کوئٹہ زلزلہ ، 31مئی 1935

ملا عیسیٰ لنگ‘ڈھاڈر‘ کی ڈائری سے عبدالقادر رند کی خوشہ چینی
آج سے ٹھیک 87برس قبل 30اور 31مئی 1935؁ کی درمیانی شب رات 3بجکر 3منٹ پر 45سیکنڈ کی جنیشن نے کوئٹہ شہراور سول لائنز کو ملبے کا ڈھیر بنادیا۔یہ زلزلہ 7.7شدت کا تھا۔
ایڈیشنل پولیٹیکل ایجنٹ کیپٹن ایل۔اے۔پنی اپنی رپورٹ میں لکھتے ہیں یکم جون1935کو لاشیں اٹھانے کا کام شروع ہوا اور تین جون تک لگ بھگ 5000ہزار لاشیں اٹھائی گئیں۔مسلمان میتوں کو شہر کے جنوب میں واقع قبرستان میں دفن کیا گیا۔اور ہندوں کو شہر کے مختلف حصوں میں عارفی شمشان گھاٹ میں ان کی آخری رسوم ادا کی گئیں۔
4 جون کو لاشوں سے اٹھنے والا تعفن ناقابل برداشت ہوگیا۔ جس کے باعث کوئٹہ شہر کو مکمل طور پرسیل کردیا گیا اور امدادی کام 20جولائی تک روک دیا گیا۔
اس زلزلہ میں 25سے 30ہزار افراد ہلاک ہوئے۔ مگر 2005میں BBCکی ایک رپورٹ کے مطابق زلزلہ میں ہلاک شدگان کی تعداد 60ہزار سے زائد تھی۔
اس وقت کوئٹہ گریژن کے جنرل کمانڈنگ آفیسر جنرل کارسلیک تھے انہوں نے فوری ایمرجنسی کا اعلان کیااور فوج کو اسٹینڈبائی رکھنے کے احکامات دیئے آدھے گھنٹے میں ہی فوج نے شہر کی طرف حرکت شروع کی۔
انگریزوں نے روس کی پیش قدمی روکنے کیلئے افغانستان اور سرحدی علاقوں میں فوجی چھاونیاں قائم کیئں۔اس مقصد کیلئے انگریزوں نے بلوچستان کے کچھ حصے خان آف قلات خان خدائیداد خان سے ایک معاہدہ کے تحت حاصل کئے۔ انہوں نے خان آف قلات سے معاہدے کرکے کوئٹہ،نوشکی، بولان، نصیرآباد کے علاقے حاصل کئے۔
بلوچستان کے ان انگریز عملداری کے علاقوں کو برٹش بلوچستان کا نام دیاگیا۔
روس کی پیش قدمی روکنے کے لئے کوئٹہ میں سب سے بڑی فوجی چھاؤنی بنائی گئی یہ چھاؤنی شہر کے قریب ہی واقع ہے لیکن وہ اس تباہ کن زلزلے سے محفوظ رہی۔کوئٹہ کے سٹی نالے کے دوسری جانب زلزلے کے جھٹکے کم شدت کے تھے جس کے باعث کوئٹہ چھاؤنی محفوظ رہی۔
کوئٹہ سے تقریباً 150کلو میٹر دور ضلع کچھی کے صدر مقام ڈھاڈر میں جب یہ خبر پہنچی تو ڈھاڈر کے ایک عالم۔ملا عیسیٰ لنگ نے اس تباہ کن زلزلہ اور خوبصورت شہر شال کوئٹہ کی تباہی کو مسجد میں مصلیے پر بیٹھ کر یوں قلمبند کیا۔
ائے فلک کنج ادا تجھ سے امید وفا ہوسکتی ہے ہر گز،نہیں۔آئے تو بہار لا کر چمن دیر میں سبزگی دکھا کر ایک سیکنڈکی حسنِ بہار ہونے پر جھٹ خار خزاں سے تاراج عالم کردیتا ہے۔
’سبحان اللہ‘ تختہ زمین بلوچستان میں کوئٹہ ایک عروس دہر شہر جس میں اقسام اقسام کے پھول ہویدا تھے۔ملک ملک چمن کے پھولوں نے اس جگہ آکر اپنی بہار سجائی تھی اس کے کوچہ اس کے بازار ایسی رونق کہ بس ایک ایک لفظ پر قلم تھام لیتا ہوں۔
بابو محلہ کی ایک گلی جس میں کئی قسم کے پھول اپنی ناز او انداز سے بہار کا زمزمہ دکھا کرعند لیبان کو ایک نظر نزاکت مفتوں کرلیتے ہیں۔
وہ شہر جس کی بربادی پر تمام دنیانے ماتم کیا۔واہ سبحان اللہ۔کمال قدرت ایک پلک مارنے پر اس۔رونق افروز شہر کو برباد کردیا ہزار آہ و فغاں۔نا گاہ گھٹائے کالی الم وغم کی پیام ماتم لائی ہے۔شب جمعہ12ربیع الااول 1354؁ہجری سامان ماتم لا کر خوشاں چینان خرمن خوشی و کوئٹہ والوں پر موت کی سیاہ چادر ڈال دی۔ایک ناگہانی زلزلہ آنے پر زندہ شہر کو منہدم کردیا۔۔ہر ایک برگ گلاب چمن کو خوا ب ِ عدم میں سلا کر ویران و برباد کر دیا۔جس آنکھ نے یہ عالم دیکھا دریائے قطرات گرائے ہوں گے۔
کوئٹہ کے اس ہولناک زلزلہ میں بلوچ شعوری سیاست کے امام نوابزادہ یوسف عزیز مگسی شہید ہوئے۔میر یوسف عزیز مگسی27مئی1935ء کو کوئٹہ پہنچے تھے۔انگریز سرکار نے آج کے پبلک ہیلتھ سکول کے مقام پر موجود ڈاک بنگلہ میں انہیں نظر بند کردیا۔رات 3بجکر ایک منٹ پر زلزلہ آیا۔دن ایک بجے میر یوسف عزیز مگسی کو شدید زخمی حالات میں ملبے سے نکالا گیا۔ہسپتال جاتے ہوئے زخموں کی تاب نہ لا کر شہید ہوگئے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں