بچوں کا ادب ماضی حال مستقبل

رپورٹ : ببرک کارمل جمالی

اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس بچوں کا ادب ماضی، حال اور مستقبل کا انعقاد کیا گیا ہے جس میں بین الاقوامی ادیبوں نے شرکت کی اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام دائرہ علم و ادب پاکستان کے اشتراک سے منعقدہ تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کی افتتاحی تقریب اکادمی ادبیات پاکستان کے فیض احمد فیض آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی جس میں ڈاکٹر یوسف خشک چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان خطبہ استقبالیہ پیش کیا جس میں انہوں نے تمام اہل قلم کو خوش آمدید کیا اور تمام اہل قلم کا شکریہ بھی ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ اس پروگرام میں تمام صوبوں کے لوگوں نے شمولیت اختیار کرکے اکادمی ادبیات کا نام پورے دنیا میں روشن کر دیا ہے۔ یہ اکادمی ادبیات پاکستان کے لئے ایک اعزاز سے کم نہیں ہے۔ ان شاءاللہ اس طرح کے پروگرام ہم ہر سال کریں گے اور اسی طرح اہل قلم کو اکھٹے کر کے بچوں کے ادب کو عروج پر پہنچائیں گے۔
محمود شام نے اپنے تقریر میں کہا کہ اس وقت بچوں کا ادب بہت پیچھے جا رہا ہے آج تک اس طرح کا کوئی بھی پروگرام پاکستان کی تاریخ میں نہیں ہوا ہے۔ یہ اعزاز چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان کو جاتا ہے آج کے بچے کتابوں کے بجائے ویڈیوز میں اپنا وقت گزار دیتے ہیں۔انہوں نے اپنے تفصیلی خطاب میں بچوں کے ادب پر تاریخی حوالوں سے روشنی ڈالی بچے ہمیشہ من کے سچے ہوتے ہیں ایک وقت تھا جب بچوں کے ادب پر لکھاریوں کو وزیر اعلیٰ کے ہاتھوں انعامات دیئے جاتے تھے جو آج کل ممکن نہیں ہے۔ کوڈ نے بچوں کے ادب کو بڑا نقصانات پہنچائے ہیں جس کا تدارک تاحال ممکن نہیں ہوا ہے۔ حکومت پاکستان کے لیے کئی چینل ہیں مگر چینل بھی بچوں کے لیے خالص مختص نہیں ہے جو بچوں کی پرورش اچھے طریقے سے کرنے والدین اور بچوں اچھا عمل سکھا سکیں۔
امجد اسلام امجد نے کہا کہ بچوں کے ادب میں جس طرح سے کام ہونا چاہیے تھا اس رفتار سے نہ ہوسکا ہے۔ پرانی کہانیاں زندگی بھر نہیں بھولی جاتی ہے بچوں کا ماضی بھی ہوتا ہے حال ہوتا ہے پر وہ سوچتے مستقل کا ہے۔ میں نے پوری زندگی بچوں کے لیے کہانیاں لکھی ہیں مگر سچ یہ ہے کہ ہم نے بچوں کے ادبیوں کے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا گیا ہے۔ بچوں کے ادب مستقل کے معماروں کے ہاتھوں میں ہے ان کو سنوارنے کی اشد ضرورت ہے۔ بچوں کو جب کتاب کی جانب راغب کریں گے تو وہ ہم سے بھی آگے نکل جائے گا سوشل میڈیا سے پہلے پی ٹی وی واحد چینل تھا جو چار سے پانچ بجے بچوں کےلئے پروگرام رکھتے تھے جو آج کل نایاب ہوگئے ہیں۔ بچوں کو گھروں میں کہانیاں ہمیشہ لوکل زبان میں سنائی جاتی ہیں تو بچے سیکھ جاتے ہیں۔ امریکہ نے بھی بچوں کے ادب پہ بہت کام کیا ہے انہوں نے بچوں کو جدید دور میں جدید ٹیکنالوجی کے ساتھ ترقی کی راہ پر گامزن کیا ہے اچھی کہانیاں لکھنے والے اہل قلم کو نصاب میں شامل کیا جائے تو ایک بہترین عمل ہوگا۔
محترمہ فارینہ مظہر، وفاقی سیکرٹری ، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن نے اپنی تقریر میں کہا کہ ماں ہمیشہ بچوں کو لوریاں سناتی ہیں، تب سے بچے کے پرورش شروع ہوتی ہے۔ اکادمی ادبیات نے دنیا کے اکثر ممالک کو دیکھا دیا کیاکہ دنیا میں ہم کسی سے کم نہیں ہیں آج کے بچے کل کے مستقبل ہیں ان معماروں کی تربیت ہم سب پر لازم و ملزوم ہیں۔ ان شاءاللہ اس طرح کے پروگرام ہر سال کرانے کے لیے وزیراعظم کو بھی کہیں گے اور یہ سلسلہ اب رکنے والا نہیں ہوگا۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ اس وقت اسلام آباد میں ایک کہکشاں جمع ہے جو مستقبل کے معماروں کو تربیت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہم سب آج بھی بچے ہیں مگر آج ہم وہ بچے کہاں سے لائیں جو ہر شام اپنی والدہ سے کہے کہ مجھے کہانی سنائیں آج نہ تو بچے کے والدین کے ہاتھ میں کتاب ہے نہ بچے کے ہاتھ میں کتاب ہے آخر کیوں۔اس ملک کی لائبریریاں آخر کیوں ختم ہو رہی ہے۔ نیشنل بک فاو¿نڈیشن کو بچوں کے ادیبوں کے وقف کردیا گیا تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کے ادب پر کام ہو سکیں۔ ناخواندگی کا سلسلہ ختم کرنا ہے تو بچوں کو اردو کی جانب راغب کرنا لازم ہے اچھا ادب تخلیق کریں تو بچے موبائل فون کی ڈیمانڈ اور سپلائی کم ہو جائے گی۔
انجینئر امیر مقام، مشیر برائے وزیراعظم، سیاسی و عوامی امور، قومی ورثہ و ثقافت ڈویژن انہوں نے اپنے اختتامی خطاب میں کہا کہ میں کتاب دوست شخصیت ہوں میں پوری دنیا کے اہل قلم کا شکریہ ادا کرتا جو اس وقت ویڈیو لنک پر اہل قلم کو دیکھ اور سن رہے ہیں۔ جنہوں نے اپنا وقت نکال کر ہمارے اہل قلم کی حوصلہ افزائی کر رہے ہیں آج مجھے بہت خوشی محسوس ہو رہا ہوں کہ آج میں اتنی اہم شخصیات کے بیچ میں کچھ بول رہا ہوں۔ مجھے فخر ہے کہ میں نے ٹاٹ سکول پر پڑھائی شروع کی تھی۔ مجھے ہمیشہ نیند تب آتی تھی جب دادا دادی کہانی سناتے تھے اس کانفرنس کی کامیابی پاکستان کی کامیابی ہے میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں بچوں کے ادب پہ ہر قسم کا تعاون کرو گا جو تین دنوں میں تجاویز ہوں گے ان پہ عملدرآمد ہونا لازم کرنے کےلئے جدوجہد کرو گا ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہیں یہ کانفرنس ہر سال ان شاءاللہ ہوگا بچوں کے تمام اہل قلم کو ایوارڈ بھی دیئے جائیں گے۔
دوستو سچ تو یہ ہے کہ بچوں کا ایک جدوجہد ہے۔ جس کی ایک تاریخ ہے۔ اور اس کیمپ میں سب خوش قسمت لوگ تھے جنہوں نے بچوں کے ادب کی تاریخ میں اپنا حصہ ڈالا اور یہ پہلی سرکاری کانفرنس کا حصہ بنے۔ پہلے مئی میں ملتوی ہونے والی کانفرنس نومبر میں شروع ہوگئی اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام بچوں کے ادب پر تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس ”بچوں کا ادب، ماضی حال مستقبل“ شروع ہونا ایک اعزاز سے کم نہیں ہے اس وقت انتظامیہ بھی یہ نہیں جانتی تھی دیس دیس اور پردیس کے لوگ تمام رکاوٹ کو پیچھے چھوڑ کر اسلام آباد پہنچ جائیں گے۔ اس کانفرنس میں خیبر پختونخوان ، بلوچستان ، سندھ پنجاب کشمیر اور،گلگت بلتستان کے دانشور شامل تھے۔یہ کانفرنس سرکاری طور پر بچوں کے ادب پر پہلی کانفرنس تھی۔ اس کانفرنس کے دوران محمود شام صاحب نے کچھ تجاویز بھی دی تھیں جو قابلِ غور ہیں کہ سرکاری ایوارڈز بچوں کے ادیبوں کو دیئے جائیں بچوں کیلئے لکھنے والوں کو بھی حسن کارکردگی کے تمغے ملنے چاہئے اور اسکولوں کے بچوں میں بھی کہانیاں نظمیں لکھنے کے مقابلے کیے جائیں۔پاکستان ٹیلی وڑن کا ایک چینل صرف بچوں کیلئے مخصوص کیا جائے۔ تمام چینلز کو اس بات کا پابند کیا جائے کہ وہ اپنی چوبیس گھنٹوں کی نشریات میں چوبیس منٹ بچوں کے لیے بھی مخصوص کریں یونیورسٹیاں سرکاری محکمے اگر بچوں کیلئے ادب،کتابوں،درسی کتابوں پر بحیثیت قوم توجہ دیں تو ہماری اجتماعی زبان ا±ردو میں لکھی گئی کہانیاں، مضامین، نظمیں، قومی زبانوں، پنجابی، سندھی، بلوچی، کشمیری، گلگتی اور سرائیکی زبانوں میں منتقل کی جائیں۔ ان زبانوں میں بچوں کیلئے تخلیق کیے گئے ادب کو ا±ردو میں منتقل اور ڈیجیٹلائز کیا جائے تو ہم آئندہ پانچ چھ برس میں ایک قومی مزاج تشکیل کرسکتے ہیں۔
اس طرح مسلسل تین دنوں تک اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام ایک عالمی بچوں کے ادب کا میلہ سجا رہا آخری دن اختتامی تقریب فیض احمد فیض آڈیٹوریم اکادمی ادبیات پاکستان میں منعقد ہوئی جس کی صدارت وفاقی سیکرٹری لوک ورثہ و ثقافت محترمہ فارینہ مظہر نے کی جبکہ ممتاز ادیب اور ڈرامہ نگار اصغر ندیم سید اور فاطمہ حسن نے مہمانانِ خاص کی حیثیت سے شرکت کی۔ چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر محمد یوسف خشک نے سپاسنامہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ اکادمی نے پاکستان میں بچوں کے تین روزہ ادبی کانفرنس کا انعقاد کرکے اہنی قومی ذمہ داری کو نبھانے کی سعی کی ہے۔ انھوں نے کہاکہ بچے قوم کا مستقبل ہے اِن کی بہتر تعلیم و تربیت قومی فریضہ ہے۔ تقریب سے وفاقی سیکرٹری لوک ورثہ و ثقافت محترمہ فارینہ مظہر نے کہا بچوں کے ادب کو کسی طور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو قراردادیں ، تجاویز ، اور لائمہ عمل طے پائے گا اس پر سنجیدگی سے نہ صرف غور کیا جائے بلکہ عملی طور پر اقدامات کئے جائی گے۔ پاکستان کی تاریخ میں اس وقت تک بچوں کا ادب پر آج تک اس طرح کا کوئی بھی پروگرام تاریخ میں نہیں ہوا ہے یہ اعزاز چیئرمین اکادمی ادبیات پاکستان کو جاتا ہے۔
اکادمی ادبیات پاکستان میں ادیبوں کی ایک کہکشاں تین دنوں تک سجی رہی ان تین دنوں میں ادیبوں پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اپنی ادبی صلاحیتیں بچوں کے لیے وقف کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ بچوں کا ادب ترقی وترویج کے مراحل طے کر سکے۔ ناخواندگی کا سلسلہ ختم کرنا ہے تو بچوں کو اردو کی جانب راغب کرنا لازم ہے ادب تخلیق کریں۔اس وقت بیش تر بچوں کارشتہ کاغذ اور قلم سے غیر مستحکم ہوتا جار ہا ہے آئے دن ذرائع ابلاغ کی آسمان چھوتی ترقی اور بچوں تک موبائل کی رسائی وغیرہ ایسے اسباب و عوامل ہیں جو ہمیں دعوتِ فکر دیتے ہیں۔
بچوں پر ماحول کا بھی بڑا اثر پڑتا ہے بلکہ کہا جاتا ہے کہ ماحول سب سے بڑا ا±ستاذ ہوتا ہے۔اس ماحول کا نتیجہ ہے کہ آج بولنے سے پہلے ہی بچہ موبائل چلانے لگتا ہے جو افسوسناک عمل ہے جس پہ کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
اکادمی ادبیات پاکستان ایک ایسا ادارہ ہے جو پاکستان کے قومی و علاقائی ادب کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی ادب کو بھی فروغ دینا ہے چیئرمین اکادمی ادبیات جناب ڈاکٹر یوسف خشک ایک متحرک اور علم و ادب دوست انسان ہیں۔ا±نھوں نے اپنا عہدہ سنبھالتے ہی ہر قسم کی ادبی سرگرمیوں کو فعال بنایا۔ انہوں نے ایک ایسی ٹیم بنائی ہے جنہوں نے آختر رضا سلیمی اور ریاض عادل کی صورت میں بچوں کےادب کی خدمت کے لیے کمر کس لی ہے۔ادبیاتِ اطفال کا اجرا اس کی زندہ مثال ہے۔ اس سہ ماہی رسالے میں بچوں کے ادیبوں کی نگارشات شائع ہوتی ہیں اور ادیبوں کو معاوضہ بھی دیا جاتا ہے۔ اکادمی ادبیات پاکستان کے زیرِ اہتمام ” بچوں کا ادب: ماضی،حال اور مستقبل "کے عنوان سے تین روزہ بین الاقوامی کانفرنس کانفرنس کے دس اجلاس ہوئے، ان اجلاسوں میں بچوں کے ادب کے ہر پہلو پر ایک سو تین مقالے پیش کیے گئے۔ کانفرنس میں نہ صرف ملکی اور علاقائی ادیبوں نے مقالہ جات پیش کئے گئے بلکہ غیر ملکی ادیبوں نے بھی اپنے ملکوں میں بچوں کے ادب کی ص±ورتِ حال پر بیش بہا مقالہ جات پیش کیے۔ان مقالہ جات کے ذریعے بچوں کے ادب کے بارے میں معلومات کا تبادلہ ہوا۔ اکادمی ادبیات پاکستان کی منعقدہ کانفرنس بچوں کے ادب کے فروغ کے لیے ایک احسن اقدام ہے۔ بلاشبہ ڈاکٹر یوسف خ±شک ، ڈاکٹر محمد افتخار کھوکھر،احمد حاطب صدیقی ،اختر رضا سلیمی، ریاض عادل اور سولنگی اتنی شان دار اور کامیاب کانفرنس کے انعقاد پرمبارک باد کے مستحق ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں