صوبے میں بلدیاتی الیکشن اور بڑھتی مایوسی۔

تحریر۔ محمدطاہر مری
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعلان کے بعد صوبے میں کوئٹہ اور لسبیلہ کے علاوہ دیگر اکثروبیشتر اضلاع میں 29مئی کو الیکشن منعقد ہوں گے الیکشن کمیشن حکام کے مطابق صوبے کے مختلف اضلاع سے 6052امیدواروں کے دستبردار ی کے بعد اب 17774امیدوار انتخابات میں حصہ لے کر قسمت آزمائی کریں گے بلدیاتی انتخابات کا عمل آئینی تقاضہ ہے اور اس کا مقصد اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے ساتھ ساتھ عوام کو اس قابل بنانا ہے کہ وہ صاف اور شفاف لوگوں کو اس عمل کا حصہ بنائیں اور ووٹ کے ذریعے ان لوگوں کو آگے لائیں جو خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں لوگوں کے مسائل ان کی دہلیز پر حل کریں۔ قانون کے مطابق تو اسلامی جمہوریہ پاکستان جموریت کی تین بڑے ستون پر مشتمل ہے جس میں قومی، صوبائی اور لوکل گورنمنٹ شامل ہیں۔ یہ سب اہم ہیں کیونکہ ہر ایک کا اپنا اپنا دائرہ کار اور طریقہ کار ہے مگر ان میں سب سے اہم لوکل گورنمنٹ اس لئے ہے کیونکہ یہ ملک و قوم کیلئے نچلی سطح پر انتہائی ایماندار، سمجھدار اور شفاف لیڈرشپ مہیا کرتی ہے۔ اگرچہ اٹھارہویں ترمیم کے بعد صوبوں نے اپنے منصوبے بنائے اور اپنے ٹارگٹس سیٹ کئے مگر اب تک کوئی حکومت ان ٹارگٹس کو حاصل کرنے میں کوئی خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں کر سکی بالخصوص معاشی بحران،بڈ گوارنیس کا شکار ہونے کی وجہ سے لوگ تباہی کے دہانے پر پہنچے گئے ہیں
طریقہ کار کے مطابق لوکل گورنمنٹ میں ہر کونسل، کمیٹی، ضلع اپنا بجٹ اپنے محاصلات کے مطابق پیش کرے گا مگر یہاں ہوا ہمیشہ اس کے بلکل الٹ، اس لئے اب کسی کو اس کے استعمال کرنے کا طریقہ نہیں آ رہاہے کسی کی صلاحیت نہیں، کوئی کام کرنا نہیں چاہتا یا کرپشن عام ہے یہ سب کچھ ہمارے جمہوریت کے بدنما حصے ہیں ہم نے جمہوریت کے اتنے تجربے کئے ہیں کہ اب اگر کئی سالوں تک کوئی تجربہ نہ ہوں تو اندر سے آواز آتی ہے کہ اب تو کچھ ہونا چاہئے جیسے ان دنوں صدرارتی نظام یا صوبوں میں کئی سال تک گورنر راج کے چرچے چائے کے ڈہابوں سے لیکر تجربہ گاہوں تک ہیں دل چاہئے کچھ بھی تجربے کرلیں مگر سب سے اہم اختیارات کی تقسیم اور عملدرآمد ہے جو کہی عملی صورت میں نظر نہیں آتا۔ اگرچہ ہم اختیارات کی تقسیم اور نچلی سطح پر بات تو کرتے ہیں مگر وہ سب کچھ کاغذات میں ہوتے ہیں اس کے لئے کوئی بھی ذہنی طور پر تیار نہیں اور اگر مخلصی سے جائزہ لیں تو قومی اور صوبائی اسمبلی کے ممبرز حضرات اپنے فنڈز اور اختیار میں کیوں ان کو شامل کریں؟ کیونکہ ہر ضلع سے منتخب ہونے والے صوبائی اسمبلی اور قومی اسمبلی کے اراکین کے کروڑوں روپے کے فنڈز ہوتے ہیں فنڈز وہ کہاں ضلع کے اُ ن لوگوں کو دینے کیلئے تیار ہوں گے جب اس میں ان کی مرضی شامل نہ ہو۔ اس لئے ماضی کی تمام حکومتوں میں فنڈز کی اس تقسیم پر جھگڑے ہوتے رہے اور عوام رلتی رہی۔ اندازہ لگائیں وائس چیئرمین، کونسلرز، یونین کونسل چیئرمین کو دفترکا کرایہ حاصل کرنے کیلئے خود کئی چکر لگانے پڑتے ہیں ایسے میں وہ لوگوں کے مسائل کیسے حل کریں گے اور ایسے میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا کیا مقصد لیا جائے۔ ہمارے ان ناقص پالیسیوں کی وجہ سے ضلعی حکومتیں اور صوبائی حکومت کے درمیان ہمیشہ انتظامی نظام میں بگاڑ کے باعث عوامی مفاد کے کام خوابوں کی حد تک محدود رہ گئے۔
اصل میں ہم یورپ کے اس نظام کو د یکھ رہے ہیں جہاں لوکل گورنمنٹ الیکشن کو اہم سمجھا جاتا ہے تاہم ان کا کام لوگوں کی خدمت کرنا ہوتا ہے نہ کہ پالیسیاں بنانا ہمارے ہاں بدقسمتی سے جھگڑا اب بھی اس بات پر ہے کہ بجلی کے کھمبے، ٹرانسفارمر کے اوپر افتتاح کا نام کس کا لکھا جائے گا، پانی کے نلکے کا افتتاح کون کرے گا؟ ہم نے بدقسمتی سے اس کو اختیارات کی نچلی سطح کا نام دیا مگر کام وہ نہیں کیا جو کرنا تھا۔ نظام اچھا ہے مگر نفاذ میں کمی ہے اختیارات اور فنڈز کے پیج سرد جنگ نے اس نظام کو تباہی کے دہانے پہنچا دیا ہے یقیناً حکومتوں میں سب سے طاقتور لوکل گورنمنٹ ہے اس میں منتخب ہونے والے لوگ اگر چاہیں تو ملک اور قوم کی تقدیر بدل سکتے ہیں کیونکہ یہ علاقے کی سطح پر ان لوگوں کے درمیان منتخب ہوتے ہیں جن کا حلقہ ارباب بہت محدود ہوتا ہے اس لئے بھی کہ وہ سب لوگوں کو پہچانتے ہیں۔ لوگ اپنے حلقے سے سب سے مضبوط، خدمت گار، کفایت شعار اور خدمت کے جذبے سے سرشار لوگوں کا انتخاب کرتے ہیں مگر یہاں سب سے بڑا مسئلہ وہی اختیارات،عملدرآمد اور لوگوں کیلئے کام کی عدم دلچسپی کا ہے کیونکہ صوبے میں اب تک متعداد بار لوکل گورنمنٹ کے الیکشن میں نچلی سطح پر ہی لوگ منتخب ہوکر آئے ہیں مگر صورتحال نہیں بدلی جیسی تھی ویسے ہی رہتا تو بھی بہتر تھا مگر وقت گزارنے اور آبادی بڑھنے سے صورتحال مزید خراب ہوگئی ہے کاغذی کارروائی کی حد تک تو ہم کوئٹہ ڈویلپمنٹ سٹی پروجیکٹ مختلف اضلاع میں ماڈل سٹی کے کروڑوں روپے کے پروجیکٹ کا اعلان سن چکے ہیں مگر بدقسمتی سے ہمیں صوبائی دارلحکومت کوئٹہ سمیت صوبے کے کسی بھی ضلع میں ترقیاتی یافتہ سٹی تو دور کہی کوئی ڈھنگ کا سیوریج نظام ہی نہیں ملتا ہے کسی گلی اور محلے کو چھوڑ کر صوبے کے سب سے بڑے شہر کوئٹہ اور دیگر اضلاع کے مرکزی بازاروں میں گٹر دن میں اتنے بار ابلتے ہیں کہ لوگ اب عادی ہوچکے ہیں۔
حالیہ بلدیاتی انتخابات میں ان دنوں سیاسی گہما گہمی تمام علاقوں میں اپنے جوبن پر ہے کہی سیاسی بھٹک میں ٹرپ کارڈ کھیلنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے تو کہی اتحادیوں اور ورکرزکے ناز ونخرے جاری ہیں مگر حالیہ انتخابات میں ایک تشویش ناک صورتحال تمام حلقوں میں یکساں نظر آیا ہے کہ امیدواروں کی غیر ذمہ داری سے ورکرز اتنے جوشیلے ہوچکے ہیں کہ مخالف پارٹی کے ورکروں اور امیدواروں کو الیکشن کے علاوہ غیر سیاسی طور طریقوں سے باہر کرنے کیلئے ہر حربے استعمال کئے جارہے ہیں جس کا زیادہ تر اثرات مرکزی سیاسی جماعتوں کے غیر ذمہ دارانہ سیاست کے رویہ سے بھی ہے جہاں گزشتہ ایک سال کے دوران سیاست سے ہٹ کر گالم گلوج اور کردار کشی کاناتھم نے والا سلسلہ جاری ہے جس کے بہت منفی اثرات نچلی سطح کے الیکشن لوکل گورنمنٹ میں دیکھے جاسکتے ہیں اس لئے تمام سیاسی پارٹیوں کو ذمہ داری کا
مظاہر کرتے ہوئے سیاسی طور طریقوں سے الیکشن جیتنے کی تگ ودؤ کرنا ہوگا یہاں لنگڑی لولی جمہوریت کو چلنے دینا چاہئے اس میں ملک اور قوم کی بہتری ہے آخر میں تمام سیاسی جماعتوں سے ناصرف یہ کہوں گا کہ وہ الیکشن کے مہم کو جمہوری انداز میں بھر پور طریقے سے چلائیں بلکہ یہ بھی کہوں گا کہ غیر سیاسی حربے سے گریز کریں مکافات عمل سے ڈریں اور خدارا اب اس صوبے کے باسیوں کے لئے حقیقی معنوں میں نچلی سطح پر عملی ترقیاتی کام کئے جائیں نام کے تختی اور زبانی دعوں سے نکل کر گرونڈ میں عملی کام کرنے کی اشد ضرورت ہے تاکہ وہ دن نہ دیکھنے پڑیں کہ ووٹرز مایوس ہوکر ووٹ ڈالنے سے ہی بائیکاٹ کریں اوریوں عوام اس بوسیدہ جمہوریت کے بجائے کسی اور طرف آس لیکر بیٹھ جائیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں