یہ اشرافیہ کون ہے؟

انور ساجدی
جی چاہ رہا تھا کہ آج کالم کا ناغہ کیاجائے لیکن وائٹ ہاؤس کی بریفنگ دیکھی تو ارادہ ترک کردیا۔ صدر ٹرمپ کہہ رہے تھے کہ انکے پاس شواہد آگئے ہیں کہ کرونا ووہان کی لیبارٹری سے نکلا تھا یہ پہلی بار نہیں ہے کہ امریکی صدر نے چین پریہ الزام لگایا بلکہ ثبوت کی بات انہوں نے پہلی مرتبہ کی ہے ویسے تو جب سے کرونا آیا ہے امریکہ اور چین کے درمیان کشیدگی پیدا ہوگئی ہے لیکن اس معاملے پر کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے صبح سی این این پر ماہرین بتارہے تھے کہ امریکی معیشت کی بحالی میں برسوں لگیں گے لیکن ٹرمپ نے فوری طور پر کہا کہ جونہی کرونا رک جائے امریکی معیشت اونچی پرواز شروع کرے گی انہوں نے گزشتہ رات سعودی عرب کودھمکی دی تھی کہ وہ تیل کی پیداوار کم کرے ورنہ امریکہ فوجی تعاون ختم کرے گا سعودی عرب نے بھی زیادہ دیر نہیں لگائی جس کی وجہ سے امریکی تیل کی قیمت میں فوری طور پر ایک ڈالر کا اضافہ دیکھنے میں آیا عالی جناب ٹرمپ اس لئے حواس باختہ ہیں کہ یہ الیکشن کا سال ہے انہیں خطرہ ہے کہ انکے صدارتی الیکشن کو بھی کرونا لگ جائیگا اس لئے وہ تقریباً روزانہ اول فول بولتے رہتے ہیں اس لئے انکے اقوال کو لوگ لطائف کے طور پر دیکھ رہے ہیں کچھ ایسی ہی صورتحال پاکستان میں دیکھنے میں آرہی ہے ہمارے وزیراعظم صبح جو بات کرتے ہیں شام کو بھول جاتے ہیں انکی ہر بات دوسرے کی تردید ہوتی ہے۔انہوں نے کرونا کے بارے میں کمان اینڈکنٹرول سسٹم بنایا جس نے گزشتہ ہفتہ اعلان کیا تھا کہ لاک ڈاؤن میں دوہفتے کااضافہ کیاجارہا ہے وفاقی وزیر اسدعمر تازہ صورتحال کے بارے میں تقریباً روزانہ بریفنگ بھی دیتے ہیں لیکن گزشتہ روز وزیراعظم نے فرمایا کہ اشرافیہ نے لاک ڈاؤن مسلط کردیا لوگ حیران ہیں کہ اشرافیہ سے انکی کیامراد ہے؟آیا وہ اس وقت خود اشرافیہ کے سربراہ نہیں ہیں؟آخر وہ کون لوگ ہیں جو وزیراعظم کی مرضی کیخلاف لاک ڈاؤن مسلط کررہے ہیں کہیں تو ایسا نہیں کہ وزیراعظم کی مراد اصلی اشرافیہ سے ہے اور وہ خود کو اسکے سامنے بے بسی محسوس کررہے ہیں بظاہر تو طاقت کے تمام عناصر ایک پیج پر نظرآرہے ہیں لیکن وزیراعظم کی پریشانی سے ظاہر ہوتا ہے کہ انہیں الگ کردیا گیا ہے یا انہوں نے اپنی اتھارٹی کھودی ہے اس حوالے سے تو طارق جمیل کایہ کہنا درست ہے کہ ایماندار وزیراعظم اکیلے ہیں اور کہاں تک اکیلے اجڑے چمن کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔
یہ بات تو طے ہے کہ کرونا کے بعد کئی بنیادی تبدیلیاں متوقع ہیں جب معیشت کابٹہ بیٹھ جائیگا تو وزیراعظم مزید مشکلات میں گرجائیں گے حالانکہ کرونا توقدرتی وبا ہے اور وہ ساری دنیا پر ٹوٹ پڑی ہے وہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں لیکن وزیراعظم پریشان ہیں کہ انہوں نے 50لاکھ گھر اور ایک کروڑ نوکریاں دینے کا جو وعدہ کیا تھا وہ تو دھرے کے دھرارہ گیا نئے منصوبے تو اپنی جگہ وسائل اتنے کم ہیں کہ روز مرہ کے اخراجات پورے کرنے بھی مشکل ہیں یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم نے باضابطہ طور پر چین سے درخواست کی ہے کہ قرضوں کی اقساط موخر کی جائیں ایسی ہی درخواست تباہ حال سعودی عرب اور یواے ای سے بھی کی گئی ہے جنہوں نے ابھی تک کوئی جواب نہیں دیا ہے ایک اور پریشانی کی بات یہ ہے کہ طویل لاک ڈاؤن کی وجہ سے انڈیا لائن آف کنٹرول پر مسلسل فائرنگ کررہا ہے جس کی وجہ سے ”سیکورٹی بڑھانے“ کیلئے مزید وسائل درکار ہیں اسی طرح وزیرستان میں جو دوبارہ دہشت گردی کی لہر چلی ہے اسکے مقابلے کیلئے بھی بہت وسائل چاہئیں لہٰذا جو امداد مل رہی ہے وہ تو ادھر لگ جائیگی عمران خان ملک کیسے چلائیں گے اوپر سے انکے مشیر روز ایسے شوشے چھوڑتے ہیں کہ وزیراعظم کیلئے نت نئے مسائل کھڑے ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر حکومتی مشیروں نے بیٹھے بٹھائے طے شدہ قادیانی مسئلہ دوبارہ اٹھادیا کس نے کہاتھا کہ قادیانیوں کواقلیتی کونسل میں نمائندگی دی جائے اسدعمر نے تویہاں تک کہہ دیا کہ انکی جماعت اقلیتی نشستوں پرقادیانیوں کو ٹکٹ بھی جاری کرے گی اگرقادیانی خود کو اقلیت سمجھنے اور دائرہ اسلام سے خارج ماننے کیلئے تیار ہیں تو حکومتی اقدامات میں کوئی مضائقہ نہیں لیکن اگر وہ مصر رہے کہ وہ مسلمان ہیں تو حکومت کو لینے کے دینے پڑیں گے کیونکہ پاکستان کا دینی حلقہ قادیانی مسئلہ پر کسی سمجھوتے کیلئے تیار نہیں ایسے لوگ بھی ہیں جو ہر طرح کی قربانی دینے کیلئے تیار ہیں بلکہ غفورحیدری نے یہاں تک کہا ہے کہ ہم جہاد کیلئے تیار ہیں جہاں تک قادیانی معاملہ کا تعلق ہے تو یہ ذوالفقار علی بھٹو نے حل کردیا تھا آئین میں ترمیم پردستخط کرتے ہوئے انہوں نے کہاتھا کہ وہ اپنی موت کے پروانے پر دستخط کررہے ہیں کیونکہ وہ جانتے تھے یہ بہت مضبوط کمیونٹی ہے وہ اس کا بدلہ ضرور لیں گے قیام پاکستان سے قبل انگریز حکمران اس طبقہ کوبہت اہمیت دیتے تھے سرظفراللہ خان نے مسلمانوں کی طرف سے تیسری گول میز کانفرنس میں شرکت کی تھی وہ اس زمانے میں شاعر پاکستان علامہ اقبال کے جرمنی اور انگلستان میں مینٹورتھے وہ انڈین پارلیمنٹ میں بھی نمایاں حیثیت رکھتے تھے جبکہ انگلستان کی کابینہ برائے انڈیا میں وزیر تھے جب پاکستان بنا تو بانی پاکستان نے انہیں پہلا وزیرخارجہ مقرر کردیا البتہ لیاقت علی خان کے دور میں وہ مستقل لندن چلے گئے پاکستان بننے کے کافی عرصہ تک بیوروکریسی میں قادیانیوں کی اچھی خاصی نمائندگی تھی ایوب خان کے وقت میں 1958تا1969ء قادیانی نمایاں عہدوں پر فائز تھے ایم ایم احمد پلاننگ کمیشن کے چیئرمین تھے جو قادیانی خلیفہ کے قریبی رشتہ دار تھے ممتازسائنس دان ڈاکٹرعبدالسلام کو بھی حکومتی سرپرستی حاصل تھی جھنگ کے قریب ربوہ کے مقام پر قادیانی ہیڈکوارٹرز کی تعمیربھی اسی زمانے میں ہوئی سرظفراللہ خان نے اپنی عمر کے آخری حصے میں پاکستان کا دورہ کیا یہ وہ موقع تھا کہ لاہور ہائیکورٹ میں بھٹو کیخلاف قتل کامقدمہ چل رہا تھا وہ علامہ اقبال کے فرزند جسٹس جاوید اقبال کے مہمان تھے انکو یہ دلچسپی تھی کہ لاہور ہائی کورٹ کس طرح بھٹو کو عبرتناک سزا سنائے گی لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس مولوی مشتاق تو بھٹو کے ذاتی دشمن تھے لیکن قادیانیوں سے انکے قریبی مراسم تھے جنرل ضیاء الحق نے اگرچہ قادیانی آرڈیننس جاری کرکے انکے کئی بنیادی حقوق ختم کردیئے لیکن یہ حقیقت ہے کہ انکے خود کے کئی سسرالی عزیز قادیانی تھے انکی خواہرنسبتی انڈین ایکٹریس بیگم پارہ بھی احمدی تھی اگرچہ بھٹو ضیاؤ الحق اور قادیانیوں کے مشترک دشمن تھے لیکن قادیانی بدلہ لینے کیلئے زیادہ فکر مند تھے انہیں افسوس تھا کہ بھٹو جو اپنے آپ کو سیکولر اور سوشلسٹ کہتے تھے انہوں نے انکو دائرہ اسلام سے خارج کردیا بھٹوکی پھانسی پر انہوں نے اطمینان کااظہار کیا البتہ انکے زعماء باربا یہ پیشنگوئی کرتے رہے ہیں کہ بھٹو باقی نہیں رہا تو1973ء کاآئین بھی نہیں بچے گا۔
اس لئے جب1973ء کے پارلیمانی آئین کی جگہ نئے آئین اور صدارتی نظام کے شوشے چھوڑے جاتے ہیں تو کئی لوگوں کوگماں گزرتا ہے کہ اسکے پیچھے ضرور قادیانیوں کا ہاتھ ہوگا مولانا فضل الرحمن کئی بار کہہ چکے ہیں کہ موجودہ حکومت کے دور میں قادیانیوں کا اثرورسوخ بڑھ رہا ہے خاص طور پر جب حکومت نے ماہر معیشت عاطف میاں کو اپنی ٹیم کا حصہ بنایا تو اس طرح کی چہ میگوئیوں میں اضافہ ہوگیا تھا۔
بہرحال پاکستان کی کوئی حکومت قادیانیوں کودوبارہ مین اسٹریم میں لاکر اہم مقام دینے کی جرأت نہیں کرسکتی کیونکہ اگرایسا ہوا تو دینی طبقہ اور انکے ہزاروں پیروکار سڑکوں پرآجائیں گے صرف یہی خوف 1973ء کے آئین کا ضامن ہے ورنہ کب کا نیا آئین اور صدارتی نظام نافذ ہوچکا ہوتا۔
تمام ترخوف اور تحفظات کے باوجود سرپرستان اعلیٰ پارلیمانی نظام پرضرور حملہ کریں گے کیونکہ اس نظام سے مضبوط مرکز کے تصور کونقصان پہنچ رہا ہے گزشتہ ادوار میں مضبوط مرکز کی خاطر ملک کے بڑے حصہ کوقربان کردیا گیا تھا یہ تو زرداری نے شیخوں مارا ورنہ وہ عام حالات میں کبھی 18ویں ترمیم منظور نہیں کرواسکتے تھے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں