ضلع آواران میں بلدیاتی انتخابات. لوگوں کے امیدیں اور توقعات

تحریر … لطیف بلوچ

بلوچستان کے دیگر علاقوں کی طرح ضلع آواران میں بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سیاسی پارٹیوں کیرہنماوں اور امیدواروں کی طرف سے سرگرمیاں تیز سالوں پہلے وفات پانے والوں کے لواحقین سیتعزیت اور ہمدردیاں وہ سیاسی رہنما جنہوں نے کبھی غلطی سے علاقہ کی طرف اپنا رْخ تک نہیں کیا تھا اور علاقے کے لوگوں سے ملنے کی فرصت نہیں ہوتی تھی اور نہ فون کال اٹھاتے تھے. اج سب کچھ بدل گیا ہے. آواران میں سیاسی جماعتوں کے قائدین نے ڈیرے ڈال دیئے ہیں. جوڑ توڑ کی سیاست عروج پر ہے. ضلع آواران میں بلدیاتی انتخابات میں وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو کے پارٹی بلوچستان عوامی پارٹی ضلعی سطح پر بلدیاتی انتخابات میں بننے والی اتحاد آواران عوامی پینل(آپ)جس میں (بی این پی مینگل،نیشنل پارٹی،جے یو آئی، محمد حسنی اور ساجدی قبائل شامل ہیں)کے امیدواروں کے درمیان کانٹے دار مقابلہ ہے جبکہ تحصیل مشکے کے دو یونین کونسل نوکجو، پروار اور میونسپل کمیٹی گجر
مشکے کے ٹوٹل تحصیل مشکے کے بائیس ممبران میں سے عوامی پینل ماسوائے آٹھ وارڈوں کے باقی سب امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں. اور جہاں مقابلہ ہے وہاں عوامی پینل کیامیدواروں کی پوزیشن مضبوط ہے جن کی کامیابی یقینی ہے.
جبکہ اصل کھیل تو تحصیل آواران اور تحصیلجھاو میں ہے جہاں باپ اور آپ کے امیدواروں کے درمیان کافی دلچسپ اور سخت مقابلے کی توقع ہے. آواران ٹاون میں اور کولواہ، گیشکور میں چند وارڈوں کے علاوہ باقی تمام وارڈوں میں باپ اور آپ کے حمایت یافتہ امیدواروں کے درمیان سخت اور دلچسپ مقابلے کا امکان ہے. جبکہ جھاو میں بھی باپ کے حمایت یافتہ امیدواروں خاص کر میر عبدالقدوس بزنجو کے چھوٹے بھائی میر جمیل احمد بزنجو اور نیشنل پارٹی کے امیدوار محمد شفیع جوکہ ایک انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اور جھاو واجہ باغ کے مین بازار میں چائے کاہوٹل چلا رہے ہیں کیدرمیان دلچسپ مقابلہ ہے جہاں قبل از وقت کچھ نہیں کہا جا سکتا. مگر جھاو سے باپ پارٹی کے تین سے چار امیدوار بلا مقابلہ منتخب ہوئے ہیں مگر باپ پارٹی کے خلاف بننے والی اتحاد آپ(آواران عوامی پینل)باپ کے لئے دردسر بن کر باپ کے رہنماؤں کو سکون و آرام سے جینے نہیں دے رہا ہے باپ اور نیشنل پارٹی کے رہنما دن رات ایک کر کے اپنے اْمیدواروں کے کامیابی کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں. کیونکہ جھاو میں نیشنل پارٹی کے علاوہ جمعیت، بی این پی مینگل. سردار محمدحسنی
کافی ووٹ بینک رکھتے ہیں. جو اب اتحاد کی صورت میں باپ کے لئے پریشانی اور مشکلات پیدا کر کے انکے اندازے کو غلط ثابت کر سکتے ہیں.
ایک صحافی اور غیر جانبدار کی حیثیت سے میں نے ضلع بھر کے لوگوں سے ملاقات اورفون پر اْن کی رائے اور تاثرات جاننے کی کوشش کی تو ملا جلا رجحان سامنے آیا ضلع کے لوگوں کا موقف تھا ہمیں الیکشن سے کیا ملا ہے گزشتہ کئی سالوں سے سے ووٹ دے رہے ہیں مگر ہماری زندگیوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور اب بھی ہم زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں.
جبکہ چند لوگوں کا خیال تھا کہ ہم بہتر لوگوں کا انتخاب کر کے علاقے میں تعمیر و ترقی کا سلسلہ شروع کر سکتے ہیں اور اس کے لئے ووٹ اور الیکشن بہترین موقع ہے جن لوگوں نے پہلے عوامی امانت میں خیانت کی ہے اس کو ووٹ کے ذریعے احساس دلانے کی کوشش کریں. سروے میں لوگ پارٹیوں سے ناواقف تھے بلکہ شخصیات کے نام سے زیادہ واقف تھے اور ضلع میں شخصیت پرستی لوگوں کے ذہنوں میں اب بھی موجود ہے.
البتہ یہ حقیقت ہیکہ پسماندگی اور بدامنی نے ضلع آواران کے سکون اور مسکراہٹ چھین لی ہے.
ضلع آواران کے لوگ آج بھی زندگی کے بنیادی سہولیات سے یکسر محروم ہیں تعلیمی اداروں میں سہولیات میسر نہیں، سڑکیں سفر کے قابل نہیں، سرکاری ہسپتالوں میں ادویات اور دیگر سہولیات میسر نہیں.بجلی جو صرف آواران اور مشکے کے ٹاون ایریاز کے چند علاقوں میں چوبیس گھنٹے میں سے صرف پانچ گھنٹے جبکہ مشکے کے بیشتر علاقوں میں اڑتالیس گھنٹے کے بعد صرف پانچ گھنٹے جبکہ باقی ضلع آواران کے لوگ بجلی سیمحروم ہیں. ضلع آواران کے لوگوں کے لیے وقت نے بریک لگا رکھی ہے کیونکہ ضلع آواران کے عوام اس جدید اور ترقی یافتہ دور میں بھی قرونِ وسطیٰ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں.
سیاسی جماعتوں اور عوامی نمائندے ضلع آواران کے لوگوں کے مسائل پر توجہ دیں اور عوام کو پسماندگی اور محرومی کی دلدل سے نکال لیں. اب لوگوں میں شعور بیدار ہو چکا ہے اور اگر کسی سیاسی جماعت یاعوامی نمایندہ نے عوام کے مسائل کی طرف توجہ نہیں دی اور ان کے بنیادی مسائل حل نہیں ہوئے تو عوام کا اعتبار ووٹ و الیکشن سے مکمل طور پر ختم ہو جائے گا اور سیاسی جماعتوں کے قائدین اور اس دفعہ منتخب ہونے والے نمائندے بعد میں عوام میں آنے کی ہرگز کوشش نہ کریں.جوایک بھروسہ اور اعتبار ہے وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا.
واقعی ضلع آواران کے لوگ زندگی کیبنیادی سہولیات سے محروم ہیں ہر الیکشن کے وقت لوگوں سے وعدے اور اقرار کئے جاتے ہیں کہ ان کے اور علاقے کے مسائل حل کریں گے مگر منتخب ہونے کے بعد تمام وعدے اور اقرار بھول جاتے ہیں اور علاقہ اور لوگوں کے مسائل کے مشکلات جوں کی توں ہیں. لوگوں کی زندگیوں میں کوئی بہتری نہیں آئی ہے. جس کے باعث لوگوں میں الیکشن کے حوالے سے سے ایک مایوسی اور بیزاری پائی جاتی ہے.

اپنا تبصرہ بھیجیں