بیرونی امداد اور پاکستان

تحریر: احسان بلوچ
حسین حقانی کو پاکستانی سیاست، معیشت، فوج، سفارت کاری اور باقی معاملات کو قریب سے دیکھنے اور جانچنے کا طویل موقع ملا ہے جس کے اوپر انہوں نے کتابیں بھی لکھیں۔ Magnificent Delusions ان کی لکھی ہوئی کتابوں میں سے ایک بہترین کتاب ہے جس کو پڑھنے کے بعد پاکستان کے موجودہ معاشی بحران کو سمجھنے میں کافی مدد ملتی ہے۔ اس کے مطابق اس نے پاکستان کے ساتھ ساتھ کچھ اور ممالک کے وجود میں آنے کے شروع کے 10 سال کے اوپر ریسرچ کر کے یہ تلاش کیا کہ انہیں Nascent Stage میں کتنے پیسے ملے اور انہوں نے ان ملے ہوئے پیسوں کو کہاں خرچ کیا۔ وہ اس بات سے انکاری نہیں کہ دنیا کی تاریخ میں جتنی نومولود ریاستیں وجود میں آتی ہیں تو وہ شروع کے کچھ سال میں بیرونی امداد کے سہارے ہر حال میں لیتی ہیں مگر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ نومولود ریاستیں بیرونی امداد کو کہاں اور کس طرح خرچ کرتی ہیں۔ اس کے مطابق پاکستان نے وجود میں آنے کے  بعد دنیا سے ملی ہوئی ڈونیشنز اور مالی امداد کو جدید تعلیم، صنعت، ٹیکنالوجی، جدت، زراعت اور ادارتی ترقی کے بجائے فوج اور بیورو کریسی کے ذریعے لوٹ مار کا بازار گرم کردیا اور ملک کو فلاحی ریاست کے بجائے سیکورٹی ریاست کی طرف لے گئے جو اب تک جاری ہے۔ جبکہ دوسری طرف ویتنام، کیوبا، سنگاپور اور باقی نومولود ریاستوں نے بیرونی امداد کو بہتر جگہ خرچ کر کے آج Developed Countries کی فہرست کے قریب پہنچ رہے ہیں اور یہاں تک کے بنگلہ دیش جو پاکستان کے بطن سے جنم لینے کے بعد اس کو ترقی کے میدان میں پیچھے چھوڑ رہا ہے جو ملکی اداروں کے لیے ایک المیہ سے کم نہیں ہے۔
بات یہاں نہیں رکتی بلکہ ملک کے صاحبان اختیار نے کام اور محنت سے کمانے کے بجائے مفت خوری کے راستے ڈھونڈنے کی کوشش کر کے ہمشہ کے لئے دوسروں کے نوالے پر پلنے کے حربے تلاش کرلیے۔ ملک بننے کے بعد محمد علی جناح نے اپنی ٹیم کے ہمراہ کراچی میں امریکی سفارت کاروں سے ملاقات کر کے انہیں اسی حوالے سے زور دے کر باور کرانے کی کوشش کی کہ اس خطے کو روس سے شدید خطرات لاحق ہیں جو بلوچستان کی سرزمین گوادر کے گرم پانی تک پہنچنے کا منصوبہ رکھتی ہے اور اس کے اس عمل سے یہ پورا ریجن روس کے قبضے میں چلا جائے گا جس سے امریکی مفادات کو نقصان ہوگا۔ انہوں نے امریکہ کو اس جال اور پھندے میں پھنسانے کے لیے یہ بات سامنے رکھی کہ مذہب اسلام کے پیروکار ہونے کی وجہ سے انہیں بھی روس سے کافی خطرات ہیں اور اسی بنیاد پر روس کے منصوبے ناکام بنانے کے لیے ہمیں معاشی امداد دیں تاکہ اسے ہم روک سکیں۔ پاکستان کے کوشش کار آمد ثابت ہوئی اور اسی طرح امریکہ نے 1960ء میں پاکستان کے صوبہ سرحد کے سرحدی علاقے میں جگہ مانگی تاکہ روس کی مسلسل نگرانی کے لیے سیٹلائٹ اور دیگر آلات نصب کرسکے اور اس کے بدلے میں امریکہ نے پاکستان کو لاکھوں ٹن گندم بھیجنے کے ساتھ ساتھ نقد رقم بھی مہیا کی مگر پاکستان نے یہ ساری خیراتی رقم کو بہتر جگہ انوسٹ کرنے کے بجائے خرچ کرتارہا۔ بعد میں امریکہ نے 1970ء میں ہنری کسنجر کے توسط سے پاکستان کی مدد لے کر خفیہ طور پر پاکستان کے ایئرپورٹ کو استعمال کرکے چائنہ جا کر سفارتی تعلقات پہلی دفعہ قائم کیے اور اس کام کے بدلے میں کافی پیسے دیے۔ اس کی قسمت اس وقت کھل گئی جب روس نے افغانستان میں کنٹرول بڑھانے کیلئے اپنی ہم خیال حکومت بٹھا کر بلآخر فوجی چڑھائی کی۔ روسی یلغار کو ناکام بنانے کیلئے پاکستان امریکہ سے بے پناہ پیسہ جہادی تنظیموں کے نام لے کر افغانستان کے اندر جرائم پیشہ افراد کو بھیجتا رہا اور بڑے بڑے شہروں میں جہادی بھرتی کرنے کے باقاعدہ دفاتر سر عام کھولے۔ اس عالمی طاقتوں کی باہمی رسہ کشی سے پاکستان کے اندر ڈالروں کی بارش ہوئی مگر ان مفت خوروں نے کثیر المدت معاشی حکمت عملی کے بجائے مستقل بھکاری ہونے کو ترجیح دی۔ آخر کار روسی جنگ اپنے اختتام کو پہنچی اور افغانستان مجاہدین اور طالبان کے کنٹرول میں آگیا مگر امریکی امداد کم ہوتے ہوئے رک گئی اور جتنے پیسے جہاد کے نام پر ملے تھے انہوں نے ہڑپ کر کے ایک اور موقع کی تلاش میں بیٹھ گئے۔ ڈالروں کی بندش کے بعد اور 1998ء کے ایٹمی تجربے کی وجہ سے پاکستان معاشی حوالے سے کافی پریشان تھا اور اپنے ہی لوگوں سے مالی مدد کی آواز لگاتا رہا۔
مفت خوروں کے اوپر خدا کا کرم نازل ہوا اور 9/11 کا دلخراش وقعہ پیش آیا جو امریکہ کے ساتھ ساتھ NATO کو بھی اس خطے میں دوبارہ لے آیا اور پاکستان پہلے سے ایسی صورت حال کا منتظر تھا تاکہ پیٹ پوجا کا کوئی اور راستہ ہاتھ آجائے۔ امریکہ نے افغانستان میں  ملا عمر کی سرپرستی سے چلنے والی طالبان حکومت سے حملے کے مبینہ ماسٹر مائنڈ اسامہ بن لادن کی حوالگی کی بات کی مگر انکار پر امریکہ نے افغانستان کیخلاف کارروائی کا اعلان کیا۔ وہی پاکستان جسے رینٹ پر رکھ کر 1979ء سے 1992ء تک جہادی افغانستان کے اندر بھیجتا رہتا تھا اب اس سے جہادیوں کے خاتمے کے ساتھ ساتھ ان کیخلاف کارروائی کے لیے فوجی اڈے مانگے اور پاکستان نے تمام ڈیمانڈز پورا کرنے کی حامی بھرلی مگر اس کے عوض بھاری رقم مانگنے لگا۔ اسی طرح پاکستان نے امریکہ کے افغانستان کے اندر فوجی آپریشن کے دوران کافی پیسہ کمایا اور جنرل مشرف نے اپنے کتاب ”In The Fire Of Line“ میں اس بات کا اقرار کیا کہ ہم نے طالبان کے کم سے کم  600 بڑے بڑے جہادی کمانڈر پکڑ کر امریکہ کے حوالے کیے اور ان کے بدلے میں پیسے اور انعامات لیے۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکی کمک سے پاکستان کو IMF، World Bank سعودی عرب اور دوسرے ممالک اور اداروں کی طرف سے بھی کافی ادھار ملا تھا اور یہاں تک کہ ملک کے کئی سال کا مالی بجٹ بھی بیرونی قرضوں کی مرہون منت تھا۔ مگر اس دفعہ اس نے اور چالاکی کر کے ایک طرف امریکہ سے جہادیوں کے خاتمے کیلئے پیسہ لیا اور دوسری طرف روس، چائنہ اور دوسری امریکہ مخالف قوتوں سے جہادی بنانے کے لئے بھی پیسہ لیتا رہا کہ امریکی مفادات کو نقصان پہنچا دیں اور دوسرے طرف یہ گیم بھی بنے کہ امریکہ افغانستان کے اندر زیادہ سے زیادہ وقت لگائے اور اس کی مالی امداد آتی رہے اور یہ سمجھ گئے تھے کہ مفت خوری اس وقت تک جاری رہے گی جب تک امریکہ افغانستان کے اندر انگیج رہے گا۔ مزید امریکہ کے سامنے یہ دوغلی پالیسی اس وقت واضح ہوئی جب اسامہ بن لادن کا پاکستان کے محفوظ شہر ایبٹ آباد کے فوجی چھاؤنی کے پاس سراغ لگا کر خاتمہ کیا گیا۔ ملک کے امریکہ کے ساتھ اس دوہرے پن کے اوپر Charlotta Gal نے تفصیل سے اپنے کتاب The Wrong Enemy میں روشنی ڈالی ہے اور اسی طرح پاکستانی معیشت کے برے دن اس وقت سے شروع ہوئے جب امریکہ نے افغانستان سے دوحہ معاہدے کے تحت نکل کر اپنے سارے فوجی سازو سامان کو نکال دیا اور ساتھ ساتھ جنگ کے نام پر مالی امداد کو مکمل طور پر روک دیا۔ اسی طرح 9/11 کی وجہ سے ملک میں جو خیرات اور چندے آئے تھے انہیں بھی بہتر جگہ انویسٹ کرنے کے بجائے فوج اور سیاست دانوں نے مل کر کھا لیا۔ اب پاکستان کی بھیک، مالی، بیرونی اور امریکی امداد مکمل بند ہے۔ امریکہ نے جب ملک کے دوغلے پن کو سمجھ لیا پھر اس کے اشاروں پر ناچنے والی IMF  کی پالیسی میں بھی کافی سختی آئی اور ملک اتنے قرضوں تلے ڈوبا کہ دیوالیے کے قریب پہنچا اور دوسری طرف سیاسی عدم استحکام بھی ہے جس سے بچے کچھے سرمایہ کاروں نے بھی اپنے پیسے باہر شفٹ کرنا شروع کیے کیونکہ سرمایہ کار غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے کسی ملک میں زیادہ نہیں ٹھہرسکتے ہیں اور اب ملک قدرت کی مدد کے انتظارِ میں بیٹھا ہے کہ دوبارہ خطے میں 1979ء اور 9/11 جیسا واقعہ رونما ہو اور مفت خوری کا بازار دوبارہ گرم ہو مگر اس دفعہ بہت مشکل نظر آتا ہے کیونکہ دنیا نے فوجی اخراجات سے بہت سبق سیکھ لیا اور ان کے ٹیکس دہندہ عوام انہیں ایسے اخراجات کرنے پر برداشت نہیں کرتے ہیں۔ آخر کار دنیا کے طاقتور ممالک صرف کسی ملک کو اس کی Nascent Stage میں مالی کمک ضرور کرتے ہیں مگر پوری زندگی اس کو رقم اور خوراک مہیا نہیں کرسکتے کیونکہ ہر ملک کے اپنے مسائل اور چیلنجز ہوتے ہیں جن سے نمٹنے کیلئے انہیں خود مسلسل وسائل کی ضرورت ہوتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں