دفع ہوجاؤ

تحریر: انور ساجدی
قیاس آرائیاں عروج پر ہیں کہ ”اکابرین“ شہباز حکومت سے کہنے والے ہیں کہ اگست میں اسمبلیاں توڑو اور دفع ہوجاؤ تاکہ فوری طور پر ایک نگران حکومت قائم ہوسکے جو رواں سال اکتوبر میں عام انتخابات کا انعقاد کرے یہ صدر عارف علوی نے ملک میں ایک نئی حکومت کے قیام کی جو تجویز دی ہے اگرچہ یہ ایک مختلف بات ہے نئی حکومت سے ان کی مراد ٹینکو کریٹ پر مشتمل حکومت ہے اور غالباً یہ سوچ کہیں موجود ہے کہ سیاستدانوں سے ہٹ کر ایک ایسی حکومت بنائی جائے جو کچھ عرصہ تک چلے اور ڈوبتی معیشت کو سنبھالا دے سکے یہ خطرہ بھانپ کر مولانا نے واضح دھمکی دی ہے کہ ہم پر دباؤڈالا جارہا ہے لیکن نئے انتخابات کا فیصلہ سیاستدان کریں گے کوئی اور قوت نہیں کرے گی مولانا اور ن لیگ کو یہ خدشہ ہے کہ ان کے ذریعے عدم اعتماد کا جو کام لیا گیا وہ ٹو پی ڈرامہ تھا اس کا مقصد ایک طرف عمران خان کی گرتی ساکھ کا بحال کرنا اور انہیں ایک مقبول ترین عوامی لیڈر ثابت کرنا تھا تاکہ عام انتخابات میں وہ دوتہائی اکثریت حاصل کرکے اکابرین کے دیرینہ ایجنڈے کو پائیہ تکمیل تک پہنچا سکیں یہ خدشہ عمومی طور پر پایا جاتا ہے کہ اگر عمران خان اور ان کے سہولت کار دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوگئے تو 1973ء کے آئین کی خیر نہیں ہے یا تو اس کا حلیہ بگاڑ کر رکھ دیا جائے گا یا اسے منسوخ کرکے صدارتی نظام نافذ کردیا جائے گا اسی لئے مولانا نے تڑی لگائی ہے کہ ہم زمین کو اتنا گرم کردیں گے کہ آپ کے نازک تلوے جل جائیں اور فضاء بھی اتنی گرم ہوگی کہ آپ کی نازک تتلیوں کے پر جل جائیں گے حکومت لینے کی غلطی اور آئندہ عزائم دیکھ کر ن لیگ نے اچانک مقتدرہ کے خلاف نیا بیانیہ دینا شروع کردیا ہے لیکن یہ مہم بے اثر ہوگی کیونکہ یہ بیانیہ عمران نے اکابرین سے پوچھ کر ان کی مرضی اور حمایت سے اپنالی ہے اب اگر ن لیگ دوبارہ اس طرف جائے گی تو لوگ اس پر اعتبار نہیں کریں گے بڑوں کو معلوم تھا کہ اگر عمران نے اپنی مدت پوری کرلی تو ناقص کارکردگی پر وہ ہمارے اہداف پورے نہیں کرپائیں گے اسی لئے انہوں نے عدم اعتماد کے ذریعے اس کی حکومت کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ اصل ایجنڈے کو نقصان نہیں پہنچے مولانا نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان سے کہا جارہا ہے کہ اگر قبل ازوقت انتخابات کیلئے آپ لوگ راضی نہیں ہوئے تو ہم آپ کیلئے بحرانوں پہ بحران پیدا کردیں گے حمزہ شہباز شریف کا معاملہ ان میں سے ایک بحران ہے اگر پنجاب سے ن لیگ کی حکومت ختم ہوجاتی ہے تو مرکزی سرکار محدود اور محصور ہوکر رہ جائے گی اس کے پر کٹ جائیں گے اور وہ وفاقی دارالحکومت کی حدود تک محدود ہوکر رہ جائے گی اس کا مقصد حکومت کو اسمبلیاں توڑنے اور نئے انتخابات کے اعلان کیلئے مجبور کرنا ہے اگر عمران خان کو آؤٹ کرنا مقصود ہوتا تو آٹھ سال سے زیر التواء فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ آچکا ہوتا۔
اکابرین کے ذہنوں میں مستقبل قریب کا کیا خاکہ ہے یہ تو وہی جانتے ہیں لیکن ایک بات طے ہے ان کے ذہنوں میں شریف خاندان اور زرداری کیلئے ناپسندیدگی موجود ہے یہ ناپسندیدگی شریف خاندان کیلئے کچھ زیادہ ہے لہٰذا آئندہ چند دنوں میں اقتدار کی جنگ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوجائے گی حمزہ شہباز کی معزولی کے بعد ن لیگ کے خلاف گھیرا تنگ کردیا جائے گا اور پرانے مقدمات کی تیزی کے ساتھ شنوائی شروع کردی جائے گی اسی دوران دو صحافیوں نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان اسی سال اکبوتر میں عام انتخابات اس سے پہلے انتخابی اصلاحات اور دیگر معاملات پر حکومت کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیار ہیں ان کا مشکل مطالبہ نئے الیکشن کمیشن کی تشکیل اور نئے چیف الیکشن کمشنر کا تقرر ہے یہ جو مذاکرات پر آمادگی ہے یہ بڑوں کے کہنے کی وجہ سے ہے مذکورہ صحافیوں نے یہ بھی کہا ہے کہ فریقین کو مذاکرات کیلئے ”سافٹ مداخلت“ کرنا پڑے گی یعنی وہ ظاہر کررہے ہیں کہ وہ ابتک نیوٹرل تھے یعنی صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے اور وہ ملک کے وسیع تر مفاد میں مداخلت ناگزیر ہے ایک اور اہم بات یہ ہے کہ 2008ء سے اب تک ٹوٹی پھوٹی اور لولی لنگڑی نام نہاد جمہوریت کا تسلسل قائم ہے یہ تسلسل بھی ناگواری کے مرحلے میں داخل ہوچکا ہے اگر عدلیہ نے پنجاب کے وزیراعلیی کو عہدے سے ہٹا دیا تو اس سے ظاہر ہوگا کہ عدلیہ آئندہ چند ہفتوں میں مقننہ کے کئی فیصلوں کی نئی تشریح کرکے سیاسی صورتحال یکسر بدل دے گی اس اعتراض کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہوگی کہ سپریم کورٹ نے صدر علوی کی جانب سے دائر کئے گئے ریفرنس کی تشریح کرتے ہوئے قرار دیا تھا کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمارنہیں ہونگے لیکن پرویزالٰہی کی رٹ پر وہ کہہ دے گی کہ منحرف اراکین کے ووٹ شمار ہونگے۔
ایک ہی مسئلہ پر دو الگ فیصلے کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں مثال کے طور پر 1990 ء میں سپریم کورٹ نے صدرغلام اسحق خان کی جانب سے آرٹیکل 58،2 بی کے تحت بینظیر حکومت کی برطرفی کو ناجائز قرار دیا تھا لیکن 1993ء میں نواز شریف کی برطرفی کو غیر آئینی قرار دیا گیا آئین کے باریک نکتوں کی وضاحت یہ عدلیہ کا اپنا کام ہے لہٰذا کسی کی کیا مجال جو وہ اعتراض اٹھائے اکابرین معیشت پر اتنے فکر مند نہیں جتنے سیاسی صورتحال کے بارے میں ہیں اس لئے پرویزالٰہی کیس کے بعد کئی اور اہم فیصلے کئے جائیں گے جس کے بعد حکومت کا چلنا مشکل ہوجائے گا اتحادی حکومت کیلئے مگر سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ ایک ناکام حکومت چلانے کے بعد وہ کس طرح عام انتخابات میں جائے گی اور عوام کا سامنا کرے گی اگرچہ ن لیگی لیڈرسعد رفیق نے کہا ہے کہ ہم آپ کے کہنے پر انتخابات نہیں کروائیں گے بلکہ سیاسی جماعتیں اسمبلی کی مدت پوری ہونے پر انتخابات کروائیں گی لیکن سب کو پتہ ہے کہ اکابرین جو چاہیں وہی کرنا پڑے گا البتہ یہ پی ڈی ایم کی قیادت کے سوچنے کی بات ہے کہ وہ کیا لائحہ عمل لیکر انتخابات میں جائیں کیونکہ عمران خان نے عوامی مقبولیت میں انہیں کوسوں دور چھوڑ دیا ہے لوگ ان کے بیانیہ کو قبول کررہے ہیں اور یہ بھی تسلیم کررہے ہیں کہ عمران خان جیسا زیرک پارسا اور ایماندار لیڈر آج تک نہیں آیا ہے ان کے حامی اپنے لیڈر کے کرپشن اور دیگر خامیوں پر کان دھرنے کو تیار نہیں عمران خان نے اپنے زور دار بیانیہ کے ذریعے عوام کو باور کرادیا ہے کہ ملک کی یہ حالت شریف خاندان اور زرداری کی لوٹ مار کی وجہ سے ہوئی ہے لہٰذا انہیں انتخابات میں مسترد کردیا جائے اس صورت میں پی ڈی ایم کیلئے ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ وہ ملکر الیکشن لڑیں اور ایک دوسرے کے ساتھ سیٹ ایڈجسٹمنٹ کریں اگرچہ اس کے ذریعے وہ اکثریت حاصل نہیں کرپائیں گی تاہم عمران خان کیلئے بھی ممکن نہ ہوگا کہ دو تہائی اکثریت حاصل کرکے آئین اور ملک کا پارلیمانی نظام چوپٹ کردیں اگر پی ڈی ایم کے رہنماؤں نے قربانی نہ دی تو انہیں لینے کے دینے پڑیں گے۔
علاوہ ازیں ن لیگ نے کہا ہے کہ وہ”جوڈیشل کو“کا ڈٹ کر مقابلہ کرے گی اگرچہ یہ بات کہنا آسان لیکن ایسا کرکے دکھانا مشکل ہے بینظیر بھی اس وقت کی عدالتوں کو کینگروکورٹس کہہ کر مخاطب کرتی تھی لیکن انہیں کچھ بھی حاصل نہیں ہوا دیکھیں ڈومیسائل کا فرق کیا رنگ لے آتا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں