فدا شہیدجو اچھے مقرر اچھے شاعر اور اچھے لکھاری تھے

تحریر۔۔۔۔رزاق نادر
یہ غالباً فدا حمد کی شہادت مورخہ2مئی1988سے چار پانچ مہینہ قبل کی بات ہے جب کراچی میں اچانک لیاری فٹبال گراؤنڈ کے قریب سرِ راہے ان سے میری ملاقات ہوگئی۔کچھ عجلت میں میں بھی تھا اور شاید کچھ کچھ جلدی فدا احمد شہید کو بھی تھی اس لئے ہم دونوں اطمینان کے ساتھ کسی ہوٹل میں بیٹھ نہیں سکتے تھے بس کھڑے کھڑے ہم ایک دوسرے کی خیریت پوچھتے رہے اور ایک دوسرے سے حال واحوال کرتے رہے۔
سب سے پہلے فدا احمد شہید نے ڈاکٹر خان محمد صابر (بڑے بھائی) جس کو ہم دوست پیار سے خان پکارتے تھے کے بارے میں پوچھا جو لفٹ کے لٹریچر کے حوالے سے میرے استاد تھے میں نے لاعلمی کا اظہار کیا تو فدا احمد تفصیل بتانے لگے جو کچھ کچھ مجھے بھی معلوم تھا۔انہوں نے بتایا کہ خان صابر لاپتہ ہونے سے پہلے کراچی میں کسی بینک میں ملازمت کررہے تھے جب وہ سیر و تفریح کے لئے لغاری دوست کے ساتھ ڈیرہ غازی خان گئے اور وہیں سے لاپتہ ہوگئے۔پھر ان کا سراغ نہیں ملا۔ اسی دوران کچھ وقت گزرنے کے بعد کراچی سے تربت آنے والی ایک بس میں ان کا بسترہ وغیرہ وصول ہوا مگر وہ خود تا حال غائب ہے۔
جہاں تک خان صابر سے راہ و رسم کا تعلق ہے وہ اس طرح ہے کہ 1973میں خضدار کا لج میں تھرڈ ایئر کا اسٹوڈنٹ تھا جب بی ایس او (عوامی) کے کچھ دوست ڈاکٹرتاج گچکی(چیئرمین)ابو الحسن (صدر کوئٹہ زون)اور ڈاکٹر خان صابر تنظیمی دورے پر خضدار آئے جن کو ساتھیوں نے اپنے ساتھ ہاسٹل میں ٹھہرا یا۔رات کھانے کے بعد کسی کمرے میں میٹنگ ہوئی۔تنظیمی اور تعلیمی مسائل پر گفتگو ہوئی اگلے دن ہمارے مہمان کوئٹہ کے لئے روانہ ہوگئے مگر خان صابر نے مجھ سے اپنا رابطہ بحال رکھا۔ہمارے درمیان خط وکتابت جاری رہی۔حسب حال میرے علم اور انفارمیشن میں اضافہ ہوتا رہا اور اس طرح خان صابر سے ہماری پکی دوستی ہوگئی۔وہ پڑھے لکھے شخص تھے بلوچی زبان کے اچھے شاعر تھے۔حال ہی میں بلوچی اکیڈمی نے ان کی کتاب (مجموعہ کلام)شائع کیا مگر فدا احمد کے برعکس وہ متلوں مزاج شخص تھے اس لئے ایک کام ادھورا چھوڑ کر دوسرے پر لگ جاتے۔ اسی کے مثل شروع میں وہ ڈاکٹری پڑھتے رہے۔میڈیکل میں دو تین سال ضائع کرنے کے بعد انفارمیشن آفیسرلگ گئے اس کے بعد خان صابر کو آڈٹ اور اکاؤنٹس کا شوق چڑھا پھر بینک جوائن کیا اور کراچی شفٹ ہوگئے جیسے کہ ہم نے بالا سطور میں عرض کیا ہے کہ وہ یعنی خان صابر کسی لغاری دوست کے ساتھ ڈیرہ غازی خان روانہ ہوگئے اور وہی سے لاپتہ ہوگئے ان کے ساتھ کیا حادثہ پیش آیا ”واللہ عالم بالصواب“
حال واحوال کے دوران فد اشہید نے یہ بھی بتایا کہ ان کو جان سے مارنے کی دھمکی ملی ہے حالانکہ وہ منکسرالمزاج اور شریف شخص تھے کسی سے ان کا لڑائی جھگڑا نہ تھا وہ پرامن شخص تھے اور نہ ہی بلوچ میار(Code Of Baloch Honour)کے تحت اس پر کسی کا ”بھیر“یابدلہ نہ تھا۔اس کی ذہانت اور قابلیت کے بارے میں پیارے استاد محبوب جمالدینی صاحب سے جب میں کتاب ”افتادگان خاک“ لینے گیا تو انہوں نے فرمایاکہ”فدا احمد سے زیادہ ذہین طالب علم میں نے نہیں دیکھا ہے“۔یہ الگ بات ہے کہ اب لِفٹ کی نظریات کی بجائے وہ دین کی طرف مائل ہیں جو اچھی بات ہے مگر کا ش وہ روس کی شکست اور سوشلزم کے خاتمے کے بعد اس طرح تبدیل ہوتے تو ہم سب کا بھرم رہ جاتا۔خیر یہ تبدیلیاں زندگی کا حصہ ہیں وقت کے ساتھ سب بدلتے ہیں استاد بھی اور شاگر دبھی کیونکہ بقول غالب یہاں ”بس ایک تغیر کو ثبات ہے“ جو عالمگیر اور آفاقی سچائی ہے۔
قارئین واضح رہے راقم فد ااحمد شہید کا یونیورسٹی فیلو رہا ہے اور ہم نے اکھٹے یونیورسٹی میں داخلہ لیا میں نے انگلش لٹریچر اور پھر پولیٹکل سائنس میں جبکہ فدا احمد نے اکنامکس میں ہمارا تعلیمی سیشن1975-76تھا اور ضیاء کے مارشل لاء کی وجہ سے اس نے 1977تک طول کھنچا۔میری معلومات کے مطابق فدا احمد نے کبھی کراچی میں داخلہ ہی نہیں لیا بلکہ چاروں ڈگریاں بلوچستان یونیورسٹی ہی سے حاصل کیں اور یہیں رہ کر انہوں نے صاف اور شفاف سیاست کی دیگر تنظیموں کے ساتھ مل کر نیشلزم اور لفٹ کی سیاست کرتے رہے وہ اچھے کارکن بھی تھے اور اچھے لیڈر بھی۔
داخلے کے فوراً بعد یونیورسٹی میں ایک تقریری مقابلہ ہوا جس کا عنوان تھا ’کہتے ہیں جسکو عشق خلل ہے دماغ کا‘جس میں فدااحمد نے پہلا انعام جیتا اس کے بعد اردو مشاعرہ ہوا جس میں میں نے اور فدا احمد نے حصہ لیا۔مشاعرے میں بھی پہلا انعام فد ا احمد جیتا جو ان کی قابلیت اور ذہانت کا مظہر ہے اچھے مقرر ہونے کے علاوہ وہ اچھے لکھاری اور شاعر بھی تھے ان کی ایک خوبصورت بلوچی نظم”پیتل“کے عنوان سے پندرہ روزہ نوائے وطن میں چھپ چکی ہے اتنی ساری خوبیوں کا مالک خونی اور جھگڑالو نہیں ہوسکتا اور نہ ہی وہ ضدی اور ہٹ دھرم تھے جیسا کہ اس کے دشمن اور قاتل اس کے بارے میں پروپیگنڈا کرتے ہیں ان پر یہ الزام سراسر بے بنیاد اور غلط ہے۔کسی کو قتل کرنے اور مارنے کے حوالے سے یہ بہت ہی سطحی اور بچگانہ بات ہے انہوں نے ہر صورت میں فدا احمد کو شہید کرنا اور مارنا تھا اس لئے انہوں نے بلوچوں کے ایک بطل جلیل اور معصوم شخص کو بلاوجہ شہید کردیا۔
ویسے تو فدا احمد کو مارنے کی بہت ساری وجوہات و اسباب ان کے پاس تھے مگر فوری وجہ1967سے منقسم اور منتشر بی ایس او کو دوبارہ متحد اور منظم کرنے کا تھا جو ان کو کسی طرح ہضم نہیں ہورہا تھا چنانچہ ان لوگوں نے اپنے آقاؤں کے کہنے پر ایک بیٹھک میں منصوبہ بنایا اور یوم مزدور کے موقع پر مورخہ2مئی 1988کو سازش کے تحت فدا احمد کو شہید کردیا۔مسلح قاتل مذکورہ تاریخ کو ان کے کتابوں کی دکان پر گئے جس میں فدا احمد کچھ دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے آتے ہی نشے میں دھت قاتلوں نے اندھا دھند فائرنگ شروع کردی جس کے نتیجے میں موقع پر فدا احمد شہید اورمحمد جان رضان شدید زخمی ہوگئے۔دفاع میں یعقوب بلیدی نے فائرنگ کی تو بزدل قاتل نامردی کے ساتھ بھاگ گئے اور ایک ملعون پھیر میں گولی لگنے سے زخمی ہوا اور لنگڑا تا ہوا ہسپتال پہنچا موت کے خوف سے وہاں ہر ایک سے گھڑ گھڑا کر معافیاں مانگتا رہا کہ
خدا کے واسطے مجھے نہ مارو میں آئندہ ایسی غلطی نہیں کروں گا مگر بے لگام آزادی کی وجہ سے شہیدایوب جان بلیدی کے قتل میں بھی ملوث رہ کر اس نے قرآن کی یہ بات سچ ثابت کردی کہ ”ملعون تم کو اس گناہ پر معاف بھی کردیاجائے تو تم بعد میں بھی وہی کچھ کرو گے جو تم نے پہلے کیا تھا“ اس لئے کہ تم بھری فطرت پر پیدا ہوئے ہو اور اچھائی تم سے ہو نہیں سکتی۔
تاریخ کو مسخ کرنے کے لئے یہ غداران وطن اب اس بیانیہ کو آگے بڑھا رہے ہیں کہ قاتل شہید فدا کو مارنے نہیں ڈرانے اور دھمکانے گئے تھے مگر بُرا ہوا یعقوب بلیدی کاجس نے دفاع میں فائر کیا جس سے قاتل مشتعل ہوگئے اور انہوں نے مجبور ہو کر فدااحمد کو شہید کردیا ورنہ وہ تو مسلح ہو کر فدا احمد شہید کو پھولوں کا ہار پہنانے گئے تھے حالانکہ عقل کا اندھا بھی ان اقداما ت اور تیاریوں کو دیکھ کر جان سکتا ہے کہ صریحاً قتل عمد ہے اور قانونی حوالے سے یہ اقدام تعزیرات پاکستان کے دفعہ302کے زمرے میں آتا ہے کیونکہ وہ باقاعدہ ایک پلان اور منصوبے کے تحت آئے تھے اور انہوں نے تیارشدہ سازش کے تحت یہ کار سیاہ سرانجام دیا اور اس پلان کو پا یہ تکمیل تک پہنچایا اور معصوم و بے گناہ بلوچ بطل جلیل کو اس لئے مارا کہ وہ اپنے اکلوتے ادارے(بی ایس او)کو تھوڑنے نہیں دے رہے تھے جسے انہوں نے بڑی مشکلوں سے متحد کردیا تھا۔فدا احمد شہید اور بی ایس او کے دیگر مخلص دوستوں نے1976سے قبل بی ایس او کو دوبارہ منظم اور متحد کرنے کی کوشش شروع کی تھی جو 1984 کوجا کر کامیاب ہوا مگر سازشی عناصر پہلے دن ہی اس اتحاد کو اچھی نظر سے نہیں دیکھ رہے تھے بلکہ پہلے دن ہی کسی نے آکر میرے سامنے کہا کہ ہمیں اتحاد قبول نہیں ہمارے لئے الگ ترانہ لکھو مجھے افسوس بھی ہوا اور حیرانگی بھی۔یہ دوست کس قسم کی بات کررہے ہیں شاید یہ آقا کا فرمان تھا اس لئے فدا احمد شہید کا مارا جانا ضروری تھا بس فدا احمد کو شہید کردیا جس کے لئے فیض صاحب نے کیا خوب کہا ہے۔
ہم اہل دل کے لئے ہے یہ نظم بست و کشاد
کہ سنگ خشت مقید ہیں اور سگ آزاد
ہزار لعنت اور پھٹکا ر ہو اس بیمار معاشرے پر جس کے منفی اور بیمار افراد فدا احمد شہید کے قاتلوں سے نفرت کرنے کی بجائے ان کی پذیرائی کرتے ہیں اور اعزاز بخشتے ہیں اپنے اس منفی عمل سے وہ شہید فدا کے عزیز واقارب کی زخموں پر نمک پاسی کرتے ہیں جو سچائی اور انصاف کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ ہے اور اپنے اس غلط اور ناپاک عمل سے وہ بلوچ قوم کے وارثوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ ”گلے زمین“میں یتم کی لہو کی کوئی وقعت نہیں یہ نظم فیض صاحب نے ہارون کالج کراچی میں پرنسپل شپ کے دوران لکھی ہے۔خوبصورت نظم ملاحظہ ہو۔
یتیم لہو۔
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہوکا سراغ
نہ دست و ناخنِ قاتل نہ آستیں پہ نشان
نہ سرخیِ لبِ خنجر نہ رنگ ِنوک سنان
نہ خاک پہ کوئی دھبانہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سراغ
نہ رزمگاہ میں بر سا کہ معتبر ہوتا
کسی علم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
پکارتا رہابے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہرِسماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خون خاک نشینان تھا زرق خاک ہوا

اپنا تبصرہ بھیجیں