بھارتی سپریم کورٹ نے خواتین کو اسقاط حمل کا حق تفویض کردیا

نئی دہلی (مانیٹرنگ ڈیسک) بھارتی سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ ایک عورت کو ازدواجی حیثیت حاصل نہ ہونا اس کے حمل کے 24 ہفتوں تک کسی بھی وقت اسقاط حمل کے انتخاب سے محروم نہیں رکھ سکتا، اس فیصلے کو خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے سراہا ہے۔برطانوی میڈیا رپورٹ کے مطابق امریکی سپریم کورٹ کی جانب سے جون میں ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے اسقاط حمل کی اجازت دینے کا اپنا ہی فیصلہ کالعدم قرار دےدیا گیا جس کے بعد یہ معاملہ عالمی سطح پر متنازع بن کر ابھرا۔بھارتی سپریم کورٹ کے جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ نے کہا کہ ایک غیر شادی شدہ عورت بھی شادی شدہ خواتین کی طرح 24 ہفتوں تک اسقاط حمل کروا سکتی ہے، ازدواجی حیثیت نہ ہونا عورت کو اس حق سے محروم نہیں کر سکتی۔خیال رہے کہ 1971 ءمیں نافذ کیے گئے ایک قانون، میڈیکل ٹرمینیشن آف پریگننسی (ایم ٹی پی)ایکٹ نے اس عمل کو شادی شدہ خواتین، طلاق یافتہ، بیواﺅں، نابالغوں، معذور اور ذہنی طور پر بیمار خواتین اور جنسی زیادتی یا ریپ سے بچ جانے والی خواتین تک محدود کر دیا تھا۔سنایا گیا فیصلہ ایک خاتون کی درخواست پر جاری ہوا جس نے کہا تھا کہ اس کا حمل رضامندی سے بنائے گئے تعلق کے نتیجے میں واقع ہوا لیکن تعلق کے ناکام ہونے پر اس نے اسقاط حمل کی درخواست کی۔انسانی حقوق کے رضاکاروں نے کہا کہ یہ فیصلہ بھارتی خواتین کے حقوق کے لیے ایک سنگ میل ہے۔قانون ساز مہوا موئترا نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ آگے کی جانب ایک بہت بڑا قدم ہے۔عدالت نے کہا کہ ایم ٹی پی قانون کے تحت شوہروں کی جانب سے جنسی زیادتی کو ازدواجی ریپ کے طور پر درجہ بند کیا جا سکتا ہے، بھارتی قانون ازدواجی ریپ کو جرم نہیں مانتا البتہ اسے تبدیل کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔صنفی قوانین کی ماہر وکیل کرونا نندی نے ٹوئٹر پر کہا کہ ایک ایسے دور میں جس عصمت دری کی شکار خواتین کی ازدواجی حیثیت کے درمیان فرق کیا جاتا ہے، ایم ٹی پی ایکٹ کے تحت اسقاط حمل کے بارے میں یہ بہترین فیصلہ ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں