بے بس بلوچستان کے بے حس حکمران

تحریر :نصیر بلوچ
روسی انقلاب 8 مارچ 1917 سے 16 جون 1923 تک جاری رہا۔ انقلاب کی بنیادی وجوہات میں کسان، مزدور، اور زارسٹ حکومت کے اندر بدعنوانی اور نااہلی کے ساتھ فوجی عدم اطمینان، اور روسی آرتھوڈوکس چرچ کا حکومتی کنٹرول شامل تھا۔ جب روس میں انقلاب آیا تو ابتدائی احکامات میں لینن نے قوموں کا حقِ خودداریت کو تسلیم کیا۔ اس نے ایسا کیوں کیا؟ اس کی دو اہم وجوہات ہیں، ایک یہ کہ روسی قوم چھوٹی قوموں کے خلاف زیادتی سے روکا جائے۔ دوسری بات یہ تھی کہ اس سے قومتیوں اور قوموں کا تعین ہوجاتا ہے کہ ان کے حقوق محفوظ ہیں اور وہ سوشلزم کے خلاف نہیں لڑیں گے۔ دنیا کے سب سمجھ بوجھ رکھنے والے لیڈروں کو یہ بات سمجھ آگئی کہ مظلوم قوموں کے ساتھ مزید ظلم اور ان کے حقِ خوداریت کو تسلیم نہ کرنے کے باعث ملک انتشار کا شکار ہوجاتا ہے۔ دنیا کے کسی ملک میں اب مظلوم اقوام کے ساتھ وہ بدرترین سلوک نہیں کیا جاتا جو پاکستان کے زیرِ سایہ بلوچستان میں ہورہا ہے۔ مرحوم عوث بخش بزنجو کا تو یہاں تک ایمان تھا کہ” جس نظام میں عوام حقِ خوداریت سے محروم ہوں، وہ جمہوری نہیں کہلایا جاسکتا”۔

اگر آپ بلوچستان کی تاریخ کا ملاحظہ کریں تو بدقسمتی سے بلوچ قوم خانِ قلات کے ادوار میں ایک منظم قوم نہ تھی اور کبھی بھی مشترکہ مشاورت کے حق میں نہ تھے۔ ایک دوسرے کے ترقی کو قبول نہیں کرتے تھے لیکن آج موجودہ دور میں بلوچوں پر کئے جانے والے مظالم نے انہیں اکھٹا کیا ہے۔ اور پر امن طریقے سے سیاسی جدوجہد کررہے ہیں۔ اس کھٹن وقت میں خوش آئند تو نہیں کہہ سکتا لیکن مزید اگر بلوچ مظلوموں پر یوں ریاستی جابر جاری رہا تو تو وہ ایک مننظم قوم کے طور پر ابھر سکتے ہیں۔ جسے آئندہ تاریخ میں بحیثیت ایک مننظم قوم لکھا جائے گا۔ تہذیب یافتہ ممالک اپنے ملک میں خوشحالی لانے کا سوچتے ہیں جبکہ غیر ترقی یافتہ ممالک جو علم کو طاقت سمجھنے کے بجائے طاقت کو ہی طاقت ماننے کے فلسفے پر عمل پیرا ہیں ان ممالک میں پر امن رہنے کے لئے منظم سیاسی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ عوامی جدوجہد میں جب سیاسی رہنما شامل ہوں تو انکی آواز دوبالا ہوجاتی ہے جبکہ بلوچستان میں عوامی جدوجہد زور پکڑتی جارہی ہے اور سیاسی رہنماؤں کا اس میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہیں۔ وہ محض چند مخصوص طبقے کو وفاداریاں دیکھانے کے حد تک محدود ہیں اور انکے بس میں کچھ نہیں۔ جب حالات اس نہج پر پہنچ جائیں تو عوامی تحریکیں جنم لیتی ہیں جن سے بعدازاں مطالبات پر مذاکرات محال ہوجاتا ہے۔ یہ بھی اسی صورت ممکن ہے جب عوامی انتفاق رائے قائم ہو اور اقوام منظم ہو، جس طرح کے حالات سے بلوچستان دوچار ہیں یہاں سیاسی رہنماو?ں کا عوام تحریک میں حصہ نہ ہونے برابر ہیں۔ چونکہ حکومت بلوچستان ایک تشکیل دیا گیا بے اختیار گروہ کے ہاتھوں ہیں۔ جن میں عوامی نمائندے نہیں بلکہ ایک خاص طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں اس لئے تو انہی عوام پر کئے گئے ظلم کا احساس تک نہیں ہوتا اور وہ ایک تنقیدی بیان داغ دینے کی تک زحمت نہیں کرتے تحقیقات اور مسائل کی حل تو دور کی بات ہے۔ معدنیات اور قدرتی وسائل سے مالامال اور رقبے کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبے بلوچستان کو پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ کہا جاتا ہے۔ یہ بات بالکل درست ہے۔ لیکن اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ قدرتی لحاظ سے امیر اس صوبے کو پسماندہ رکھنے میں وفاقی حکمرانوں کے علاوہ یہاں کے مقامی حکمرانوں اور عوامی نمائندوں کا بھی بڑا ہاتھ ہے، جنہوں نے اس خوبصورت سرزمین اور اس کے عوام کی ترقی کے لیے کبھی دل سے سوچا ہی نہیں۔ اس کے برعکس سب نے باری آنے پر اس کے وسائل کو مال غنیمت کی طرح لوٹا اور اپنی زندگیاں سنوار گئے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی بلوچستان کے اکثر علاقے قرون وسطیٰ کے ایسے پسماندہ دیہات کا نقشہ پیش کرتے ہیں جہاں نہ تو پینے کا صاف پانی میسر ہے نہ ہی زندگی کی دیگر بنیادی سہولیات۔ جہاں نہ تو کسی پکی سڑک یا سکول کا نام و نشان ملتا ہے نہ ہی کسی ڈسپنسری کے آثار! حالانکہ ان علاقوں سے ہمیشہ کوئی نہ کوئی بندہ منتخب ہوکر صوبائی اور مرکزی اسمبلیوں میں جا پہنچتا ہے جنہیں علاقے اور عوام کی ترقی کے لیے وافر مقدار میں فنڈز بھی ملتے ہیں۔ لیکن ان کو آج تک یہ توفیق نہیں ہوسکی کہ کم از کم اپنے آبائی علاقوں کی ترقی پر ہی توجہ دیں۔ میر محراب خان سے لیکر میرخداد خان کے دورِ اقتدار تک بلوچ قوم کو زیادہ نقصان انکے اپنے قبائلی رہناوں سے ملا ہے۔ میرمحراب خان (خانِ قلات) سے رہناوں کی اندرونی دوگنی پالیسوں سے ریاست قلات آہستہ آہستہ ان کے ہاتھ سے نکل گئی۔ میرخداد خان کو آج کے پاکستان میں موجودہ لیڈروں کی عکس کشی کرتا ہے، محض ایک کٹھ پتلی جس کے پاس کوئی اختیار نہیں تھا، تمام اختیارات برطانوی حکومت نے سلب کئے۔ سبی، ہرنائی، پشین، ضلع ڑوب، ضلع لورالائی، کوہ مری، بگٹی اور کیتھران کے خالص بلوچی قبائلی علاقوں اور کوئٹہ و بولان کے مستجار علاقوں سے جو قلات ایجنسی کہے جاتے تھے ملاکر "برٹش بلوچستان” کے نام سے ملا جلا صوبہ قائم کیا۔جسے یکم نومبر 1887 کو حکومتِ ہند نے ایک قرار داد کے زریعے برطانوی ہند میں شامل کرنے کا اعلان کردیا۔ اور اس طرح قدیم بلوچستان کی ناخوشگوار تقسیم عمل میں آئی جس کا خان کی حکومت اور بلوچوں کے اتحاد اور قومیت پر بہت برا اثر پڑا۔ آج جب میں بلوچستان اور پاکستان کے لیڈروں کی بے بسی کا حال دیکھتا ہوں تو مجھے خان قلات میر خداداد خان یاد آتا ہے۔اور بلوچستان کے موجودہ حالات میں رہناوں کا بے اختیار ہونا ہر معاملے پر سر ہاں میں ملانا بھی اسی یادوں میں شمار ہے۔
جب حکومتی مظالم اور مدخلت بڑھتے گئے تو میر خداداد خان کو اپنے کئے غلطیوں احساس ہوا لیکن اب پچھتاوے کیا جب چڑیا چگ گئی ہوت۔ ظلم و بریرت کا یہ تسلسل یوں جاری رہا تو ریاست کے لئے اس کے نتائج سنگین ہوں گے۔ یہاں پھر سے یہ دوہرانا اور ریاست کو ذہن نشین کرانا کہ بالاآخر ظلم کی انتہا ظلم کی اختتام ہے۔ یہی وقت ہے اختر مینگل کے پاس یہ ثابت کرنے کو کہ وہ واقعی عوام کے دردِ دل رکھنے والے ہیں۔ حالیہ زیارت واقعہ پر اخترمینگل نے وزیراعظم شہباز شریف سے جوڈیشل کمیشن تشکیل دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ اگر اخترمینگل نے زور دیکر کہا ہے تو کمیشن بنے گی چونکہ اس وقت اخترمینگل حکومت سے کئی کام نکواسکتے ہیں کیوں کہ حکومت محض دو اتحادی کی اکثریت پر کھڑی ہے اور بی این پی مینگل کے چار سیٹیں ہیں جو وہ قطعی طور پر کھونا نہیں چاہیں گے۔ اختر مینگل نے مطالبے میں یہ بھی فرمایا ہیکہ کمیشن جسٹس فائز عیسی کی سرابرائی میں بنائی جائے۔ آج تک پاکستان کتنے کمیشن بنے ہیں اکثر کسی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ لالا عثمان کاکڑ قتل کے خلاف کمیشن بنائے گئی تھی۔ لاپتہ افراد کے کمیشن کا معاملہ تو آپ کے سامنے ہے ہی اور انکے سربراہاں کی شرمناک حد وابستطگی بھی معلوم ہوچکی ہے۔ ہاں البتہ یہ کمیشن جسٹس فائز عیسیٰ کی سرابرائی میں تشکیل دیا گیا تو وہ کسی نتیجے پر پہنچ سکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں