آواران میں حامد نے کیاکیا نہ دیکھا!

تحریر: سمیع مبارک
غالباً یہ 2020ءکے ستمبر کا مہینہ تھا،جب ملک کے مشہور و معروف صحافی حامد میر نے ملک کے سب سے پسماندہ ضلع (آواران) کا دورہ کیا۔ شہرِ آواران کی ناگفتہ بہ حالت اپنی آنکھوں سے دیکھی، اہلِ آواران سے ملے اور یہاں سے واپسی پر اپنے خیالات کو ان الفاظ میں قلمبند کیا۔ ”بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ قدوس بزنجو کا تعلق اسی علاقے سے ہے لیکن آواران شہر کو جانے والی سڑکوں کی حالت دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ اس علاقے کے مکینوں کا کوئی والی وارث نہیں۔“ یاد رہے جس وقت حامد میر نے آوران کا دورہ کیا، اس وقت جام کمال بلوچستان کی وزیرِاعلیٰ تھے۔ ہم تہہ دل سے ممنون ہیں کہ حامد میر نے آواران کا دورہ کرکے یہاں کے لوگوں کی پسماندگی کا احوال لوگوں تک پہنچایا لیکن میرا خیال ہے کہ حامد میر نے جو آواران دیکھا تھا وہ ضلع آواران کے دور دراز کے علاقوں کے لیے اسلام آباد کی مانند ہے۔ حامد میر اگر شہرِ آواران سے 10/15 کلو میٹر گیشکور کی طرف یا مشکے کی جانب سفر کرتے تو ان پر یہ بات واضح ہوجاتی کہ پسماندگی کیا ہے، لاوارث لوگ کسے کہتے ہیں۔ یہ سچ ہے کہ کہ پاکستان کے دیگر اضلاع کے مقابلے میں آواران انتہائی پسماندہ ہے لیکن آواران شہر کا موازنہ، آوران کی دیگر تحصیلوں سے کریں (خصوصاً گیشکور سے) تو آواران ہمیں بہت ترقی یافتہ نظر آئے گا۔ آواران شہر میں آرمی پبلک اسکول، ڈگری کالج، نادرا، ڈی ایچ کیو کا بڑا ہسپتال، ٹی سی ایس کی سہولیات، نیشنل بینک، یو بی ایل بینک، اے بی ایل بینک، ڈاکخانہ، عدالتیں، انٹرنیٹ کی سہولیات، ٹرانسپورٹس،ہاﺅس ریکنسٹریکشن آواران کا دفتر، ایک بڑا جنریٹر (جو 24 گھنٹوں میں آواران شہر اور اطراف کی بستیوں کو 7/8 گھنٹے بجلی مہیا کرتا ہے اور دیگر چھوٹے بڑے سرکاری دفاتر موجود ہیں۔ صد افسوس کہ sub-tehsil گیشکور میں جو موجودہ سڑک کی وجہ سے آوران شہر سے تقریباً 5 گھنٹے کی مسافت پر ہے صرف ایک یا دو ہائی اسکولوں اور چند مڈل اور پرائمری کی خالی عمارتوں کے سوا درج بالا اداروں میں سے کسی ایک کا بھی نام و نشان نہیں۔ شناختی کارڈ کی ایک فوٹو کاپی کے لیے گیشکور سے 2500 روپے خرچ کرکے اور پانچ گھنٹے کا سفر طے کرکے آواران شہر جانا پڑتا ہے۔ تعلیمی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے، اگر کوئی تعلیمی سند کوئٹہ بھیجنا ہو تو، آواران جاکر ٹی سی ایس یا واٹس ایپ کرنا پڑتا ہے۔ سڑک کا حال یہ ہے کہ 45 کلو میٹر کی مسافت جسے طے کرنے کے لیے اسلام آباد میں 20 منٹ لگتے ہیں یہاں 5 گھنٹے درکار ہوتے ہیں۔ کراچی میں اگر ایک کلو گوشت کی قیمت 220 روپے ہے تو آواران شہر میں یہ قیمت 350 روپے ہوجاتی ہے اور مزید صرف 45 کلو میٹر طے کرکے گیشکور میں 700 روپے تک پہنچ جاتی ہے۔ عام شہروں میں 45 کلو میٹر کا کرایہ زیادہ سے زیادہ 250 روپے ہے، لیکن گیشکور ٹو آواران کرایہ 1000 روپے فی کس ہے۔
آواران کی دیگر تمام تحصیلوں میں انٹرنیٹ دستیاب ہے لیکن گیشکور میں متعدد یوفون ٹاورز کے ہوتے ہوئے بھی گیشکور جدید دور کی اس بنیادی ضرورت سے محروم ہے۔ سچ کہتے ہیں:
آواران میں حامد نے کیا کیا نہ دیکھا
حقیقت میں جو دیکھنا تھا نہ دیکھا
خیر گیشکور والوں کو بجلی اور گیس کے بارے میں سوچنے کی غلطی مزید 50 سال تک، خواب میں بھی نہیں کرنا چاہیے لیکن اگر گیشکور سے آواران تک سڑک پکی ہوجائے، گیشکور میں موجود خالی ہسپتال میں چند سرجن اور ایک دوگائنالوجسٹ تعینات کیے جائیں، بس ایک ڈگری کالج اور آواران کی طرح، یوفون نیٹ ورک (جو پورے ضلع کا واحد نیٹ ورک ہے) کا انٹرنیٹ بحال کردیا جائے تو گیشکور والے خود کو سنگاپور کا باسی سمجھنے لگیں گے، لیکن کیا کریں، اس جہانِ خراب میں لاوارث کی صداﺅں پر خدا نے بھی شاید کان دھرنا بند کردیا ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں