عدلیہ بحالی میں سیاستدانوں،آمروں اور خود ججوں کا کردار تاریخ کے آئینے میں:

تحریر: محمد صدیق کھیتران
18 فروری 2008ء کو ملک میں قومی الیکشن ہوئے جن میں 342 کے ایوان میں 116 پیپلز پاٹی،88 مسلم لیگ ن اور 54 مسلم لیگ ق نے جیتیں۔حکومت سازی کیلئے 172 ارکان کی تائید درکار تھی۔دوسری طرف ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی صوبائی حکومت کے 371 کے ایوان میں مسلم لیگ 148، پیپلز پارٹی 103 اور مسلم لیگ ق کی 79 سیٹیں بنیں۔حکومت سازی کیلئے 186 ارکان کی حمائت وہاں درکار تھی۔ چنانچہ 8 مارچ کو بھوربن ہوٹل مری میں آصف زرداری اور نواز شریف کا معاہدہ ہوا جس کی روح سے دونوں جماعتیں مرکز اور پنجاب میں مخلوط حکومتیں بنائینگی۔مرکز میں وزارت اعظمی،اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر پیپلز پارٹی جبکہ پنجاب میں وزارت اعلئی،اسپیکر شپ اور ڈپٹی اسپیکر شپ مسلم لیک ن کے لیے طے ہوئیں۔کابینہ میں دونوں جماعتوں کی آدھی آدھی تعداد ہوگی جن میں ہر دو پارٹی کی اتحادی بھی شامل ہونگے۔دوسرا سب سے بڑا معاہدہ یہ طے ہوا کہ تمام ججز کو 30 دن کے اندر اندر اسمبلی سے قرارداد پاس کر کے واپس اپنی اصل پوزیشنوں پر بحال کردیا جائے گا۔ اس حساب سے ججز کو 30 اپریل تک بحال ہونا تھا۔ 25 مارچ 2008 کو وزیراعظم یوسف رضاگیلانی کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت مرکز جبکہ شہباز شریف کی حکومت پنجاب میں بن گئی۔مگر یکم اپریل کو اعتزاز احسن نے کوئٹہ میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئیکہا کہ ایوان صدر میں ججز کی بحالی کے خلاف سازش تیار ہورہی ہیں۔یاد رہے اس وقت تک جنرل پرویز مشرف ملک کا صدر تھا۔مشرف کو پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز کا معاہدہ قبول نہیں تھا۔30 اپریل گزر گئی مگر پیپلز پارٹی نے ججز کو بحال نہیں کیا۔نواز شریف نے آصف زرداری سے ملاقات کی اور معاہدے پر عملدرآمد نہ ہونے پر اپنی جماعت کی تشویش سے آگاہ کیا۔آصف زرادی نے کوئی واضح جواب نہیں دیا۔مجبور ہوکر نواز شریف نے 12 مئی کو اعلان کیا کہ اگر ایک دن کیاندرججز بحال نہ ہوئے تو ان کی جماعت 13 مئی کو حکومت سے باہر آجائیگی۔ یہ تاریخ بھی گزر گئی تب پھر مسلم لیگ حکومت سے باہرآگئی۔
پیپلز پارٹی، مشرف، ق لیگ اور ایم۔ کیو ایم میثاق مفاہمت کے بینیفشری benificiary تھے۔ جبکہ اس این آر او کو چودھری افتخار حسین کلعدم قرار دے چکے تھے۔ اس کوبحال کرنا آصف زرداری کو کہاں وارا کھاتا تھا۔اس نے ججوں کو بحال کرنے کی بجائے ان ججوں کو توڑنے پرکام شروع کیا۔ اس زمانے میں بابر اعوان، فواد چودھری اور فردوس عاشق اعوان زرداری کیخاص آدمی ہوا کرتے تھے۔بابر اعوان کا اٹیچی کیس اور وکلا کی بار تنظیموں کے دورے بہت مشہور ہوگئے تھے۔چنانچہ 60 میں سے 58 ججز بغیر چودھری افتخار حسین کی بحالی کے کام کرنے کیلئے تیار ہوگئے۔
دونوں بڑی جماعتوں اور ان کے اتحادیوں کے پاس اتنی قوت موجود تھی کہ وہ پرویز مشرف کے خلاف آسانی سے مواخذے کی تحریک کو کامیاب کرسکیں۔زرداری کو پتہ تھا اگر چودھری افتخار حسین کی بحالی کو سودے میں ڈالا جائے تو نواز شریف آسانی سے مان جائیں گے۔8 اگست کو نواز اور آصف زرداری کے درمیان نیا معاہدہ طے پایا۔کہ جیسے ہی مشرف استعفء دیدے گا۔تو چودھری افتخار کو بھی بحال کردیا جائے گا۔وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے پہلے بھی وعدہ کیا تھا کہ وہ 12 مئی 2008ء تک جسٹس افتخار حسین چودھری کو بحال کردینگے۔گر وہ وعدہ وفا نہ ہوا۔بہرحال 7 اگست 2008ء کو اتحادی حکومت نے فیصلہ کیا اور زرداری نے ٹیلی ویڑن پر خبرچلادی کہ آئین کا آرٹیکل 47 مواخذے کا اختیار پارلیمنٹ کو دیتا ہے جس کے لئے مطلوبہ تعداد اتحادیوں کے پاس موجود ہے۔چنانچہ مواخذے کیلئے پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نواز، نیشنل عوامی پارٹی اور جماعت اسلامی نے صف بندی کا اعلان کیا۔16 آگست کو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پریس کانفرنس میں اعلان کیا کہ صدر کے پاس 19 آگست تک استعفء دینے کا وقت ہے۔ان دنوں بیجنگ میں اولمپکس کا افتتاح ہونا تھا۔جس میں صدر پاکستان مشرف بھی مدوعین میں شامل تھے۔اس نے اپنا وہ چین جانے کا دورہ ایک دن پہلے ملتوی کر دیا تھا۔وزیردفاع چودھری احمد مختار نے پریس کانفرنس میں کہا کل پرسوں تک صدر کے مواخزے کی چارج شیٹ بھی قومی اسمبلی میں پیش کردی جائے گی۔مشرف نے عمران کی طرح شروع میں بڑکیں ماریں کہ وہ اپنا دفاع کرے گا اور وہ کسی مواخذے سے ڈرنے والے نہیں۔مگر اشفاق کیانی نے جنرل باجوہ کی طرح خفیہ ایجنسی کو سیاست سے دور رہنے کا اعلان کرکے اس کی ہوا نکال دی تھی۔ چنانچہ مواخذے کی بنیاد بھی 3 نومبر 2007 کی ایمرجنسی کو بنایا گیا جس میں یہ کھا گیا کہ صدر کے غیر ائینی ایمرجنسی کی وجہ سے 15 دسمبر 2007 تک آئین معطل رہا۔ صدرکا یہ انتہائی قدم قابل مواخذہ ہے جس کی بنا پر ان کا صدارت پر رہنے کا جوازنہیں ہے۔ حالانکہ اسی پیپلز پارٹی نے مخدوم امین فہیم کے صدارتی امیدوار کے کاغزات عین صدارتی انتخاب کے دن مشرف کے خلاف واپس کرکے بائیکاٹ کی بجائے Abstain کا ڈرامہ رچایا۔کیونکہ محترمہ بے نظیر بھٹو 17 جولائی 2007 کی ڈیل کی وجہ سے ملک میں صدارتی انتخاب کے دن دبئی سے واپس نہیں آئی۔
اس دوران آصف زرداری نے اعلان کیا کہ مشرف کے مواخذے کی صورت میں اگلا صدارتی امیدوار خواتین میں سے لیا جائے گا۔مجھے خود کوئی شوق نہیں میرے لئے تو وزارت عظمی کا موقع تھا میں نے اس کو چھوڑ دیا تو صدارت کا امیدوار کیوں بنوں گا۔ نواز شریف نے کہا کہ وہ اس کا حقدار اسمبلی میں اکثریت رکھنے والی جماعت کو سمجھتے ہیں۔تاہم میرا مشورہ ہوگا اس کیلئے بلوچستان سے کسی کو مشترکہ صدارتی امیدوار لیا جائے تو ملک اور سیاست کیلئے بہتر ہوگا۔ جب خفیہ والوں سے مدد نہ ملی تو مجبور ہوکر 18 اگست کو دن ایک بجے مشرف ٹیلی ویڑن پر نمودار ہوئے اور ایک گھنٹے تک جذباتی تقریر جھاڑنے کے بعد مکا لہراتے ہوئے مستعفی ہونے کا اعلان کرکے چلے گئے۔
امریکہ کی وزیرخارجہ "کونڈالیذا” نے فوکس نیوز ” "TV netwok Fox ” میں آکر سب سے پہلے اس بات کی وضاحت کی کہ ان کے ملک کا مشرف کو سیاسی پناہ دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور ناہی ایسی کوئی تجویز زیر غور ہے۔ان غلاموں فطرت لوگوں کی اصل اوقات یہ ہوتی ہے۔البتہ ڈیلی ٹیلگراف اورنیوزویک نے خبردی کہ مشرف سعودی عرب جائے گا وہاں سے ان کو ممکنہ طورپرلندن میں رکھا جائے گا۔کہا جاتا ہے کہ مشرف کے استعفء کے وقت پیپلز پارٹی نے یہ شرط مان لی تھی کہ ان کے خلاف کوئی قانونی کاروائی نہیں کی جائے گی حالانکہ محترمہ کے قتل کے متعلق قاتل لیگ اور اس کے سرغنہ مشرف کو معتوب بھی آصف زرداری نہیں ہی ٹھہرایا تھا۔ 22 دسمبر 2008 کو الیکشن کمیشن نے صدارتی انتخاب کیلئے 6 ستمبر کا اعلان کیا۔ مسلم لیگ نے 25 اگست کو اسمبلی میں حمائت واپس لیکر اپنا صدارتی امیدوار کھڑا کرنے کا اعلان کیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭

اپنا تبصرہ بھیجیں