شکار

محمد امین

شکار ہمارے معاشرے میں بہت مقبول مشغلہ ہے۔ پہلے زمانے میں شکار بادشاہوں اور امراء کا پسندیدہ مشغلوں میں سے ایک مشغلہ ہوا کرتا تھا۔ وہ بڑی دلچسپی اور مہارت سے شکار کرتے تھے۔
جنگلوں، پہاڑوں یا کسی ایسی جگہ چلے جانا جہاں جانور یا پرندے پائے جاتے ہوں، جو کسی کی ملکیت نہ ہو ؛ ان کو تیر، بندوق یا کسی بھی آلے سے مار گرانا شکار سے منسوب ہے۔ شکار کرنے والا شکاری یا صید کہلاتا ہے۔ وہ جانور جو کسی کی ملکیت ہو ان کا شکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔ بہر حال وہ تفریق آج نہیں رہی۔ ہر طرح سے مار گراتے ہیں۔

آج کا شکار پہلے سے کچھ مختلف ہے اور شکاری بھی۔ آج کے شکار میں انسان، جذبات، احساسات، محبت، امید اور سب سے بڑھ کر انسانیت شکار کی جاتی ہے۔ شکاری کے دو اقسام پائے جاتے ہیں۔ پہلی قسم وہ شکاری جو کسی انسان کی جان کو شکار بنا دیتا ہے۔ اس کو اس شکار میں ذہنی حظ کے ساتھ ساتھ کچھ معاوضہ بھی ملتا ہے۔ جس کو کسی طاقتور کی پشت پناہی حاصل ہوتی ہے اور اس کے تعاون سے شکار کرتا ہے۔
دوسری قسم کے شکاری وہ ہے جو کسی کے جذبات کا قتل عام کرتا ہے۔ احساسات سے کھیلتا ہے۔ محبت کے تانے بانے باندھ کر قربت حاصل کرتا ہے۔ اس کے بعد ہوس کے جال میں گھیرا کے جنسی و ذہنی خواہشات حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ اس قسم میں محبت کی کمان سے ہوس کے تیروں کو جذبات سے لبریز دلوں پر برسائے جاتے ہیں۔ اس میں ہمدردی اور شرافت شکاری کو شکار کے قریب لے کر آتی ہیں۔ اور نزدیک آنے کے بعد بھیڑ کی کھال میں اس کا بھیڑیا پن نظر آنے لگ جاتا ہے۔ یہ قسم سب سے بدترین قسم ہے۔ اس میں انسانیت مر جاتی ہے۔ جذبات مجروح ہو جاتے ہیں۔ روایات دفن ہو جاتی ہیں۔ امیدیں ٹوٹ جاتی ہیں۔ وفا اور محبت جیسے عظیم الفاظ جان لیوا بن جاتے ہیں۔ ہر کوئی ان کے نام سے ڈرنے لگتا ہے۔ معاشرے میں درندگی، وحشت اور حیوانگی جنم لیتی ہیں۔ معاشرے میں جہالت کی تاریکی چھا جاتی ہے۔ ہوس کے پجاری ان اندھیروں میں رشتوں کی عظمتوں کو پامال کرتے ہیں۔ اور تباہی ان کی مقدر بن جاتی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں