ایران اور بلو چ قومیت
جیئند ساجدی
قوم اور قومیت کے ماہر تعلیم سیٹن واٹسن قوم کی سائنسی و تحقیقی Definition کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”متعدد بار قوم اور قومیت کے ماہرین تعلیم نے قوم کی ایک سائنسی Definition پر اتفاق کرنے کی کوشش کی ہے اور متعدد بار وہ اس میں ناکام رہے ہیں، اس کی وجہ سے ہر قوم مختلف نکات استعمال کر کے اپنی قومی شناخت بناتی ہے۔ کچھ قومیں اسی لیے قوم ہونے کا دعویٰ کرتی ہیں کیونکہ ان کی زبان ایک ہوتی ہے، کچھ قومیں اپنی قومی شناخت مذہب کی بنیاد پر بناتی ہیں جبکہ کچھ قومیں مشترکہ جغرافیہ یا ایک ریاست ہونے کی وجہ سے خود کو قوم تصور کرتی ہیں وہ مزید لکھتے ہیں کہ میں اس نتیجے پر پہنچتا ہوں کہ قوم کی کوئی سائنسی Definition نہیں ہے“۔ قومیت کے ماہر تعلیم برناڈ اینڈرسن قوم کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ قوم ایک فرضی اور تصوراتی چیز ہے جسے اکثر سیاسی گروہ اپنے سیاسی مقصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے قوموں کو ایک تصوراتی سیاسی گروہ قرار دیا ہے۔ جارج وائٹ نامی ایک اور دانشور نے قوم کے متعلق انہی خیالات کا اظہار کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ اکثر قوموں نے اپنی قومی شناخت بنانے کے لئے مذہب اور زبان کا استعمال کیا ہے۔ فرانسیسی قومی شناخت کو بنانے میں زبان کا ایک اہم کردار رہا ہے جب فرانسیسی قوم پرستوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کی زبان فرنچ پر زیادہ کام نہیں ہوا اور وہ خطرے میں ہے تو انہوں نے اپنی قومی شناخت کو خطرے میں سمجھا اور اپنی زبان پر کام کیا اور اسی وجہ سے وہ ایک منفرد قومی شناخت بنانے میں کامیاب رہے، جارج وائٹ مزید لکھتے ہیں کہ ضروری نہیں زبان ہر دفعہ قومی شناخت کو بنانے میں کامیاب رہے، اس کی مثال سابقہ یوگو سلاویہ کی صورت میں موجود ہے۔ سابقہ یوگو سلاویہ میں (SERBIAN) سربین اور (CROATIAN) کروشین دو بڑی قومیں تھیں، دونوں قومیں ایک ہی زبان بولتی تھیں لیکن کروشین قوم پرستوں نے اپنی جدا گانہ شناخت بنانے کے لئے مذہب کا استعمال کیا، کروشین سربین کے برعکس عیسائیوں کے فرقے CATHOLIC سے تعلق رکھتے تھے جبکہ سربین اکثر پروٹسٹنٹ تھے۔ اسی طرح آئرش قومی تحریک جو یورپ کی مضبوط ترین قومی تحریک سمجھی جاتی ہے کی اکثریت CATHOLIC فرقے سے تعلق رکھتی تھی اور انہوں نے CATHOLICISM کی بناء پر خود کو انگریزوں سے الگ کیا اور علیحدہ ملک بنانے میں کامیاب ہوئے۔ جارج وائٹ مزید بیان کرتے ہیں کہ ضروری نہیں مذہب بھی کسی سیاسی گروہ کو شناخت دینے میں کامیاب رہے، اس کی مثال ترکی اور عراق میں کرد قومیت کی ہے۔ کردوں کی طرح ترک اور عراق کے سابقہ حکمران سنی فرقے سے تعلق رکھتے تھے لیکن ہم مذہب ہونے کے باوجود کردوں نے اپنی جداگانہ شناخت کو اپنی زبان اور تاریخ کے ذریعے قائم رکھا۔ مذہبی قومیت کا کارڈ پاکستان میں بھی بری طرح ناکام رہا ہے، جس کی سب سے بڑی مثال 1971ء میں بنگلا دیش کی علیحدہ زبان کی بنیاد پر علیحدگی ہے۔
جامعہ قائداعظم سے تعلق رکھنے والے پروفیسر سلمان شفیع شیخ لکھتے ہیں کہ پاکستان میں اگر بلوچ قومیت کا جائزہ لیا جائے تو قوم اور قومیت کی دنیا میں یہ ایک منفرد مقام رکھتا ہے، نہ ہی بلوچ ایک زبان بولتے ہیں اور نہ ہی ایک مسلک کے پیروکار ہیں، بلوچ متعدد علاقائی زبانیں (کھیترانی اور دہواری) کے علاوہ دو بڑی مرکزی زبانیں (بلوچی اور براہوی) بھی بولتے ہیں۔ ان کی اکثریت تو سنی فرقے کی پیروکار ہے لیکن مکران ڈویژن کے متعدد علاقوں، ضلع لسبیلہ کے ساحلی علاقوں، کراچی اور جھالاوان کے کچھ علاقوں میں بڑی تعداد میں ذکری فرقے کے پیروکار بھی ہیں، لیکن ایک زبان اور ایک مسلک نہ ہونے کے باوجود مشرقی بلوچستان (پاکستانی بلوچستان) میں بلوچ قومی تحریک ایک مضبوط ترین تحریک مانی جاتی ہے۔
متعدد بلوچ قوم پرستوں نے زبان اور مذہب کو نظر انداز کرکے مشترکہ بلوچ تاریخ، مشترکہ جغرافیہ اور مشترکہ ثقافت کو بلوچ قومی شناخت بنانے میں استعمال کیا ہے، سیٹن واٹسن اپنی کتاب میں یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ اکثر قوم پرست قوموں کو ڈیفائن کرتے وقت یہ کوشش کرتے ہیں کہ وہ کوئی ایسی Definition دیں جس سے وہ حریف قوموں کو جعلی قوم ثابت کرسکیں۔ مثال کے طور پر جوزف اسٹالن نے اپنی کتاب قوم اور قومیت میں یہ بات تحریر کی ہے کہ قوم کی تشکیل کیلئے چار خصوصیات کا ہونا لازمی ہے، ایک مشترکہ زبان، مشترکہ جغرافیہ، مشترکہ معاشی زندگی اور مشترکہ سوچ۔ ان کے مطابق جن قوموں میں یہ چار خصوصیات نہیں ہوں تو وہ قوم قرار دینے کے قابل نہیں۔ سیٹن واٹسن اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ اسٹالن نے اپنے سیاسی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے قوم کی Definition بنائی۔ انہوں نے جان بوچھ کر قوم کی خصوصیات میں مذہب کا کوئی ذکر نہیں کیا، اس کی وجہ یہ تھی کہ جوزف اسٹالن کو یہودی قومی تحریک کا سامنا تھا اور انہوں نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہودی ایک جعلی قوم ہے کیونکہ یہودی اپنی شناخت مذہب کی بنیاد پر بناتے ہیں۔ انگریزوں کے دور میں برصغیر اور بلوچستان نو آباد کاری کا شکار ہوا، یہاں بھی انگریز لکھاریوں نے اپنے سیاسی مقصد کیلئے بلوچوں اور برصغیر کے مسلمانوں کے متعلق کتابیں لکھیں۔ اکثر سامراجی لکھاری مفتوحہ قوموں کے متعلق جب کچھ لکھتے ہیں تو ان کی لکھائی کا مقصد علمی نہیں بلکہ سیاسی ہوتا ہے، اکثر اوقات یہی سامراجی لکھاری مفتوحہ قوموں کو قومی شناخت دیتے ہیں۔ کانگریس کی انڈین قومیت کو کمزور کرنے کیلئے انگریزوں نے ہندو اور مسلمانوں کو دو الگ الگ قومیں قرار دیا، اکثر مطالعہ پاکستان کے دانشور انہی نو آبادکار لکھاریوں کو حوالے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ اسٹالن کی طرح انگریزوں کا مقصد بھی یہ تھا کہ کانگریس کی انڈین قومیت کو جعلی قرار دیں جس میں وہ کافی حد تک کامیاب رہے، ہندوستان کی دو بڑی زبانیں ہندی اور اردو ہیں اور یہ آپس میں اتنی ملتی جلتی ہیں کہ ان کو دو الگ زبانوں کا درجہ نہیں دیا جاسکتا اور یہ دونوں زبانیں بولنے والے آپس میں باآسانی گفتگو کرسکتے ہیں لیکن تعجب کی بات یہ ہے کہ انگریزوں کے دیئے گئے شناخت کو ان علاقوں میں زیادہ پذیرائی ملی جہاں اْردو اور ہندی باکثرت بولی جاتی تھی (اترپردیش، بہار، دہلی) اسی طرح پنجابیوں کو بھی مذہب کی بنیاد پر انگریزوں نے تقسیم کیا حالانکہ پنجابی ایک مشترکہ زبان اور جغرافیہ رکھتے تھے۔ انگریزوں کی دی گئی شناخت کا پنجابیوں پر اتنا گہرا اثر پڑا کہ بٹوارے کے وقت سکھ اور مسلمان پنجابیوں نے آپس میں لڑائی کرکے دس لاکھ پنجابی مارے۔ برصغیر کے برعکس انگریزوں نے مشرق وسطیٰ میں عرب قومیت کا کارڈ کھیلا۔ پہلی عالمی جنگ سے قبل عرب دنیا پر سلطنت عثمانیہ کی صورت میں ترکوں کی حکومت تھی۔ ایک برطانوی جاسوس جس کا نام لارنس تھا وہ ایک عرب امام کی صورت میں عربستان گیا اور عربوں کو یہ باور کروایا کہ مذہب کی بنا پر قومیں نہیں بنتیں بلکہ مشترکہ زبان اور نسل کی بنیاد پر قومیں بنتی ہیں چونکہ عربوں کی نسل اور زبان ترکوں سے الگ ہے تو اس لحاظ سے سلطنت عثمانیہ میں عربوں کی حیثیت ایک غلام طبقے جیسی ہے، اس کا یہ اثر ہوا کے عرب پہلی عالمی جنگ کے وقت عرب انگریزوں کیساتھ مل گئے اور سلطنت عثمانیہ کئی حصوں میں تقسیم ہوئی۔
بلوچستان میں انگریزوں نے بلوچ قومی شناخت کو متاثر کرنے کی بھرپور کوشش کی، اْنہوں نے بلوچوں کو لسانی بنیادوں پر تقسیم کرنے کی کوشش کی۔ پروفیسر غلام فاروق بلوچ کے مطابق محمود غزنوی کے درباری دانشور فردوسی نے جب بلوچستان کا دورہ کیا تو بلوچوں کے متعلق اپنی کتاب شاہ نامہ فردوسی میں انکا ذکر کیا لیکن لفظ براہوی کا ذکر اْنہوں نے بالکل نہیں کیا۔ اسی طرح عرب اور ایرانی لکھاریوں نے بھی محض لفظ بلوچ کا ذکر کیا ہے، لفظ براہوی کا نہیں۔ انگریز فردوسی کے 800 سال بعد بلوچستان آئے اور پہلی مرتبہ لفظ براہوی کا استعمال کیا اور یہ مفروضہ دیا کہ یہ الگ قوم ہے اور انکی زبان کو بنا کسی ثبوت اور تحقیق کے دراوڑی زبان قرار دیا حالانکہ براہوی زبان کو جھالاوان اور رخشان بیلٹ کے مختلف علاقوں میں صدیوں سے کردی زبان کہا جاتا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور برصغیر کے برعکس انگریز لکھاریوں کی لکھائی اور مروضے کا بلوچستان میں کوئی اثر نہیں پڑا۔ عنایت اللہ بلوچ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب ریاست قلات نے گیارہ اگست کو اپنی مکمل آزادی کا اعلان کیا تو اس کے دو ایوان تھے اور دونوں ایوانوں میں اکثریت براہوی بولنے والے بلوچوں کی تھی لیکن اس کے باوجود دونوں ایونوں نے بنا کسی بحث و مباحثہ بلوچی کو ریاست کی قومی زبان قرار دیا۔ اس طرح انگریزوں کی دی گئی شناخت کا براہوی بولنے والے افراد پر کوئی فرق نہیں پڑا۔ بعض اوقات محکوم قومیں ریاستی یہ سامراجانہ شناخت سے بچنے کیلئے یہ کوشش کرتی ہیں کہ وہ اکثریتی یا ریاستی قومی شناخت سے خود کو منفرد رکھیں۔ مثال کے طور پر دو قومی نظریے سے بچنے کیلئے بلوچ دانشوروں نے یہ مفروضہ دیا کہ مذہب کے نام پر قومیں نہیں بنتیں اور خود کو ریاستی قومی شناخت میں مدغم ہونے سے بچانے کیلئے سیکولر ازم کے نظریے کو فروغ دیا ہے۔ بلوچ دانشور جان محمد دشتی اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ”بلوچ اچھے مسلمان ہیں لیکن وہ مذہب کی بنیاد پر ہرگز اپنی قومی شناخت کی قربانی دیکر ناوجود رکھنے والے فرضی مسلمان قوم کا حصہ نہیں بنیں گے“ لہٰذا مشرقی بلوچستان میں بلوچ رہنماؤں نے مشترکہ تاریخ، مشترکہ جغرافیہ، مشترکہ کلچر اور سیکولر ازم کی بنیاد پر بلوچ قومی شناخت کا دفاع کیا ہے، جبکہ مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) کے بلوچوں نے ایک الگ طریقے سے اپنی قومی شناخت کا دفاع کیا ہے، ایران جوکہ ایک کثیر القومی ریاست ہے، جہاں مختلف قومیں رہتی ہیں، ایران کے ریاستی دانشوروں نے ایرانی قومی شناخت کی تشکیل کیلئے شیعہ فرقے کا استعمال کیا کیونکہ ایران کی اکثریتی آبادی اسی مذہب فرقے سے تعلق رکھتی ہے لیکن وہاں بلوچ اور کرد اقلیتی تعداد میں سنی فرقے کے پیروکار ہیں اور اسی وجہ سے بلوچ رہنماؤں نے بلوچوں کو میں اسٹریم ایران میں مدغم ہونے سے بچایا ہے۔ اپنی علیحدہ قومی شناخت برقرار رکھنے کی بہت بڑی قیمت بلوچوں نے ایران میں ادا کی ہے، وہ اپنے ہی صوبے میں اعلیٰ عہدوں سے محروم ہیں کیونکہ ایران کے آئین میں یہ درج ہے کہ کسی بڑے عہدے پر فائض رہنے کیلئے شیعہ فرقے سے تعلق رکھنا ضروری ہے، اسی امتیازی سلوک کی وجہ سے ایران کو مختلف ادوار میں بلوچ قومی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، ان دنوں بھی ایرانی سرکار اور بلوچ شہریوں کے درمیان زاہدان اور دیگر علاقوں میں کشیدگی جاری ہے، اس کے نتیجے میں 60 سے زائد بلوچ اور متعدد ایرانی عہدیدار مارے جاچکے ہیں، ایران سرکار کی اس شورش پر قابو پانے کا طریقہ کار اور ظلم ریاستی دہشتگردی کے زمرے میں آتا ہے لیکن مشرقی بلوچستان کی قوم پرست پارٹیاں اور طلباء تنظیمیں اس ریاستی مظالم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور کوئی احتجاج دیکھنے کو نہیں مل رہا۔ بعض لوگ اپنے سماجی میڈیا کے اکاؤنٹ سے یہ بھی تبصرا کررہے ہیں اور اپنی مجرمانہ خاموشی کی وضاحت یوں دے رہے ہیں کہ مغربی بلوچستان میں جاری کشیدگی بلوچ قومیت کے نام پر نہیں ہورہی بلکہ مذہبی انتہاء پسندی کی وجہ سے ہورہی ہے، غالباً یہ باتیں یہ لوگ اپنی کم علمی کی وجہ سے کررہے ہیں اور وہ یہ سمجھتے ہیں کہ نیشنلزم محض جغرافیہ اور ثقافت کی بنا پر ہی ہوسکتی ہے اور مذہب کا اس میں کوئی کردار نہیں ہے، حالانکہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ دنیا میں متعدد قومی تحریکیں مذہب کی بنیاد پر ہی چلی ہیں، ان کا یہ تبصرہ کہ مغربی بلوچستان میں بلوچ قومیت کی جنگ نہیں بلکہ مذہبی انتہاء پسندی کی جنگ ہے یہ تبصرہ مغربی بلوچستان کے غیور بلوچوں کی قربانی کی توہین ہے۔ مغربی بلوچستان سے تعلق رکھنے والے رہنماء مالک ریکی سے جب ایک یورپی صحافی نے یہ پوچھا کہ کیا آپ مذہبی انتہاء پسند ہیں؟ تو اْنہوں نے یہ جواب دیا ”میں ہرگز مذہبی انتہاء پسند نہیں ہوں، مذہبی انتہاء پسند ایرانی حکومت ہے، میں نے کبھی یہ نہیں کہا کہ ایک شیعہ بڑے عہدے پر فائض نہیں ہوسکتا بلکہ یہ ایرانی سرکار کے لوگ کہتے ہیں کہ ایک سنی بڑے عہدے پر فائض نہیں ہوسکتا۔ میں انتہاء پسند نہیں بلکہ میں مذہبی انتہاء پسندوں کیخلاف مزاحمت کررہا ہوں اور مذہبی انتہاء پسندوں کیخلاف مزاحمت کرنا انتہاء پسندی کے دائرے میں نہیں آتا“۔