تعلیم کے ثمرات دائرہ ذات تک ہی محدود کیوں ؟؟؟

تحریر: ابوبکر دانش بلوچ

وہ دن رات کتابوں کے مطالعے میں مصروف رہتا تھا۔ اسے مقابلے کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنی تھی۔ وہ ایک منٹ کو بھی قیمتی سمجھتا اور اسے ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا۔ وہ باہر کی دنیا سے بے خبر ایک ہی کمرے میں تنِ تنہا ان کتابوں کو پڑھتا جن سے امتحان میں سوال آنا متوقع تھا۔ کہی مہینوں سے اس نے باہر کے دنیا سے رشتہ منقطع کردیا تھا۔ وہ تھا ، اس کے کتب اور اس کی اکیڈمی۔ نہ کسی کی خبر ، نہ کسی سے کوئی حال احوال . گویا ? اس کے اندر مقابلے کے امتحان میں کامیابی کی آگ لگی ہوئی تھی۔ تیاری کا یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہا ، اس کے آگاہی کی طلب بڑھتی رہی۔ وہ ہر اس لفظ سے آگا ہونا چاہتا تھا۔ جس کی آمد امتحان میں متوقع تھی۔
آخر کار اس کے امتحان کی تاریخ کا اعلان ہوگیا۔ اس نے مقرر تاریخ کی رات آخری بار اپنی کتابیں دیکھیں۔ اور صبح ہوتے ہی امتحان دینے کے لئے امتحان ہال کے جانب چل پڑا۔ جب وہ امتحان ہال میں پہنچا تو پیپر شروع ہونے میں چند منٹ باقی تھے۔ لہٰذا چند منٹ انتظار کرنے کے بعد وہ دیگر امیدواروں کے ساتھ امتحان ہال میں داخل ہوا۔ اس سمیت ہر کوئی اپنے نشستوں پر بیٹھ گیا۔ وہ سوالیہ پرچے کے انتظار میں تھا۔ چند ساعت کے بعد اسے سوالیہ پرچہ مل گیا۔ پرچے پر موجود سوالات کو دیکھ کو وہ خوش ہوگیا۔ کیونکہ امتحان میں زیادہ تر وہ سوال آئے تھے جن کے جوابات اسے معلوم تھیں۔ پھر وہ جوابی پرچے پر جوابات تحریر کرنے میں مصروف ہوگیا۔ اور تین گھنٹے کے بعد جب وہ ہال سے باہر نکلا تو وہ بہت خوش تھا ، اس نے امتحان میں سارے جوابات لکھ لئے تھیں ، اور اسے پختہ یقین تھا کہ وہ امتحان میں ضرور کامیاب ہوگا۔
وہ گھر پہنچا اور کھانا کھانے کے بعد اپنے کمرے میں چلا گیا۔ اس نے تہیہ کرلیا کہ کچھ دنوں کے آرام کے بعد دوبارہ سے وہ پڑھنا شروع کرے گا تاکہ انٹرویو کے لئے مکمل تیار ہوسکے۔ اس لئے کہ اسے اعتبار تھا وہ تحریری امتحان میں کامیاب قرار پائے گا۔
چند دنوں کے بعد اس نے ایک دفعہ پھر مستقل مزاجی سے پڑھائی کا سلسلہ شروع کیا۔ وہ روزانہ کی بنیاد پر دو تین گھنٹے تیاری کرتا تھا۔ اس دوران اس کے تحریری امتحان کا نتیجہ آگیا اور وہ کامیاب قرار پایا۔ اس دن وہ بہت خوش تھا۔ اب اس نے مزید محنت لگن اور نئی امنگوں سے انٹرویو کی تیاری شروع کی۔ اس کے انٹرویو کا تاریخ آن پہنچا۔ وہ مقررہ تاریخ کو انٹرویو دینے گیا۔ اور اس کا انٹرویو بھی اچھا گیا۔ لہٰذا اب وہ پورے آرام سے نتیجہ آنے کے انتظار میں تھا۔ جب نتیجہ آن پہنچا تو اس کا نام کامیاب ا±میدواروں کے فہرست میں تھا۔ وہ کافی مسرور تھا۔ کہ اس کے دن رات کی محنت رائیگاں نہیں گئی۔
کچھ عرصے کے بعد اس کے تقرری کا عمل بھی انجام پایا۔ وہ بطور اسسٹنٹ کمشنر ( AC ) اپنے فرائض سرانجام دینے لگا۔ مگر تقرری کے بعد اس کا رویہ بدل گیا تھا۔ وہ اپنے سے نیچے سپاہیوں کو کم تر سمجھتا ، رشوت لیتا ، غیر قانونی کاموں کی روک تھام نہ کرتا بلکہ ان میں شریک ہوتا اور وہ عوام کے خدمت کی بجائے اپنا بینک بیلنس بڑھانے میں لگ گیا۔وہ دوسروں پر رعب جھاڑتا تھا اور انہیں خود سے نیچے درجے کا سمجھتا تھا۔ اب اس میں اکڑ آگئی تھی۔ کیا اس کے دن رات کی پڑھائی اور ساری محنت کا مقصد نوکری کے حصول اور مال و دولت بڑھانے کے لئے تھا ؟
اگر واقعی اس نے یہ ساری محنت فقط نوکری کے حصول کے لئے کیا تھا تو وہ سزا کا مستحق ، اس کا علم ناقص ہے ، اس کی سوچ پیچیدہ ہے اور وہ اس شخص کے مانند ہیں جو دوسروں کی بھلائی کو ذاتی مفاد پر ترجیح دیتا ہے۔ ایسا شخص خسارے میں ہے۔
یہ فرضی کہانی ہمارے معاشرے کے اکثر افراد پر برابر آتا ہے۔ ہم میں سے اکثر تعلیم اس لئے حاصل کرتے ہیں کہ ہمیں ذاتی مفادات حاصل ہوں تاکہ ہم عالیشان اور پرتعیش زندگی گزار سکیں۔ عموماً ہمارے ڈاکٹرز ، انجینئرز ، وکلائ ، بیوروکریٹس استاد اور دیگر شعبوں کے افراد صرف اس لئے محنت کر کے تعلیم حاصل کرتے ہیں تاکہ فقط وہ اپنی ذات کو بہتر بنا سکیں ، وہ سرکار اور عوام سے پیسے وصول کرتے ہیں تاکہ اپنی اور اپنے خاندان کی زندگی بہتر بنا سکیں ، اپنا بینک بیلنس بڑھا سکیں اور اپنے بچوں کو بڑے اداروں میں تعلیم دلوا سکیں۔ انہیں نہ غریب عوام ، نہ ملک اور ہی قوم سے کوئی غرض ہے۔ اگر کوئی غرض ہے تو ذاتی مفاد سے ہے۔
ہوسکتا ہے لوگ پوچھے کہ کسی مقام تک پہنچے کے لئے پیسے خرچ ہوتے ہیں ، وقت صرف ہوتا ہے ، تگ و دو کرنا پڑتا ہے اور تکالیف جھیلنے پڑتے ہیں۔ تو کیا ہمیں اپنی زندگی بہتر نہیں بنانی چاہیے ؟
اس کا جواب یہ ہے۔ آپ کا حق ہیں کہ اپنی زندگی بہتر بنائیں۔ اپنے بچوں کو زیور تعلیم آراستہ کریں ، اپنا کھانا پینا بہتر کریں اور پر لطف زندگی بسر کریں۔
لیکن یہ خیال رکھے کہ آپ جس پیشے سے منسلک ہیں کم از کم اس پیشے سے مخلص رہیں۔
اگر آپ استاد ہیں تو بچوں کو بہتر پڑھائیں ، بچوں کی صحیح معنوں میں تربیت کریں ،اور ان کی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے ان کو بتائیں کہ وہ مستقبل میں کیا کیا کرسکتے ہیں۔ایک ڈاکٹر کے ہوتے ہوئے آپ کا حق بنتا ہے کہ آپ مریضوں سے اپنا معاوضہ لیں بالالتزام ان کا علاج ٹھیک معنوں میں کریں ، ان کو معیاری ادویات لکھ کر دیں اور انہیں صحت مند رہنے کی لئے مفید تجاویز پیش کریں۔ بطورِ وکیل آپ بلاشبہ اپنا فیس وصول کریں ، بشرطیکہ لوگوں کے مقدمات ایمانداری سے لڑیں ۔ اور اگر آپ سول سرونٹ ہیں ملک و قوم کی ترقی میں اپنا کردار ادا کریں ، لوگوں کے مسائل حل کریں اور معاشرے میں موجود مسائل کے خاتمے کے لئے فوری اقدام عمل میں لائیں۔ نیز اگر ہر شخص اپنا فرض منصبی احسن انداز سے انجام دیتا ہے تو ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوگا آپ کا علم ہم وطنوں کے لئے مفید ثابت ہوگا۔
بلاشبہ آپ کی اجرت ، تنخواہ یا جو کچھ بھی ہے وہ آپ بنا کسی توقف کے وصول کریں مگر کام کو پوری دیانتداری سے ادا کریں۔ تاکہ ملک و ملت آپ کی ذات سے فیض پاکر اقوام عالم میں اپنی شان و رفعت کے ساتھ ساتھ ترقی کی نئی منزلیں طے کرسکیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں