مہیا ہے اور نہ ہی ان شعبوں کی ترقی کے لیئے بلوچ معاشی استحکام کو مناسب طرز پر لانے کے لیئے سرکار یا ریاست کے پاس کوئی منصوبندی ہولہذا بلوچ سماج میں موجود طبقاتی اختلافات کے پیچیدگی کو ختم کرنے کے لیئے بلوچ محنت کش طبقے کو اپنی مدد آپ صف آراء ہونا پڑئے گا. بلوچ سرمایہ دار, بلوچ مزدور ؤ محنت کش کو آپسی تصادم کروانے سے زیادہ ضروری ہے کہ انکے درمیان توازن قائم کرکے بلوچ خطے میں قائم نوآبادیاتی پالیسی ؤ اشرافیہ طبقے کے خلاف مشترکہ جدوجہد کے راہ ہموار کئیے جائیں تاکہ بلوچ قومی ملکیت کی دفاع کرکے بلوچ خطے میں موجود اکثریت محنت کش مزدوروں کو انکا اجرت سہی طور پر مل سکے اور یہ تب ممکن ہے جب بلوچ محنت کش طبقہ لفاظی بنے کے بجائے عملی طور پر قابض اشرافیہ کا تختہ انقلابی طرز حکمت پر الٹ دے اور ایک مہذب مزدور و محنت کش طبقے کے اقتدار کی بنیاد رکھ سکے