لُمہ کے نام


ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ
لُمہ! کیا آج کا ایک دن کافی ہے تمہارے نام کرنے کو؟
لمہ! آپ جانتی ہیں بلوچ مائیں تاریخ کے گمنام عظیم کردار ہیں جن کی قربانیوں کا ذکر تاریخ میں بہت ہی کم ملے گا۔ شائد تاریخ نویس نے بھی بلوچ ماؤں کے کردار کے ساتھ کبھی انصاف نہیں کیا۔ بلوچستان کی عورت، جو ماں بن کر عورت نہیں رہتی بلکہ قربانی اور شفقت کی ایک اعلیٰ مثال بن جاتی ہے۔ میری زندگی کا سب سے خوبصورت رشتہ میری لُمہ، میری شیر زال لمہ، میری زندگی کی سب سے تلخ یادیں بھی اسی کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں۔ مجھے یاد ہے وہ کیسے راتوں کو رویا کرتی تھی۔ چھ بچوں کو ایک باز کی طرح پاسبان بنے ہوئے پالتی تھی۔ پورے دن ایک شیرزال کی طرح رہتی اور رات کو ایک عام انسان بن کر وہ اپنے درد کے آنسو بہاتی تھی۔ وہ جب تک جاگتی میری آنکھیں کھلی رہتیں، میں انتظار کرتی رہتی اس کی سسکیوں کے بند ہونے تک۔
ہاں یہ سچ ہے میں نے اپنے بابا کی بازیابی کے لیے بے پناہ دعائیں مانگی تھیں۔ اس لیے نہیں وہ صرف وہ میرا بابا ہے یا وہ میری زندگی کا آسرا ہے کیونکہ بابا کے حصے کے سارے کام لُمہ نے بہت پہلے ہی سنبھال لیے تھے۔ میں ان کے واپس آنے کی دعا اپنی لُمہ کے لیے مانگتی تھی۔ کیونکہ وہ میری لُمہ کے آنسوؤں کا سبب تھا۔ لُمہ ایک عرصے سے ایک بیوہ کی زندگی گزار رہی تھی۔ شوہر قومی فرض پورا کرنے گئے تھے اور اپنے پیچھے اس نے چھ بچے چھوڑ رکھے تھے اور ایک نوجوان بیوی، جس سے بنا پوچھے اس کے حصے میں وصال لکھ دیا گیا تھا۔
کیا میں اپنی ماں کے نام کچھ لکھ رہی ہوں؟ مجھے یقین نہیں آ رہا۔ کیا یہ چند الفاظ اس عورت کی طویل جدوجہد کو بیان کر پائیں گے جو ایک خاموش سپاہی ہے، اس جنگ کی جو جنگ نسلوں کی بقا کی خاطر ہے۔ آج بھی کچھ نادان لوگ یہ کہتے ہیں کہ بلوچ عورت نے کیا کیا ہے؟ وہ سبین کی طرح مری کیوں نہیں۔ میں کہتی ہوں، مرنا آسان ہے، جینا مشکل ہے۔ بلوچ عورت بن کر جینا مشکل ہے۔ مرد کی تو قربانیاں یاد رکھی جاتی ہیں، ہیرو قرار دیا جاتا ہے مگر عورت کا کیا؟ کیا ایک مرد ایک دلیر عورت کی غیر موجودگی میں ایسی قربانیاں دے سکتی ہے اور کیا مرد عورت کی طرح گمنام قربانی دینے والا بن سکتا ہے۔
میری لُمہ کی جوانی ختم ہوگئی، اس سپاہی کے بچوں کو سنبھالتے ہوئے جس نے کبھی اس کے لیے محبت بھرے گیت گائے تھے۔ مگر لُمہ جانتی تھی کہ سپاہی کے دل میں وطن کی محبت اس کی محبت سے کئی گنا زیادہ ہے اور وہ اس محبت میں سب سے پہلے اسی کی قربانی دے گا۔ مگر عورت جیسی وفادار ملتی کہاں ہے۔ لُمہ نے اس کی محبت لے لی، اپنی خوشیاں تک قربان کر دیں۔ وہ بس ایک ماں بن کر رہ گئی۔ اپنے اندر کی اس عورت کو اس نے دفن کر دیا۔ میں تیسری جماعت میں پڑھتی تھی جب ماں ایک سنگل پیرنٹ بن گئی تھی۔ سپاہی اپنی اصل محبت کی جستجو میں چلا گیا۔ اپنی ہانل کو تنہا چھوڑ کر۔ وہ تنہا رہ گئی۔
وقت بدل گیا اور سپاہی ایک دن گمشدہ ہوگیا۔ اس کے لیے یہ درد واقعی کرب ناک تھا۔ اس کا درد میرے اندر کی آگ کو زندہ کیے ہوئے ہے۔ وہ لڑتی رہی۔ ہاں لُمہ کیا کیا نہیں کرتی تھی۔ صبح ایک ماں بن کر ہمارے لیے ناشتہ بناتی تو اسی صبح ایک باپ بن کے میرے بھائی کو سکول پہنچاتی۔ پھر وہ سودا لانے جاتی، گھر کا کام کرتی اور میرے سکول آ کر میرے ٹیچر سے چھٹی مانگتی کہ ماہ رنگ کا باپ لاپتہ ہے، اس کے لیے احتجاج کر رہے ہیں، اسے چھٹی دے دو۔ ایک مرتبہ مجھے یاد ہے جب وہ چھٹی مانگنے آئی تو میری ٹیچر نے کہا، اماں تم اپنی بیٹی کو سکول ہی مت بھیجا کرو۔ لمہ باہر نکل کر بہت روئی۔ وہ مجھے احتجاج کے لیے بلوچی کپڑے پہناتی کہ تمھارے بابا کو بلوچی کپڑے بہت پسند ہیں، وہ باہر آ کر اگر تمھاری فراک میں فوٹو دیکھے گا تو مجھے ہی ڈانٹے گا کہ میری بیٹی کو بلوچی نہیں پہنائی۔ اس نے ہم سب کی پڑھائی کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ میں اب بھی اگر پڑھ رہی ہوں تو وہ آ کر مجھے پانی تک پلاتی ہے۔
مرید نے تو بس خواب دیکھے تھے، اس کی ہانل کے بغیر وہ کبھی پورے نہیں ہو پاتے۔ میرے کالج کا پہلا دن جب وہ مجھے اپنی خوبصورت آنکھوں سے لیب کوٹ پہنے دیکھ رہی تھی… کتنا اطمینان تھا ان آنکھوں میں، جیسے وہ مرید سے مخاطب ہو کر کہہ رہی ہو؛ "دیکھو مرید! تمھاری ہانل نے تمھارے ساتھ کیے ہوئے وعدے کو پورا کر دیا۔ تمھاری بیٹی ڈاکٹر بن گئی۔
پھر ہوا یوں کہ سپاہی لوٹ کر نہ آیا اور وہ ہمیشہ کے لیے بیوہ ہوگئی۔ اس دن میں نے اپنے باپ اور ماں کی خوشی دونوں کو ایک ساتھ کھو دیا۔ وہ اس دن بھی جوان ہی تھی۔ وہ ہمارے سامنے نہیں روئی۔ جب میں نے کہا، لُمہ رو لو، درد کم ہو جائے گا۔ تو اس نے کہا، کس لیے روؤں؟ دنیا کے لیے تمھارا باپ آج گیا ہے، میرے لیے تو وہ کب کا جا چکا تھا۔ اُس وقت لُمہ ہمیں چھوڑ کر جاسکتی تھی، وہ جوان تھی اور کچھ نہیں تو اپنے آگے کی زندگی چھ یتیموں کے ساتھ فاقہ کشی میں نہ گزارتی۔ مگر اس ہانی نے اپنے مرید سے محبت نبھائی۔ اس نے اس کے نام کے ساتھ زندگی گزارنے کا فیصلہ کر لیا۔ زندگی اور بھی کٹھن ہو چکی تھی۔ اب وہ الزامات کی زد پہ تھی۔ وہ تب بھی چھوڑ کر جا سکتی تھی مگر اس نے پھر سے مرید اور اس کی محبت کو چنا۔ وہ اس کے بچوں کو چھوڑ کر نہیں گئی۔ میں نے اپنی لُمہ کو ٹوٹتے ہوئے دیکھا۔ دیکھا کہ وہ ہر دن کتنی قربانیاں دے رہی تھی۔ یہ دنیا ہمیں اس کے نام سے یاد رکھنے والی نہیں تھی۔ ہم کہلائے تو ہمیشہ مرید کی ہی اولاد، ہانی کا گویا کوئی ہاتھ تھا ہی نہیں ہمیں سنبھالنے میں۔
یادیں کہاں سے کہاں لے جاتی ہیں۔ یہاں مجھے مرید کو یاد کرنے دیجیے… جب ہماری پڑھائی کا مسئلہ درپیش تھا تو مرید نے ہانی سے کہا، مجھے ایک ہم سفر کی ضرورت ہے کہ اگر میں مہینوں کے سفر سے تھک کر آؤں تو وہ میرا خیال رکھے، میری ہم سفر جس کے ساتھ میں اپنا درد بانٹ سکوں اور میرے دوستوں کے لیے کھانا بنائے، مگر میرے بچوں کو ایک ماں کی ضرورت ہے، ان کی پڑھائی کا مسئلہ ہے۔ دیکھو میں تم سے کچھ نہیں مانگتا، بس میرے بچوں کو پڑھانا کہ وہ اپنے باپ اور اس کی جدوجہد کو سمجھ سکیں۔
میری لُمہ نے اس وعدے کو پورا کیا جو اس نے اپنے مرید سے کیا تھا۔ وہ وقت بھی یاد ہے جب مرید کی قوم کے لوگوں نے ہانی پر طعنے کسے تھے۔ کسی نے کہا ہانی اتنی جوان کیوں ہے، کیا اسے اپنے شوہر کے مر جانےکا غم نہیں؟ وہ گہرے رنگ کے کپڑے کیوں پہنتی ہے؟ بڑی بے حیا عورت ہے … اپنے شوہر کے لیے روتی بھی نہیں ہے؟
وہ روتی تو تھی مگر خاموشی سے، بس اگر دل بھر جاتا تو کہتی، کیا اس قوم کے لیے تمھارا باپ مجھے اور تم سب کو چھوڑ کر چلا گیا؟ وہ کتنا خوش نصیب ہے، چلا گیا… بس مجھے پیچھے چھوڑ گیا۔ میری ماں ان طعنوں سے بیزار آ چکی تھی۔ اس نے خود کو وقت سے پہلے ہی بوڑھا بنا لیا۔ اس نے گہرے رنگ کے کپڑے پہننا چھوڑ دیے اور ہنسنا بھی چھوڑ دیا۔
میری پیاری لُمہ جسے اکثر لوگ میری بہن مانا کرتے تھے، آج میں اس کی طرف دیکھ بھی نہیں سکتی۔ ایسا لگتا ہے میں اور میرے بہن بھائی اُس کی اِس حالت کے ذمہ دار ہیں۔ لُمہ! میرے پاس الفاظ نہیں جو میں کہہ سکوں، مجھ جیسے بچے اس وجہ سے زندہ نہیں کہ ان کے باپ نڈر تھے، اس وجہ سے زندہ ہیں کہ انھیں ایسی مائیں ملی ہیں جو بنا کسی بہادری کے تمغے کے قربانی دے رہی ہیں۔
یہ بس ایک ماں کی نہیں، میری زمین کی ہزاروں ماؤں کی کہانی ہے جو اپنے اندر کی عورت کا گلا گھونٹ کو ایک ماں کو زندہ رکھتے ہیں۔ میرے وطن کی ایسے ہزاروں ہانیاں موجود ہیں جو اپنی آدھی زندگی مرید کا انتظار کرتے ہوئے تو آدھی زندگی اس کے نام کر کے گزارتی ہے۔ جب کوئی مرید لاپتہ ہوتا ہے تو اس کے ساتھ اس کی ہانی بھی لاپتہ ہو جاتی ہے اور جب کسی مرید کی لاش ملتی ہے تو اس کے ساتھ ساتھ اس کی ہانی بھی ایک لاش بن جاتی ہے۔
ماں! تُو مجھ سے کبھی ناراض نہ ہونا۔ میں نے زندگی میں سب کچھ تم سے ہی تو سیکھا۔ ماں! درد اور ڈر میں سے درد ہی جیتتا تھا۔ آج تجھ سے ملا ہوا درد میرے ڈر سے جیت چکا ہے۔ تیرا پیار میری زندگی کا وہ پہلا جذبہ تھا جس سے میں آشنا ہوئی۔ میں ٹھیک ہوں میری لُمہ! تمھارے درد نے میرا رشتہ درد سے جوڑ دیا ہے۔ مجھے اب ہر ماں کا درد تمھارا درد لگتا ہے۔ جو بھائی کے لاپتہ ہونے پہ تم پرگزری تھی، مجھے لگا تھا کہ مرید کے جانے کے بعد تم مری نہیں مگر آج اگر بھائی واپس نہ آیا تو تم مر جاؤ گی۔
میری ایسی بہت سے مائیں ہیں جن میں مجھے تم نظر آتی ہو۔ جیسے ذاکر مجید کی لُمہ، جب وہ مجھے ”مارو“ کہہ کر بلاتی ہے تو ایسے لگتا ہے آپ نے مجھے پکارا ہو۔ جیسے سمیع مینگل کی ماں کا ہاتھ تھام کر مجھے ویسی ہی گرمی کا احساس ہوتا ہے جیسا تمھارا ہاتھ پکڑنے سے ہوتا ہے۔ جیسے میری لُمہ ماہ گنج جس کے لیے میں ایک لفظ بھی نہ لکھ سکی۔ جیسے الفاظ نے کبھی انصاف کیا ہی نہیں۔ اس کی قربانی اور انتظار کو لکھنے کے لیے کوئی لفظ بنا ہی نہیں۔
ہاں میری لُمہ، میری بہت سی مائیں ہیں جن کے درد سے آشنا مجھے تمھارے درد نے کرایا ہے۔ ان کا ہاتھ تھام کر لگتا ہے کہ تمھارے ساتھ کی گئی ناانصافی کا ازالہ ہی کر رہی ہوں۔ مگر مشکل ہے میری لُمہ، تمھاری قربانیوں کا ازالہ میں شاید کئی زندگیاں صرف کر کے بھی نہ کر پاؤں… تیری قربانیان عظیم ہیں، تُو عظیم تر ہے

اپنا تبصرہ بھیجیں