سوال تو بنتا ہے..؟

تحریر: ببرک کارمل جمالی
حالیہ طوفانی بارشوں میں انگریزوں کے بنائے ہوئے پلوں میں ایک بھی پل نہیں ٹوٹا جبکہ اس ملک کے انجینئرز ٹھیکیدار منشی نمازی مولانا صاحبان وزیروں سرداروں کے لاڈلوں کے بنائے ہوئے سب پل پانی برد ہو گئے ہیں آخر کیوں۔۔۔۔؟ یہاں پر یہ سوال تو بنتا ہے۔۔۔.؟ انگریز انجینئرز نے جدید ٹیکنالوجی کے بغیر کامیاب پلیں بنائی تھی جبکہ ہمارے دور کے تمام جدید ٹیکنالوجی کے بنی پلیں ناکارہ آخر کیوں ہوگئی ہیں۔۔۔؟ آخر ان سوالوں کا جوابات کن لوگوں کے پاس ہیں یہ کوئی نہیں جانتا ہے۔۔۔۔۔کہاں ہیں وہ تمام پاکستانی حکمران۔۔۔۔۔؟ کہاں ہیں اس ملک کے نمائندے۔۔۔؟ کہاں ہیں اس ملک کے ایم پی اے ایم این جو پل تعمیر کرنے کے دوران بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں کہ یہ پلیں سو سال تک چلیں گی۔ جو صرف ایک بارش میں ہی بہہ گئیں۔ اس وقت پورے بلوچستان میں چودہ سے زائد بڑے پل گر کر منہدم ہوگئے ہیں آخر کیوں۔۔۔؟
اس وقت کراچی کوئٹہ پل تاحال نہ بن سکا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ گھروں میں پھنس گئے ہیں آخر کیوں۔۔؟ سی پیک روڈ خضدار ونگو کا پل چینی کمپنیوں نے جو بنایا تھا وہ بھی تباہ ہوکر سیلاب برد ہوگیا تاحال وہ بھی نہ بن سکا ہے آخر کیوں۔۔۔؟ پورے بلوچستان کو ملانے والی مین شارع تا حال نہ بند پڑی ہے اس وقت بلوچستان میں آمد و رفت کا نظام درہم برہم چکا ہے آخر کیوں۔۔۔؟ زمینی راستے برباد ہو گئے گھروں کے چھت گر کر تباہ ہوگئے۔ لوگ سڑکوں پر آگئے عورتیں بغیر چھت کے راستوں پر بیٹھ گئے ہیں۔ بچے بوڑھے بھوکے پیاسے آس لگا کر بیٹھے ہیں کہ حکمران طبقہ کچھ نہ کچھ مدد کریں گا جو فل الحال ناممکن ہے حکمران طبقہ تاحال اقتدار کی جنگ میں گم بیٹھی ہوئی ہے۔ حکمرانوں کے ماتحت بالا آفیسران وزیر اعظم اور اور وزیر اعلیٰ کو پروٹوکول دینے میں مگن ہے آخر کیوں۔۔۔۔؟ کیا ہوگا صوبہ بلوچستان کا۔؟ کیا ہوگا بلوچستان کے بے بس عوام کا جو بھوک سے نڈھال بچوں کا۔۔۔۔ ننگے سر میدان میں بیٹھی ماؤں بہنوں کا۔۔۔۔۔ لاچار بزرگوں کا۔۔۔۔۔ سوال تو بنتا ہے۔۔۔۔ سیلاب زدگان ایک ہی جواب مانگتے ہیں۔ ہمیں دھوپ میں بٹھا کر خود سائے میں بیٹھے ہوئے ہیں۔
اس وقت سوشل میڈیا پر مرد خواتیں کے زبان پر ایک ہی لفظ ہے آخر ہمارا قصور کیا ہے۔۔۔۔ ہمیں کیوں پانی برد کردیا گیا ان متاثرین کا سوال تو بنتا ہے۔ مگر جواب ہمارے پاس نہیں ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان میں سیلاب کی تباہ کاریاں ناقابل بیان ہیں۔ مگر اس دوران سوشل میڈیا کے نوجوانوں نے بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور ان کی کابینہ کے اراکین پر خوب تنقید کی اور سوشل میڈیا پر ان کے پول کھول کر رکھ دیئے ہیں کچھ ویڈیوز نے تو اس ملک کے عوام کو رونے پر مجبور کر دیا ہے حتاکہ ایک ویڈیو میں ایک سردار کو مقامی سیلاب متاثرین ہاتھ ملا رہا ہے لیکن وہ سردار ہاتھ دینا بھی گوارہ نہیں کرتا ہے سچ تو یہ ہے کہ بارشوں کے جو جو قدرتی پانی کے راستے تھے اکثر سرداروں نوابوں نے اپنی اپنی جاگیر بچانے اور فصیلیں کرنے کے لیے بند کر دئیے ہیں جبکہ اکثر شہر میں موجود آبادیاں بھی بسا دیئے گئے ہیں اور کئی جگہوں کو پانی کو اسٹور کرنے کے لیے بڑے بڑے بند باندھے گئے اس مرتبہ بارشیں معمول سے تھوڑا سا ہٹ کر ہوگئی تھیں اسی وجہ سے آدھا بلوچستان ڈوب گیا۔ ان بند راستوں اور ناکارہ کام پر کبھی بھی حکومتی مشینری نے کوئی بھی توجہ نہیں دی تھی جس کی وجہ سے کئی دیہات پانی برد ہوگئے تھے حتاکہ مقامی لوگوں کو یہ اندازہ ہی نہ تھا بارشوں کی شدت ان کا سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔ کچھ علاقوں میں چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بنائے گئے تھے جو سب کے سب ٹوٹ گئے تھے جس کی وجہ سے سیلابی پانی میں بہاؤ مزید تیز ہوگیا ان ڈیموں کو بنانے کی اجازت کس نے دی یہاں بھی سوال تو بنتا ہے۔
بلوچستان میں قدرتی آفات سے پیدا ہونے والی ایسی صورتحال کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن ان صورتحال سے نمٹنے کے لئے اقدامات دور کی بات بلکہ آج تک کسی کو خیال تک نہیں آیا کہ برٹش دور حکومت میں بلوچستان میں اٹھارویں صدی کے آخر میں ریلوے لائن کے لیے جو جو پل بنائے گئے تھے وہ تاحال اسی حالت میں ہیں۔ جس حالت میں ہمیں بنا کر دیئے گئے تھے۔ بلوچستان میں چودہ سو کلومیٹر تک ریلوے کا جال بچھایا گیا تیس سرنگیں اور آٹھ سو سے زائد خوبصورت پل بنائے گئے تھے جو خوبصورتی اور پائیداری میں اپنی مثال آپ ہیں پہاڑوں کے سینہ چاک کرکے ریلوے نظام بنایا گیا تھا اس وقت جدید ٹیکنالوجی نام کی کوئی چیز نہیں تھی جدید ٹیکنالوجی کے بغیر بننے والی پل آج بھی قائم ہیں مگر ہمارے دور کے جدید ٹیکنالوجی کی بنے ہوئے تمام پل مسمار ہوگئے ہیں یہاں یہ سوال بنتا ہے کہ انگریزی انجینئروں کے ڈیزائن کردہ پلیں سرنگیں جو کسی شاہکار سے کم نہیں ہے وہ آخر آج تک کیوں قائم ہے۔؟
آخر انگریزی انجینئروں کے پاس کون سا الہ دین کا چراغ تھا جس سے وہ پل تعمیر کرتے تھے جو دو سو سال تک قائم و دائم رہتے تھے سبی سے کوئٹہ تک تین سو سے زائد لوہے کے پل ایک صدی پہلے بنائے گئے وہ بھی تاحال ریلوے کے پٹریوں کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے سنگلاخ چٹانوں کو پل بنانے کیلئے چیرا گیا نو مقامات پر درہ بولان کو انہی پل سے ریل کو عبور کیا گیا تھا اس وقت صرف دو انجینئر ریلوے پل بنانے میں مشہور تھے ایک رچرڈ ٹیمپل اور دوسرا جنرل براؤن جو صرف ریلوے کے پل بنانے کے ماہر تھے۔ ان کے بنائے گئے پل آج بھی قائم و دائم ہیں۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ 1935ء کے زلزلے میں پورا کوئٹہ تباہ ہو گیا تھا لیکن ان لوگوں کے بنائے گئے پل زمین بوس نہیں ہوئے آخر کیوں۔۔۔؟ یہاں سوال تو بنتا ہے کہ ہماریپاس اس ملک میں آج ہزاروں انجینئر موجود ہیں جنہوں نے لاکھوں پل بنائے مگر ان سب کے بنائے جو آج کل گر رہے ہیں، یہاں سوال تو بنتا ہے کہ صرف دو انگریز انجینئروں کے پل اتنے مضبوط کیوں ہیں جبکہ سینکڑوں انجینئروں کے بنائے گئے پل کمزور کیوں ہیں، یہاں سوال تو بنتا ہے مگر اس کا جواب نہ ہمارے حکمرانوں کے پاس ہے ہمارے انجینئروں کے پاس ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں