غازی ار طغرل


انور ساجدی

سعودی ولی عہد کی جانب سے اس اعلان کے بعد کہ انکی سلطنت آئندہ سلفی مسلک کی سرپرستی نہیں کرے گی عالم اسلام کے بیشتر ممالک کے علماء نے باالعموم اوربرصغیر کے علماء نے باالخصوص مستقبل کی ساری توقعات ترکی کے حکمران طیب اردوان سے وابستہ کررکھی ہیں سوشل میڈیا پر مختلف قسم کی قیاس آرائیاں، پیشنگوئیاں اورتجزیے جاری ہیں جن کے مطابق 3سال بعد یعنی2023ء کوجب معاہدہ لوزان ختم ہوگا تو ایک نیاترکی ابھر کرسامنے آئیگا جس کے لیڈر اردوان امت مسلمہ کولیڈ کرے گا اس خوش فہمی کا اظہار بھی کیاجارہاہے کہ اردوان ایک بار پھر خلافت کا نظام قائم کریں گے جس کا خاتمہ معاہدہ لوزان کے تحت 1923ء میں ہوا تھا مصطفی کمال پاشا المعروف اتاترک نے اسلامی اقدار کو ترک کرکے ایک ایسی ریاست کی بنیاد رکھی تھی جس نے مغربی کلچر کو اپنایا تھا انہوں نے پہلے اہم قدم کے طور پر حکم دیا تھا کہ آئندہ عربی یا اسلامی نام نہیں رکھے جائیں گے جس پر ترک عوام نے قدیم تاریخی نام اپنائے تھے عہد تیموری کا لباس بھی ترک کردیا گیا تھا عربی رسم الخط منسوخ کرکے رومن رسم الخط اپنایا گیا تھا یورپ کی مانند کیسنیواورنائٹ کلب کھولے گئے تھے بیشتر مساجد پر تالہ ڈال دیا گیا تھا اس زمانے میں استنبول کرد اکثریت کاشہر تھا چنانچہ انقرہ کانیاشہر بساکرکے استنبول میں کردوں کی نسل کشی شروع کردی گئی تھی ایک سوسال ہونے کو آئے ہیں ترکی کی نسل پرست حکومت نے کردوں پر وہ مظالم ڈھائے ہیں کہ وہ تتربترہوگئے ہیں۔ان مظالم کا سلسلہ آج بھی جاری ہے کرد اگرچہ مسلکی اعتبار سے حنفی ہیں لیکن ترکی انہیں سُنی نہیں سمجھتا انکے نزدیک کرد بس کرد ہیں ان کا کوئی مسلک نہیں ہے وہ ترکی کے ازلی اور بدترین دشمن ہیں ترکی نے کئی مواقع پرعراق کے اندر داخل ہوکر وہاں کے کردوں پر بمباری کی ہے جبکہ شامی کردوں پر مظالم ڈھانے کیلئے وہ آج بھی کئی شامی علاقوں میں موجود ہے کردوں کی قیمتی زمین اور اہم وسائل پرقبضہ کرلیا گیا ہے حتیٰ کہ طیب اردوان نے کردوں کی دشمنی میں داعش کی بھرپور مدد کی ایک طرف تو ترکی کا یہ کردار ہے دوسری جانب اردواننت نئے ڈرامے کرکے خود کو عالم اسلام یاسنیوں کے سب سے بڑے لیڈر ثابت کرنے کی کوشش کررہے ہیں فلسطین میں حماس کے زیر قبضہ علاقہ غزہ کے محاصرہ کے وقت ترکی نے امدادی سامان وہاں پر بھیجا جسے اسرائیل نے ضبط کرلیا اس وقت اردوان نے بہت جاہ وجلال دکھایا جو کہ جعلی تھا اسرائیل کے قیام کے بعد ترکی پہلا اسلامی ملک تھا جس نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور اس نے کبھی سفارتی تعلقات نہیں توڑے اردوان عوام کوجذباتی کرنے کیلئے قبلہ اول کی آزادی کی بات کرتے ہیں لیکن سب جانتے ہیں وہ کرد جنگجو سلطان صلاح الدین ایوبی نہیں ہیں۔سوشل میڈیا کے مطابق ترکی نے حال ہی میں کرونا کنٹرول کرنے کیلئے اسرائیل کو امدادی سامان بھیجا ہے اسکے باوجود پاکستان کا ایک دینی طبقہ طیب اردگان کومستقبل کامسیحاثابت کرنے کی کوشش میں لگا ہے ہمارے وزیراعظم بھی طیب اردگان سے اچھے خاصے متاثر ہیں یہ نہیں کہ وہ پاکستان میں کوئی اسلامی انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیں بلکہ وہ یہ دیکھ رہے ہیں طیب اردوان کس طرح اپنے اقتدار کو طول دیتے جارہے ہیں عمران خان کا بھی دل چاہتا ہے کہ وہ روس کے صدر پوٹن چینی صدر ژی اور طیب اردوان کی طرح تاحیات حکمران بنیں طیب اردوان کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ آئندہ چل کر خود کوخلیفہ قراردیں تاکہ انکی تاحیات حکمرانی کوکوئی چیلنج نہ کرسکے لیکن پاکستانی آئین میں خلافت قائم کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ورنہ ضیاء الحق اپنے آپ کو خلیفہ المسلمین مقرر کرتے البتہ ضیاء الحق کے جانشین نوازشریف نے ایک مرتبہ ایک ترمیم کا مسودہ تیار کیا تھا جس میں سربراہ مملکت کا دورانیہ تاحیات رکھا گیا تھایعنی وہ واقعی میں خلیفہ بننا چاہتے تھے لیکن پارلیمنٹ نے یہ ترمیم مسترد کرکے انکے خواب چکنا چور کردیئے ورنہ آج محترمہ مریم کراؤن پرنسس ہوتیں اگرایسا ہوتا تو یہ سلسلہ ”آہنیہ“ یا لوہاروں کی پہلی سلطنت ہوتی۔
وزیراعظم عمران خان نے کچھ عرصہ قبل ہدایت کی تھی کہ ترکی سلسلہ وار ڈرامہ غازی ارطغرل کوپی ٹی وی پر دکھایاجائے یہ ایک طویل سیریل ہے لیکن اس میں زور غازی پر دیا گیا ہے سنا ہے کہ آج کل یہ ڈرامہ اردو میں ڈب کرکے دکھایا جارہا ہے اس کا مقصد جہاد کے ذریعے خلافت کا نظام قائم کرنا ہے سعودی عرب کی امداد کی بندش کے بعد کئی علماء یہی سوچ رہے ہیں کہ جب اردوان خلافت کانظام قائم کریں گے تو سُنی مسلک کے علماء اور مدارس کواسی طرح امداد دیں گے جوشاہ عبداللہ کے دورتک سعودی عرب دیتا تھا لیکن امریکی دستاویزات کے مطابق وہ سعودی عرب کوڈالر دیتا تھا تاکہ وہ جنوبی ایشیاء کے مدارس کو اپنے سانچے میں ڈالیں یعنی مدارس کیلئے سعودی عرب امداد نہیں دیتا تھا بلکہ وہ امریکی امداد کو تقسیم کرتا تھا افغانستان میں سوویت یونین کیخلاف جہاد کے دوران اس مقاصد کے فنڈز بڑی تعدادمیں تقسیم کئے گئے تھے بلوچستان جیسے علاقے میں بھی سینکڑوں مساجد اور مدارس قائم کئے گئے تھے جو آج بھی نظرآتے ہیں توعمران خان چاہتا ہے کہ خلیفہ کے مرتبہ پرفائز ہوجائیں اسی لئے وہ بار بار ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں لیکن حالات اتنے موافق نہیں کہ وہ ریاست مدینہ قائم کرکے اسکے خلیفہ بن جائیں جہاں تک ترکی کا تعلق ہے تو وہاں پرمکمل آمرانہ نظام قائم ہے بنیادی حقوق نام کی کوئی چیز نہیں ہے اظہاررائے پرمکمل پابندی ہے اوراخبارات پرسخت سنسرشپ نافذ ہے پاکستان میں بھی اسی طرح کی روایت قائم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ترکی میں اپوزیشن کاناطقہ بند ہے مخالف سیاسی رہنما جیلوں میں سڑرہے ہیں کرد رہنما عبداللہ اوجلان 25سال سے جیل میں ہے پی کے کے کارکن ہونا اپنی موت کودعوت دینا ہے کئی مرتبہ ترک ایجنٹوں نے یورپی ممالک میں بھی مخالفین کیخلاف کارروائی کی ہے بعض دیگرواقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ ترکی اور اسکے ہمنوا ممالک مخالفین کودوسرے ممالک میں جاکر ماردیتے ہیں یہ کام پہلے اسرائیل کرتا تھا لیکن اب کئی دیگر ممالک بھی اسکی پیروی کررہے ہیں یورپی یونین کی ایک رپورٹ کے مطابق ترکی میں اقلیتیں بدترین زندگی گزاررہی ہیں علویوں کومساجد تعمیر کرنے اور عبادت کرنے کی اجازت نہیں ہے جبکہ ترکی کے سنہ کونسل کوآمرانہ اختیارات حاصل ہیں وہ علوی علاقوں میں جاکر بھی اپنی مساجد تعمیر کرتی ہے جو سلوک اردوان نے گولن کے ساتھ کیا ہے اسکی مثال بدترین ادوار میں بھی نہیں ملتا۔
طیب اردوان نجم الدین اربکان اور عبداللہ گل کاورثہ لیکر چل رہے ہیں اربکان نے سیکولرترکی میں پہلی اسلامی جماعت قائم کی تھی اور عبداللہ گل کو سربراہ بنایا تھا طیب اردوان کہنے تو اسی جماعت اور اسکے نظریات کو لیکر چل رہے ہیں وہ عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ ترکی کو دوبارہ اسلامی سانچے میں ڈال دیں گے لیکن عملی طور پر وہ کچھ نہیں کررہے ہیں وہ خوش الحانی سے تلاوت کرتے ہیں کہ زبردست قاری ہیں انہوں نے واحد کام یہ کیا ہے کہ عربی رسم الخط دوبارہ رائج کردیا ہے تاکہ ترکی کی نئی نسل کوقرآن پڑھنا آئے 1970ء کی دہائی تک ترکی ”فواحش وفکرات“ میں کئی یورپی ممالک سے بھی آگے تھا جس کی وجہ سے یہاں سالانہ کئی کروڑ سیاح آتے تھے جو آمدنی کا بڑاذریعہ تھے یہ کام اسی طرح جاری ہے گزشتہ دنوں وزیراعظم عمران خان نے کہا تھا کہ ترکوں نے کئی صدیوں تک برصغیر پرحکومت کی ہے اس کا مقصد غالباً اردواں کی جی خوشنودی کے ساتھ اپنے دل کوبھی خوش کرنا تھا اگرچہ مغل تیموری نسل سے اپنا تعلق ظاہر کرتے تھے لیکن کئی لوگ کہتے تھے کہ وہ منگول تھے جن سے ترکوں کی نسل چلی ہے عجیب بات یہ ہے کہ ترکی نے قبضہ کے بعد مقامی لوگوں سے کہا ہے کہ وہ یہاں سے چلے جائیں کردوں سے اسکی مخاصمت اسی وجہ سے ہے عمران خان خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کے بعد انڈیا میں جو تحریک خلافت چلی تھی اس کا حوالہ بھی دیتے ہیں اس تحریک نے اتنا اور پکڑاتھا کہ گاندھی نے بھی اسکی حمایت کی تھی لیکن یہ ایک بے مقصد تحریک تھی ترکی ٹوٹ چکا تھا وہاں پر خلافت کی بحالی ناممکن تھی البتہ علی برادران نے اسکے ذریعے خوب چندہ اکٹھا کیا تھا ہندوستان میں اسکے سوا اس تحریک کاکوئی اور مقصد نہیں تھا۔
دعا کی جائے کہ مولانا طیب اردوان ترکی میں خلافت قائم کریں تاکہ پاکستان کے علماء کو ایک نیاآسرا مل جائے ورنہ سعودی عرب کے دستبردار ہونے کے بعد انکو نہ کہیں چندہ ملے گا اور نہ ہی کوئی جائے پناہ۔کوئی وقت تھا جب کویت بھی ہمارے علماء کو امداد دیتا تھا لیکن عراق کے قبضہ کے بعد کویت کے شیوخ بھی محتاط ہوگئے اور انہوں نے ہاتھ کھینچ لیا اگرترکی میں خلافت قائم ہوجائے تو اپنے کپتان کی بھی شائد تاحیات حکمرانی کی مراد پوری ہوجائے لیکن غازی ارطغرل دیکھنے سے لوگوں پر کوئی اثرپڑنے والا نہیں ہے یہ بس اپنے دل کوخوش کرنے کاایک بہانہ ہے۔
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں