لاوارث گڈانی

تحریر : ساحل بلوچ
بلوچستان کے ضلع لسبیلہ کا ساحلی علاقہ گڈانی جغرافیائی اور معاشی لحاظ سے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں۔ 2005ءمیں گڈانی کی آبادی 10000 تھی۔ ایک چھوٹا سا گاﺅں جو کہ پاکستان کے نقشے میں واضح طور پر نظر بھی نہیں تھا۔ مگر اپنی خوبصورتی ساحلی دلکش کی وجہ سے پورے پاکستان میں جانا جاتا ہے۔ یہاں ہر ماہ ہزاروں کی تعداد میں سیاح بلوچستان، کراچی اور دیگر جگہوں سے لوگ پکنک منانے آتے ہیں۔ ایک چھوٹا سا گاﺅں ہونے کے باوجود یہاں مسائل کی بھرمار ہے۔
گڈانی شپ بریکنگ یارڈ ایشیا کا سب سے بڑا شپ بریکنگ یارڈ اسی علاقے میں واقعہ ہے۔ جس کی لمبائی 10KM (6.2mi) ساحلی پٹی پر واقع ہے، یہ یارڈ 132 پلاٹ پر مشتمل ہے۔ اس ادارے کو صوبہ بلوچستان کیلئے تشکیل کیا گیا ہے۔ مگر صوبہ بلوچستان اپنی جگہ اس بریکنگ یارڈ سے لسبیلہ کے ایک چھوٹے سے گاﺅں کو فائدہ نہیں مل رہا ہے۔ اس ادارے سے سالانہ کروڑوں روپے ٹیکس وصول کیے جاتے ہیں کہ ان ٹیکس کو علاقے، صوبے اور ملک کے ترقی کے لیے خرچ کیا جائے گا لیکن نتیجہ یہ ہے کہ گڈانی شپ بریکنگ یارڈ سے وصول ہونے والی رقم گڈانی میں خرچ ہوتے دکھائی نہیں دیتی اور نہ علاقے کو ڈیولپمنٹ کرتے لیکن ہم دیکھ رہے ہیں کہ ان کے افسران خود کو اچھی طرح ڈیولپمنٹ کررہے ہیں، آج تک ان کی جانب سے ایک ایسا درخت نہیں لگایا گیا ہے جس کے سائے میں کوئی شخص بیٹھا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ادارہ کس مرض کی دوا ہے، صرف ٹیکس اور بھتہ وصولی کیلئے ہے۔ یہ اس کی اور بھی کوئی ذمہ داری ہے؟ گڈانی کے روڈز خستہ حالی کا شکار ہیں، پانی کے معاملات سنگین ہیں، اسکول کے بچوں کیلئے ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں ہسپتالوں دوائیوں اور دیگر اہم سہولتوں کا فقدان ہے۔ اس یارڈ کا ایک فیصد ٹیکس گڈانی کو ملتے تو گڈانی کے بہت سارے مسائل حل ہو جاتے مگر افسوس گڈانی میں 10000 لوگوں میں 97 فیصد بلوچ اور 3 فیصد سندھی زبان کے لوگ ہیں مگر ہمیں بریکنگ یارڈ میں بلوچ اور سندھی کی 1 فیصد تعداد آپ کو مل سکتی ہے۔ بچھے کچھے لوگ ماہیگیری کرتے ہیں مگر آن شپ میں مختلف قسم کے کیمیکل مواد موجود ہوتے ہیں، جو پانی کو خراب اور مچھلیوں کی نسل کو ختم کردیتے ہیں۔ اسی طرح مئی 2021ءکو ایک بحری جہاز گڈانی آکر لگی تھی، جس میں مرکری ملا تیل کے سلیج موجود تھے۔ آپ اس سے یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ گڈانی اور اس قریب کے علاقوں کو اس بحری جہاز سے کتنا نقصان پہنچا ہوگا۔ 10KM (6.2mi یارڈ کے رقبے کے ساتھ پورے گڈانی میں ایک یا پھر کبھی دو ایمبولینس موجود ہیں اور ایک سرکاری ہسپتال جس میں دوائیاں اور ڈاکٹر دیکھنے نہیں ملتے۔ اس ہسپتال سے مجھے کچھ یاد آگیا۔ یکم نومبر 2016ءکی بات ہے کہ پلاٹ نمبر 54 میں ایک جہاز میں ایک بڑا دھماکا ہوا جس میں 250، 300 سے زائد لوگ مرگئے تھے مگر نااہل حکومت نے صرف 50 لوگوں کا کہا تھا کچھ لوگوں کی لاش آگ میں مل کے کاک بن گئے تھے۔ اس دھماکے کی وجہ اندر تیل کی ٹینکی پھٹنے کو بتایا جاتا تھا، مگر اس بحری جہاز میں گیس کے سلینڈر موجود تھے۔ اس دھماکے میں لوگوں کو نکالنے کے لیے کوئی سیفٹی موجود ہی نہیں تھی کہ لوگوں کو بچایا جاسکے، جلے ہوئے لوگ خود 50 فٹ لمبے جہاز سے چھلانگ لگا کر مررہے تھے۔ ایک سرکاری ہسپتال میں اتنی جگہ موجود نہیں تھی کہ لاش رکھ سکیں یا لوگوں کو بچایا جاسکے۔ ایشیا کی سب سے بڑی شپ بریکنگ یارڈ میں سیفٹی کے نام پر ایک جوتے کا جوڑا سستے داموں میں دیا جاتا ہے۔ حال میں ہونے والے سیلاب، بارشوں میں گڈانی کے گھروں کو بہت زیادہ نقصان پہنچا مگر میں نے یہ نہیں دیکھا کہ اس بڑے سے بریکنگ یارڈ سے غریب لوگوں کے لیے کچھ سامان آیا ہو۔
گڈانی میں واقعہ ایشیا کے Top 5 بڑی کمپنی میں سے ایک کمپنی (DG Khan cement company) کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ یہ کمپنی گڈانی ہائی وے روڈ پر واقع ہے۔ یہ پاکستان کی سب سے بڑی سیمنٹ بنانے والی کمپنی ہے جس کی یومیہ پیداواری گنجائش 14,000 ٹن ہے۔ اس کمپنی سے حکومت پاکستان کو کروڑوں کی تعداد میں ٹیکس دیے جاتے ہیں۔ مگر ان ٹیکس میں سے گڈانی میں کچھ ہوتا نظر نہیں آتا۔ ہزاروں لاکھوں کی تعداد میں لوگ کام کرتے ہیں مگر افسوس ان ہزاروں لاکھوں لوگوں میں سے گڈانی کے صرف چار لوکل لوگ کام کررہے ہیں۔ 99.75 فیصد لوگ پنجاب سے یہاں کام کررہے ہیں۔ گڈانی کے تعلیم یافتہ لوگ بیروزگار اپنی ڈگری ہاتھ میں لیے بیٹھے ہیں۔ نہ شپ بریکنگ یارڈ میں اور نہ ہی (DG Khan cement company) میں ان تعلیمی یافتہ لوگوں کو مالی تک کی نوکری نہیں ملتی۔ مجبوراً ان تعلیم یافتہ لوگوں کے پاس اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالنے کے لیے اپنی ڈگری کو رکھ کر دوبارہ اس سمندر کا رخ کرنا پڑتا ہے۔ جہاں مچھلی جیسے گنجے کے سر پر بال ملانے کے برابر ہے۔ یہ کمپنی اپنے قریبی سبھی لوگوں کے آباﺅ اجداد کی زمینوں پر قبضہ کررہا ہے، پر افسوس گڈانی اس کمپنی کے سہولیات سے کوسوں دور ہے۔
حب پاور کمپنی پاکستان کی ایک کمپنی ہے جوکہ گڈانی ضلع لسبیلہ، بلوچستان، پاکستان میں واقع ہے۔ حب پاور کمپنی پاکستان کی ایک بڑی پرائیویٹ کمپنی ہے۔ اس میں 1292 میگا واٹ کا بجلی پیدا کرنے کا پلانٹ واقع ہے۔ 500 ملین ڈالر سے لگایا گیا HUBCO کول پراجیکٹ جس سے 330 میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی منصوبے سے 800 لوکل انجینئرز اور ورکرز کو روزگار ملے گا۔ مگر افسوس کی بات ہے کہ اس کمپنی میں گڈانی لوکل لوگوں کو کوئی سہولیات نہیں ملتی ہے۔ 800 لوکل انجینئرز اپنی جگہ اس کمپنی میں چند لوگ کہیں سال مزدور کررہے ہیں۔ مگر آج تک ان غریب مزدوروں کو کچے کام پر رکھا گیا ہے۔ ایک مزدور آج تک اس کمپنی میں پکی نوکری پر نہیں لگا ہے۔ ہم اس کمپنی سے 800 انجینئرز کی امید کیسے رکھ سکتے ہیں۔ ایک پاور پراجیکٹ گڈانی میں ہونے کے باوجود گڈانی میں بجلی نہ ہونے کے برابر ہے۔ تین چار مہینے تک بجلی نہیں ہوتی، اور ماشاءاللہ بل کی بات کی جائے تو ایک غریب ماہیگیر سال میں جتنا کما نہیں سکتا اتنا ایک مہینے میں اس کے گھر کا بجلی کا آتا ہے۔
ایک چھوٹا سا گاو¿ں جس میں اتنے کمپنی ہونے کے باوجود اس کی حالت نہ دیکھنے کے برابر ہے۔ گڈانی کے روڈز خستہ حالت کا شکار ہے۔ ایک ادا ادھورا پل جو پچھلے تین سال سے ادا تیار پڑا ہے۔ تعلیم یافتہ لوگ بیروزگاری میں بیٹھے نظر آتے ہیں۔ صاف پانی میسر نہیں خراب پانی پینے سے بہت سے بیماری شکار ہو جاتے ہیں۔ اسکول کے بچوں کے لئے اپنے گھر سے اسکول جانے کے لیے ٹرانسپورٹ کی سہولت میسر نہیں ہیں۔ ہسپتالوں میں دوائیوں اور دیگر اہم سہولتوں کا فقدان ہے۔کئی اسکولز خستہ حال ہیں۔ آخر کار اتنے ٹیکس جاتے کہا ہے۔اگر یہ ادارے اپنی قانونی و آئینی ذمہ داری نبھائیں تو تحصیل گڈانی کے بہت سارے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں