عورت کو معاشرے میں دیا گیا لقب ”کمزور عورت“

تحریر: مریم امان
"کمزور عورت "ہمارے معاشرے کا دیا گیا عورتوں کو ایک ایسا لقب ہے جسے ہمارے معاشرے کی خواتین نے دل کھو ل کے قبو ل بھی کر لیاہے یہ سچ ہے کہ وہ جسما نی اوررو حانی لحاظ سے کمز و ر ہو تی ہے مرد کے ایک تھپڑ سے گر جا تی ہے اپنو ں کی جھو ٹی محبت کی خا طر اپنا آپ مٹا دیتی ہے و ا لد ین کی عز ت کی خا طر اپنے حقوق بھلا د یتی ہے بھا ئی کی غیر ت کی خا طر اپنی خو ا ہشوں کو ما ر د یتی ہے سسر ال کی نا انصافیا ں ظالم شو ہر کی ما ر پیٹ صر ف اس ر شتے کو بچا نے کی خا طر سہ جا تی ہے اپنی ز با نی سی لیتی ہے کسی سے کچھ نہیں کہتی کیو نکہ ما ں با پ نے تو پلے ہی کہہ د یا ہو تا ہے کہ یہی نصیب تمہا را اسی کے سا تھ گز ا را کر و اس طر ح وہ پو ری ز ند گی ظلم سہتی سہتی بو ڑ ھی ہو جا تی ہے اپنے بچوں کی خو ا ہشوں کو پو را کر نے کے لئے اپنا آپ مٹا د یتی ہے سچ ہے وہ بیٹی،یا بہن اور بیو ی یا بہو یا پھر و ہ ما ں ہی کیو ں نہ بن جا ئے ہر شتے میں ہر صو ر ت میں وہ کمز ور ہی تو ہو تی ہے لیکن کیا وہ پید ا ئشی کمز ور ہو تی، یا پھر اللہ نے ہی اسے کمز ور پیدا کیا ہے، کیا وہ خدا کی اتنی ہی کمز ور مخلو ق ہے؟، عورت ہر روپ اور ہر رشتہ میں عز ت و قار کی علا مت، و فا داری اور ایثا ر کاپیکر سمجھی جا تی ہے انسا ن کسی بھی منصب اور حیثیت کا حا مل ہو ز ند گی کے سفر میں کسی نہ کسی مر حلہ پر کسی خا تو ن کامر ہو ں احسا ن ضر و ر ہو تا ہے با ر با ر سننے میں آ تا ہے کہ ہر کا میا ب انسا ن کے پیچھے کسی عور ت کا ہا تھ ہو تا ہے اگر یہ سچ ہے تو اس کا مطلب یہ ہو ا کہ صنف نا ز ک کی شخصیت میں کہیں ایک نا قا بل تسخیر طا قت ضر و ر مو جو د ہے تو پھر اس کی ذ ا ت میں کم ما ئیگی کے احسا س نے کب اور کیسے جنم لیا؟، اس سلسلہ میں مورد ا لز ا م مر دوں کو ٹھر ا یا جا ئے یا پھر عورت ہی عور ت کی حر یف و اقع ہو ئی ہے وہ معمہ ہے جسے حل کر نے اہل علم و د انش بر با بر س سے سر گر دا ں ہیں دیکھئے کیا نتا ئج سا منے آ تے ہیں ہما ری تو بس ایک چھو ٹی سے عر ض ہے کہ خو د کو پہچا نیں بنت حوا کا وہ چہر ہ جس کے نقو ش و قتی تقا ضو ں، مفر و ضو ں اور دیگر نا م نہا د جد ت طراز یو ں سے گر د آ لو د ہو کر ر ہ گئے ہیں ان کی شنا خت کر یں تر قی کا سفر رو ا یا ت اور جد سے کے تو ازن کے بغیر ممکن نہیں ما نا کہ جد ت اور نیا پن خو د میں ایک بے سا ختہ تا ز گی کا احسا س لئے ہو تا ہے جیسے بہا روں میں پھو لو ں کا کھلنا مسرت اور شا د ما نی کا با عث ہو اکر تا ہے لیکن اگر اس کا ر شتہ از لی تا ر یخی حقا ئق سے منقطع کر د یا جا ئے یا کمز ور پڑ جا ئے تو پھر یہ تا ز گی مو سمی پھلو ں کی طرح جلد اپنا نا م و نمو د کھو کر قصہ پا ر ینہ بن جا تی ہے، عور ت کا اصل و صف حیا اور نسو انیت اس کا حقیقی حسن ہے پھر یہی خو بیا ں نمو پا کر خلو ص ہمد ر دی،ایثا ر اور مستقل مز ا جی جیسے با و قا ر جذ بوں کی شکل میں عیا ں ہو تی ہیں یہی وہ خو بصو ر تی ہے جس کی ضیا ما یو سی کے اند ھیر و ں میں امید کی کر ن اور صبح نو کی نو ید ہے آ نکھو ں میں جھلملا تے رو پیلی ا جا لے، آ سما ن پر قو س و قز ح کی بہا ر مہند ی، گلا ب اور چنبیلی کی مہک اور جیسے نجا نے کتنے استعار ے عورت کی ذ ا ت سے منسو ب ہیں د ھر تی کے ٹھر ا ؤ سے لے کر سمند روں اور د ر یا ؤ ں کے طلا طم جیسے متضا د جذ با ت کو سینے میں سمو ئے یہ ہستی ما ضی، حا ل، مستقبل کے پر پیچ اور طو یل رستوں پر مستعد قد مو ں سے رواں دواں ہے اور نسل انسا نی کی نہ صر ف پر ور ش اور ر ہنما ئی کا فر یضہ انجا م د یئے ہیں ہمہ تن مصر و ف ہے بلکہ وقت پڑ نے پر اپنے فطر ی کر دار کے د ا ئر ہ کا ر سے با ہر بھی ہر سمت میں ہر محا ذ پر اپنی فتح کا علم بلند کر نے کے حو صلے سے ما لا ما ل ہے، خو د خو ا تین کا ا حتر ام درا صل نو ح انسا نی کے احتر ا م کے متر د ف ہے، کیو نکہ حضر ت آ دم علیہ السلا م اور حضر ت بی بی حو ا ًکے علا وہ د نیا میں کو ئی نفس ایسا نہیں آ یا جسے ما ں نے جنم نہ دیا ہو اگر ہما رے لئے ما ں متحر م ہے تو د نیا کی ہر خا تو ں محتر م ہو نی چا ہنے یو ں بھی عورت کا احتصا ل اور اسے کمز ورو حقیر سمجھنا عہد جا ہلیت کے شر منا ک رو اجو ں میں سے ایک ہے اسلا م نے جد ید تر قی یا فتہ معاشرے کی بنیا د ر کھی جہا ں حقوق کو غصب کر نا ظلم و جبر تکبر اسطا قت کے بے جا استعمال کو ممنو ع قر ار د یا د ہیں بیٹیو ں کی و لا د ت کو با عث شر م سمجھنا اور اس جیسے دیگر اطو ر کی حو صلہ شکنی بھی کی، انسان تو انسا ن بلکہ ہر جا ند ا ر کے حقو ق کا احتر ام سکھ…

اپنا تبصرہ بھیجیں