آواران کرپشن کی زد میں

تحریر: نصیر بلوچ
آواران کو لیڈران اور بیوروکریسی میں ایسے آفیسران نصیب ہوئے جو اپنے منہ میاں مٹھو بننا پسند کرتے ہیں۔ ایسے لوگ کام کے نہیں تعریف کے قائل ہوتے ہیں، عملی کام کم اور اپنی تعریف سننا زیادہ پسند کرتے ہیں۔ کائنات کے کچھ نمایاں اصول ہیں مثلاً اگر سورج نہ نکلے تو ہمیشہ اندھیرا چھا جانے سے انسانی زندگی پر مضر اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ اللہ پاک کا شکر ادا کریں ہمیں اشرف المخلوقات کا شرف حاصل ہے۔ ہمیں سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا۔ حق و باطل میں فرق کرنے کی سمجھ عطا کیا۔ معاشرہ اس وقت پروان چڑھتا ہے جب معاشرے میں رہنے والے لوگ یعنی ہم جھوٹ کو جھوٹ اور سچ کو سچ کہہ سکیں۔ کوئی ملک اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک اس ملک میں رہنے والا ہر کوئی دیانتداری سے اپنے فرائض سر انجام نہ دیں۔ اسی طرح آواران کی پسماندگی کی ذمہ دار یہاں کے حکمران ہیں۔ ماضی میں کہیں رقوم و ترقیاتی ٹرینڈر منظور ہوئے اس کے برعکس گراؤنڈ پر کوئی کام موجود نہیں جو عوام کے لئے سہولیات نہ صحیح تاریخ میں ان لیڈران کا نام امر کرتیں۔ 2015ء کو سیوریج لائن کے لئے تین کروڑ پچاس لاکھ، اسٹریٹ لائٹ، درخت و فٹ پاتھ کی مرمت کے لئے 40 کروڑ رقوم مختص ہوئی تھی۔ آواران سیوریج کا نظام نا ہونے کے برابر ہے، جہاں جہاں سیوریج پائب نصب کیے گئے وہاں الٹا اس سے لوگوں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ چونکہ ان پائب سے گٹر کا پانی جمع رہتا ہے، جو انتہائی گندگی کی صورت اختیار کرکے دوبارہ انہی نالوں سے نکلتا ہے جس کے سبب کئی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ درختوں کا نام و نشان تک موجود نہیں، ہمارے لیڈران کو کرپشن کرنا تک نہیں آتا۔ چار پانج عدد درخت تو لگالیتے۔ رہی بات اسٹریٹ لائٹ کی تو ٹھیک ایک ماہ بعد ہی ان کی چمکتی روشن گل ہوگئی۔ انہتائی مضحکہ خیز ہے کہ پھر یہی رہنما ٹاک شوز و دیگر پروگرامز میں آواران کی پسماندگی کی بات کرتے ہیں لیکن ان کے پسماندہ ہونے کی کیا وجہ ہیں، یہ نہیں بتاتے۔ یعنی دل میں زہر اور زبان میں شہد، میرٹ جو محض اخباری اشتہارات تک محدود ہے۔ روز اول سے میرٹ کی پامالی ہورہی ہے خواہ وہ لیویز کی پوسٹیں ہوں یا ایک معمولی چپڑاسی کی بس افسرِ شاہی کے احکامات کی دیر ہے۔ خوف جو معاشرے کی ترقی کی راہ میں تعلیم کے بعد ایک سب سے بڑی رکاوٹ ہے اس خوف کو دور کئے بغیر ہمارا کسی سییہ گلہ کرنا بے سود ہے کہ آواران کیوں پسماندہ ترین ہے؟ آواران کے لئے جو ترقیاتی پروجیکٹس منظور ہوتے ہیں وہ کرپشن کی زد میں آکر یوں غائب ہوجاتے ہیں جس کا ایک نمائشی بلاک بھی گرانٹ پر نظر نہیں آتا اور وہ بھی شاید عبدالقدوس بزنجو کے انجانے میں کسی اور ایم پی اے یا ایم اے کے سفارشات سے منظور ہوئے ہوتے ہیں۔ عبدالقدوس اپنی تقاریر میں کہتے ہیں کہ ہمیں گراؤنڈ پر کام ہونا مانگتا ہے۔ معذرت خواہ اس انگریزی اردو کے لئے لیکن جو سنا وہی بتانا ضروری سمجھا۔ چند دنوں پہلے ظہور بلیدی صاحب نے نوئٹ کیا تھا کہ کیا آواران کو کولواہ کا نام دیا جانا چاہئے؟ ظہور صاحب کولواہ آواران کا پرانا نام ہے لیکن اس ضلع کا جو حال آپکے چہیتے دوست عبدالقدوس بزنجو نے کیا ہے اس سے تو آواران کا نام مسائلستان ہوجانا چاہئے۔ کیونکہ یہاں مسائل کی بھرمار ہے جن کا مختصراً تذکرہ کرنا ممکن نہیں۔ میں بارہا لکھ چکا ہوں کہ اس میں ہم عوام کا اتنا ہی قصور ہے جنتے ہمارے لیڈران کا ہے۔ ایک کہاوت ہے کہ جیسی پرجا ویسی راجا۔ کہیں بھی عجائبات کا ذکر ہو اور مثالیں تاریخی و کھنڈرات کی دینی ہوں وہاں آواران موجودہ دور میں اْس زمانے کی تصویر کشی کرتا ہے۔ یہ سب ہمارے نام نہاد سیاسی لیڈران کا کیا دھرا ہے جو آج آواران کسی مسائل سے خالی نہیں۔ بجائے ترقیاتی کام کے رہی سہی ٹینڈر و ٹھیکے بھی کرپشن کی زد میں ہیں۔ حالیہ منظور شدہ جھاؤ روڈ میں غیر معیاری مٹریل کا استعال زیر عمل لایا جارہا ہے۔ چونکہ نہ کوئی پوچھنے والا اور نہ ہی کوئی سننے والا ہے۔ دیگر کئی مسائل جو فوری غور طلب ہیں لیکن وہی بات دوھرانا بے بجا ہوگا کہ نہ کوئی سننے والا نہ کوئی پوچھنے والا۔ جنتی کرپشن آواران میں ہوئی ہے اس کی تحقیقات کی جائے تو آواران کا ہر ٹھیکیدار عوام کا قرض دار و کرپشن میں ملوث پایا جائے گا۔ لیکن اتنے سال سے جو کرپشن کے کیسز کی ضرورت کی آہ نہ سنائی دی اب یہ توقع کرنا بھی بے جا ہوگا کہ اچانک کوئی اداراہ اٹھ کر صاف شفاف تحقیقات عمل میں لاکر کرپشن کی گئی رقوم دوبارہ خزانہ میں جمع کرائے گا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں