تعلیمی مسائل اور ہماری ذمہ داریاں

تحریر : ابوبکر دانش بلوچ
قوموں کی حیات ان کی بقا اور وقار کا دارومدار روایات، تعلیم، معاشی و معاشرتی ترقی پر منحصر ہے، علم ایک لازوال دولت، بچوں کے مستقبل کا قیمتی خزانہ اور خدا کی عطا کردہ نعمت ہے۔ انسانیت کی تکمیل کیلئے تعلیم کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا ہے۔تعلیم سے انسان کی شخصیت اورروحانیت کی منازل طے ہوتی ہیں۔تعلیم یافتہ افراد مہذب معاشروں کو جنم دیتے ہیں۔تعلیم سے ہی ہم اپنے تہذیبی ورثے ،علمی روایات ،ثقافتی زیور اور اعلیٰ اقدار کو نہ صرف سنبھال کر اس سے مستفید ہوسکتے ہیں بلکہ ان کا تنقیدی جائزہ لے کر ماحول اورحالات کے مطابق نئے رنگوں سے سجا کر تخلیقی تعمیرِ نو کا عمل بھی کر سکتے ہیں۔ ہمارے تعلیمی بجٹ میں کمی، اساتذہ کی مناسب تربیت کا بندوبست نہ ہونا، سرکاری تعلیمی اداروں کی ناگفتہ بہ حالت، اسکولوں میں عملے کی کمی، جدید سائنس لیبارڑریز کی کمی، حکومتی سطح پر تعلیمی اداروں میں پابندی کے باوجود طلبہ کو جسمانی سزا دینا وغیرہ ہمارے ملک کا المیہ ہے۔ رٹا لگوا کرہم بچوں کو مضامین یاد کراتے ہیں لیکن ان مضامین میں پنہاں اسباق و فلسفے پر زور نہیں دیتے اور نہ ہی پڑھائی میں مباحثے کو ترجیح دیتے ہیں کیونکہ مباحثے سے بچے کو اسباق و فلسفے سے متعلق معلومات ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں خود اعتمادی پیدا ہونے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی دلیل کیلئے الفاظ کا انتخاب، دوسروں سے اختلاف کرنے کے آداب اور مباحثے کے دوران الفاظ کی ادائیگی میں شائستگی قائم رکھنا سیکھتے ہیں۔ مولانا عبیداللہ سندھی کا قول ہے کہ ”جب طالب علم کو بغیر سمجھے کسی بات کو ماننے پر مجبور کیا جاتا ہے تو اس طرح کی مجبوری اس کی عادت بن جاتی ہے اور وہ زندگی میں ہر چیز بغیر سمجھے قبول کرنے لگتا ہے جو ذہنی غلامی اور ذلت کا باعث بنتا ہے اور جو استاد اپنے شاگرد کو مذہبی حقائق سمجھا نہیں سکتا اسے یہ حق حاصل نہیں کہ وہ ان کو مذہبی تعلیم دے“۔ جدید علوم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ دینی تعلیم سے ہی انسانیت سے دوستی، زندگی میں خدا پرستی، عبادت، محبت، خلوص، ایثار، خدمت خلق، وفاداری، ایمان داری اور ہمدردی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ اخلاقیات کی تعلیم سے صالح اور نیک معاشرے کی تشکیل ہوسکتی ہے۔ استاد وہ نہیں جو محض چار کتابیں پڑھا کر اور کچھ کلاسز لے کر اپنے فرائض سے مبرّا ہوگیا بلکہ استاد تو وہ ہے جو شاگردوں کی خفیہ صلاحیتوں کو اجاگر کرے اور انہیں شعور اور ادراک، علم و آگہی نیز فکرو نظر کی دولت سے مالا مال کرے۔ رابرٹ فراسٹ نے کیا خوب کہا تھا کہ ”میں پڑھاتا نہیں جگاتا ہوں“جن اساتذہ نے اپنی ذمہ داری کو بہتر طریقے سے نبھایا ان کے شاگرد آخری دم تک ان کے احسان مند رہتے ہیں۔ کل تک تعلیم کا مقصد تعمیر انسانیت تھا آج زیادہ نمبروں کے حصول تک محدود ہے۔ پہلے وقت کی تعلیم اور آج کے وقت کی تعلیم میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔ جس طرح بیرونی دنیا کے لوگ تعلیم کی اہمیت کو سمجھتے ہیں کسی دور میں مسلمان اس سے بڑھ کر تعلیم کے دلدادہ تھے بلکہ دور جدید کے جتنے بھی علوم ہیں ان میں سے زیادہ تر علوم کے بانی مسلمان ہی ہیں۔ اگر موازنہ کیا جائے تو یورپ تک کی جامعات میں مسلمانوں کی تصانیف ہی ان کے نصاب میں شامل ہیں۔ اسلامی تاریخ گواہ ہے کہ مسلمانوں نے تعلیم و تربیت میں معراج پا کر دین اور دنیا میں سر بلندی اور ترقی حاصل کی اور جب مسلمان تعلیم سے دور ہوئے تو اپنی شناخت کھو بیٹھے۔ ہم اپنے ملک اور قوم کی ضرورت اور خدمت کو مد نظر رکھتے ہوئے اپنے تعلیمی نظام کے مقاصد واضح کریں، ایسا تعلیمی نظام وضع کریں جو ہمارے افراد اور معاشرے کے درمیاں پل کا کردار ادا کرے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں