بی ایس او کا 55واں یوم تاسیس 1967ء

بانی چیئرمین مرحوم ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ
تحریر: گل حسن بلوچ
بی ایس او ہو یا پارلیمانی سیاست ڈاکٹر صاحب نے اہم کردار ادا کیا، لہٰذا رہتی دنیا تک انکا نام ہمیشہ زندہ رہے گا۔ یہ دنیا فانی ہے، جدوجہد سے ہی انسان کے نام کو بقا ملتی ہے۔ ڈاکٹر صاحب بھی انہی لوگوں میں شامل ہیں جنہوں نے جدوجہد کو اعلیٰ سمجھا۔ ڈاکٹر صاحب نے اصول، قول و فعل، جمہوری سیاست اور بلوچستان کے ساحل و وسائل پر سمجھوتا نہیں کیا، چاہے ان پر جیسا بھی وقت گزرا اور اپنے ہم خیالوں کو بھی یہی درس دیتے رہے۔ بی ایس او کا بنیادی مؤقف طلبہ کے شعوری، سیاسی اور تہذیبی معاملات اجاگر کرنے میں اہم کردار رہا ہے جو آج تک جاری و ساری ہے۔ تحریکیں کیوں اور کس وجہ سے جنم لیتی ہیں، اسکا مختصر جواب یہ ہے کہ جب کسی ریاست پر کوئی قبضہ ہو یا کسی قوم کی حق تلفی عروج پر ہو وہاں تحریکیں ضرور جنم لیتی ہیں وقت اور حالات کے مطابق اور طلبہ نے بھی ان ہی مسائل کو محسوس کرتے ہوئے بی ایس او کی بنیاد ڈالی اور اسی بی ایس او نے طلبہ میں شعوری سیاسی اور تہذیبی معاملات پر اہم کردار ادا کیا جو ہمیں کسی دوسری طلبہ تنظیم میں نہیں ملا۔ اس کی مثال یہ ہے کہ بی ایس او نے بین الاقومی، ملکی و صوبائی سطح کی سیاست کے لیے ایسی لیڈر شپ تیار کی ہے وہ ہمیں کسی دوسری طلبہ تنظیم میں نہیں ملتی، یہ کسی پر تنقید نہیں، وہ خود بھی اس پر چاہیں تو سوچ بچار کریں۔ بہت ساری طلبہ تنظیمیں موجود ہیں اور ختم بھی ہوئیں ان کا جنم کسی پارٹی کے ذریعے وجود میں آتا تھا لیکن بی ایس او نے خود ایک مضبوط پارٹی بنانے کے لیے لیڈر شپ پیدا کی ہے اور اسکی خوبی یہ رہی ہے کہ پورے بلوچستان میں اسکی پہچان غیر سیاسی عام لوگ بھی اس سے بخوبی واقفیت رکھتے ہیں، آپ چاہیں تو اس طرح کسی سے پوچھ سکتے ہیں۔ آج اگر بی ایس او مختلف دھڑوں کا شکار ہے تو اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس میں آپ کو باشعور لوگ ملیں گے، جو غلط اور سہی کی پہچان رکھتے ہوں گے ناکہ بس ہاں میں ہاں ملانا، ایک دوسرے سے مختلف نظریات رکھنے کا مطلب صاف کردیتا ہے کہ طلبہ شعور کے ساتھ علمی اور ادبی ذوق رکھتے ہیں ورنہ نہیں تو اس طرح دھڑے نہیں بنتے۔ اوپر سے آرڈر جاری ہوتے، بی ایس او نہ صرف سیاسی لوگ پیدا کیے بلکہ ادیب بھی پیدا کیے، اس میں لکھاری، انقلابی شاعر، شاعر بھی اعلیٰ پایہ کے جنہوں نے قوم میں ایسی سیاسی بیداری پیدا کی۔ طلبہ نے آج بھی بی ایس او کو شعوری اور سیاسی درسگاہ کی اہمیت دی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں