سیلاب زدہ بلوچستان

تحریر: عطاء الرحمن بلوچ

بلوچستان پاکستان کا واحد صوبہ ہے۔ جو ہر وقت پسماندگی۔ بے روزگاری۔ غربت۔ پریشانیاں۔ تکالیف۔حادثات۔ مصائب سے دو چار ہیں۔ حالیہ دنوں میں طوفانی بارشوں نے پورے بلوچستان کو اپنے لپیٹ میں لیا ہے۔ جس کی وجہ سے بلوچستان میں بہت مالی جانی نقصانات ہوئے ہیں۔ ہزاروں غریب لوگ بے گھر ہوگئیں ہیں۔ وہ لوگ جو پہلے سے نان شبینہ کیلئے محتاج تھیں۔ اب طوفانی بارشوں نے انہیں مزید پسماندگی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ سیلابوں کی وجہ سے پورے بلوچستان زیرآب ہو چکے ہیں۔ 200 سے زائد لوگ وفات پاچکے ہیں۔ ہزاروں کے حساب سے لوگ بے گھر ہوگئے۔ ان کے مکانات منہدم ہو چکے ہیں۔ اب بھی لوگ بے یار مدد گار ہیں۔ انصاف کے منتظر ہیں۔ نہ انہیں رہنے کیلئے گھر ہے۔ نہ کھانے کیلئے خوراک ہے۔ اور نہ ہی علاج کیلئے ادویات ہے۔ زندگی گزارنے کیلئے تمام بنیادی سہولتوں سے محروم ہیں۔ وہ بغیر گھر کے بے یار مدد گار غم اور پریشانی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ ایک تو ان کے بندے شہید ہوچکے ہیں۔ دوسرے ان کے مکانات طوفانی بارشوں کی وجہ سے صحفہ ہستی سے مٹ گئیں۔ اس وقت وہ بے سہارا لوگ بھوک اور بیماریوں کی وجہ سے در پیدر کے ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ صرف ان کے منہ سے سسکیاں اور آہین نکل رہی ہے۔ وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ بلوچستان کے بہت سے علاقوں میں بے سہارا غریب لوگوں کو بے حساب نقصانات ہوئے ہیں۔ ان کے مال مویشی فصلیں تباہ ہوگئے۔ پیاز کی صورت میں ہو۔ یا کھجور کی۔ کپاس کی صورت میں۔ مکمل طور پر تیار فصلیں تباہ ہوگئیں ہیں۔ اس وقت انہیں نہ کھانے کیلئے خوراک نہ ہی علاج کیلئے ادویات میسر ہیں۔ ان کے حالات زار اس طرح ہے۔ وہ خون کے آنسو رو رہے ہیں۔ نقل مکانی کرنا ان کیلئے کافی مشکل ہیں۔ ان کے پاس نہ سواری ہے۔ اور نہ ہی پیسے۔ اور سڑکوں کا حال اس طرح ہے۔ کہ ایک انسان پیدل ہی نہیں جاسکتا ہے۔ سڑکیں پہلے برائے نام کے تھیں۔ اب وہ طوفانی بارشوں کے نام ہوئے ہیں۔ ایک ضلع سے دوسرے ضلع میں منتقل ہونا ان کیلئے کافی مشکل ہیں۔ بے یار مدد گار ہیں۔ بہت سے لوگ ہیضے جیسے چھوٹے چھوٹے بیماریوں کی وجہ سے وفات پاچکے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے۔ ان مجبوروں اور بے سہاروں کی آواز کسی صاحب حیثیت کو سنائی نہیں دیتی ہے۔ بد قسمتی سے ہمارے حکمرانوں کو ان مظلوموں اور بے سہاروں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ صرف الیکشن کے وقت انہیں یہی بے سہارا غریب لوگ یاد آتے ہیں۔ گھر گھر جاکر ان کے خیریت پوچھتے ہیں۔ 2 سال پہلے سے مرے ہوئے لوگوں کی فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔ ان کے لواحقین کو مزید پریشانی میں مبتلا کرتے ہیں۔ پھر 5 سال تک وہ ہمدرد خیر خواہ نظر نہیں آتا ہے۔ افسوس اس وقت ہوتا ہے۔ کہ مصیبت کے وقت ان بے سہاروں کی حالات زار پوچھنے کیلئے کوئی بھی نمائندہ نہیں آتا ہے۔ اس وقت پورے بلوچستان غم اور پریشانیوں میں مبتلا ہے۔ ہمارے نمائندے باہر ملکوں میں عیاشیاں کر رہے ہیں۔ طوفانی سیلابوں کی وجہ سے لوگ بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ نہ رابطہ کیلئے نیٹ ورک ہے۔ نہ کھانے کیلئے خوراک۔ نہ علاج کیلئے ادویات۔ نہ رہائش کیلئے مکانات۔ نہ دوسرے شہروں میں جانے کیلئے راستہ ہے۔ وزیراعظم ہوائی جہاز کے ذریعے 30 ہزار فٹ کی بلندی پر سیلاب زدہ لوگوں کی دریافت پوچھنے کے بعد واپس اسلام آباد چلا گیا۔ گھر گھر جا کر لوگوں کی خیریت اس لئے نہیں پوچھا۔ پورا بلوچستان اس وقت سیلاب زدہ ہے۔ ایسا نہ ہو خدانخواستہ میں سیلاب کے زد میں آجاوں۔ مرکزی حکومت اور صوبائی حکومت کی یہ ذمہ داری بنتی ہے۔ کہ بلوچستان کے لوگ جس تکالیف اور مصیبت میں زندگی گزار رہے ہیں۔ وقتی طور پر ان کے مدد کریں۔ ان کے داد رسی کرے۔ انہیں راشن مہیا کرے۔ ان کے علاج و معالجے کرے۔ انہیں ادویات دے۔ ان غمزدہ اور مصیبت میں پسے ہوئے غریبوں کی مدد کرے۔ انہیں ریلف دے۔ دوبارہ ان بے سہاروں کیلئے جلد مکانات تعمیر کروائیں۔ ہمارے ایم پی اے۔ایم این۔ خوب غفلت میں ہیں۔ انہیں کیا معلوم ہے۔ کہ بلوچستان میں سیلاب نے تباہی مچا دی ہے۔ بلوچستان میں سیلاب سے نقصانات انہیں اس وقت معلوم ہوتا تھا۔ جب وہ خود ان غریبوں اور بے سہاروں کے پاس جاتے تھیں۔پھر انہیں احساس ہوتا تھا۔ کہ وہ کس طرح بدحالی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ حکومت بلوچستان سے پرزور اپیل کرتے ہیں۔ کہ خدارا ان غریبوں اور مظلوموں کی مدد کرے۔ ان کیلئے گھر بنائیں۔ جن کے خاندان بارشوں کی وجہ سے فوت ہو چکے ہیں۔ ان کے ساتھ مالی تعاون کرے۔بلوچستان کے لوگوں کو اربوں کے حساب سے نقصانات ہوئیہیں۔ ان کی ازالہ داری کرے۔ تاکہ روزمرہ کی زندگی گزارنے میں ان کیلئے آسانی ہو جائیں۔ وہ ایک خوشحال معاشرے کا حصہ بنیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں