سری لنکا, جھڑپوں میں 20 افراد زخمی، کولمبو میں کرفیو
سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو میں معاشی بحران کی وجہ سے مخالف سیاسی جماعتوں کے گروپوں میں میں تصادم کے بعد پولیس نے کرفیو نافذ کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’اے ایف پی‘ کے مطابق ملک بھر میں مہینوں سے جاری بلیک آؤٹ، خوراک، ایندھن اور ادیات کی شدید قلت اور معاشی بدحالی کی وجہ سے جنوبی ایشیا کا یہ جزیرہ کئی ہفتوں سے مسائل کا شکار ہے جس کی وجہ سے ملک میں حکومت کے خلاف شدید مگر پرامن مظاہرے ہو رہے ہیں۔حکام کے مطابق کولمبو کے وسط میں تشدد کے دوران کم از کم 20 افراد زخمی ہو گئے۔اے ایف پی کے نمائندوں کے مطابق راجاپکسے خاندان کے مسلح وفاداروں نے غیر مسلح اور پرامن احتجاج کرنے والوں پر لاٹھیوں سے حملہ کیا جو 9 اپریل سے صدر گوٹابایا راجاپکسے کے دفتر کے باہر احتجاجی کیمپ لگائے بیٹھے ہیں۔پولیس نے حکومتی حامیوں پر آنسو گیس فائر کیے اور واٹر کینن کا استعمال کیا جنہوں نے حکومت مخالف مظاہرین کے قائم کردہ احتجاجی کیمپوں اور دیگر ڈھانچے کو توڑنے کے لیے پولیس لائنوں کو توڑا۔صدر گوٹابایا کے بھائی و وزیر اعظم مہندا راجاپکسے نے عوام سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے عوام کوتشدد سے گریز کرنا چاہیے اور یہ یاد رکھنا چاہیے کہ تشدد صرف تشدد کو ہی جنم دیتا ہے‘۔
انہوں نے اپنے ٹوئٹر پر جاری کردہ بیان میں کہا کہ ’معاشی بحران کا حل معاشی ہی ہے جس کے لیے انتظامیہ پرعزم ہے‘۔حکومت نے ہنگامی حالت نافذ کرتے ہوئے فوج کو جمعہ کے روز لوگوں کو گرفتار کرنے اور حراست میں لینے کے اختیارات دیے تھے، جب ٹریڈ یونینوں نے صدر گوٹابایا راجاپکسے کو استعفیٰ دینے کے لیے دباؤ ڈالنے کی کوشش میں ملک کو ایک ’مجازی تعطل‘ پر پہنچا دیا تھا۔وزارت دفاع نے اتوار کو اپنے جاری کردہ بیان میں کہا تھا کہ حکومت مخالف مظاہرین اشتعال انگیزی اور دھمکیوں والا برتاؤ اختیار کر رہے ہیں اور ضروری خدمات میں خلل ڈال رہے ہیں۔تاہم یونینز نے کہا ہے کہ وہ پیر سے ہر روز احتجاجی مظاہرے کریں گے تاکہ حکومت پر ’ہنگامی‘ صورتحال ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جاسکے۔یونین رہنما روی کمودیش نے کہا کہ وہ سرکاری اور نجی اداروں میں کام کرنے والے مزدوروں کو منظم اور متحرک کریں گے کہ وہ 17 مئی کو قومی پارلیمنٹ کے آنے والے سیشن کے دوران وہاں جمع ہوجائیں۔انہوں نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ صدر اور ان کا خاندان اقتدار سے نکل جائے۔ملک کے ہزاروں عوام کے طرف سے 31 مارچ کو کولمبو میں صدر کی ذاتی رہائش گاہ پر دھاوا بولنے کے بعد کبھی ان کو عوام میں نہیں دیکھا گیا۔


