ایک بہترین سیاسی چال!

تحریر : نصیر بلوچ

پاکستان اور ایران بنیاد پرستی اور تشدد پر مبنی پالیسوں کی وجہ سے غیر جمہوری ممالک سے ترقی کی دوڑ میں سب سے پیچھے ہیں۔ معمولی واقعات کو غیرمعمولی بناکر بات کا پتنگڑ بنانے کا فن تو کوئی پاکستان کے سیاست دانوں سے سیکھے۔ آرمی چیف کی تقرری کو متنازع بنایاگیا ہے سوشل میڈیا کارندوں نے خوب اچھال کر نئی نئی کہانیاں گھڑی ہیں ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت طاری تھی جو صدر مملکت کی عقل مندی اور قانونی اختیار اپناتے ہوئے سمری پر دستخط کرنے سے ایک اچھے انجام کو پہنچا۔ اب کم از کم ڈی وی چینلز پر دن رات آرمی چیف کی تقرری پر بحث و مبحاثے سے ہٹ کر عوامی مسائل پر بات کی جانی چاہئے لیکن یہ کافی مشکل ہے چونکہ ہمارے یہاں میڈیا عوامی مسائل کے بجائے سیاسی تجزیوں کو زیادہ ترجیح دیتے ہیں اس لیے دن رات ٹاک شوز میں آپ دیکھیں گے کسی ایک مسلے پر بات نہیں ہوتی اور کسی ایک مسلے پر پینلیسٹ سے رائے نہیں لیجاتی کہ آیا یہ مسلہ ابھی تک وجود رکھتا ہے اگر رکھتا ہے تو مسلے پر گورنمنٹ کو حل تجویز کردیں لیکن ابھی تک یہ رجحان بہت ہی کم ہے۔ عسکری قیادت کے اہم عہدوں پر تعیناتی سے ملک میں ہیجان کی کیفیت ختم ہوگئی ہے۔ عمران خان نے اسلام آباد دھرنے کو خیرآباد کہہ دیا اور ایک بہترین سیاسی چال چل دی ہے انہوں نے تمام اسمبیلوں سے استعفی دینے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ اب بعض لوگوں کو پرویز الہی کی نیت پر شک ہے کہ وہ عمران خان کے کہنے پر پنجاب اسمبلی توڑدیں گے یا نہیں؟ اپرویز الہی واضح طور پر کہہ چکے ہیں کہ وہ عمران خان کے کہنے پر اسمبلی توڑدیں گے پھر بھی نا جانے کیوں اس دلِ نادانستہ کو شک ہے کہ وہ یہ اقدام اٹھانے سے پہلے ہزار بار سوچیں گے 80 فیصد چانسز ہیں کہ پرویز الہی اسمبلی نہیں توڑیں گے۔ اگر پنجاب اور کے پی کی اسمبلیاں توڑ دی جائے تو مجبوراً حکومت کو الیکشن کرانے پڑیں گے انہوں مزاکرات پر مل بیٹھنا پڑے گا۔ الیکشن کمیشن کے مطابق ملک معاشی طور پر اتنا مستحکم نہیں کہ کم وقتوں میں الیکشن کروایے جاسکیں۔
نئے آرمی چیف سے لوگوں کو بہت سے توقعات وابسطہ ہیں۔ آرمی چیف کو بلوچستان کے حالات کو سنجیدہ لینا چاہئے لیکن وفاقی سطح پر بلوچستان کو ایک کالونی کی طرف سے دیکھا جاتا ہے اس لیے جب تک کالونیزم کا تصور نہیں چھوڑا جاتا بلوچستان کے حالات ایسے ہی رہیں گے۔ حق دو تحریک کا مولانا ہدایت الرحمن کی سربراہی میں پچھلے ایک مہینے سے گوادر میں احتجاج کی جارہی ہے تاحال بلوچستان اور وفاقی حکومت کی جانب سے اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے۔
ایران بلوچوں کے ساتھ تیسرے درجے کے شہریوں جیسا سلوک کررہا ہے۔اور انہیں ان کے ثقافتی، سماجی اور معاشی حقوق سے محروم رکھا گیا۔ایرانی حکومت کی کچھ شاو¿نسٹک پالیسیاں درج ذیل ہیں :
1-بلوچی زبان کی پبلک مقامات پر استعمال کی پابندی ہے۔ اور صوبے میں بلوچ بچوں کو اپنی مادری زبان میں تعلیم دینے سے محروم رکھا گیا ہے۔ ایرانی حکومت بلوچستان میں کسی قسم کی پریس آزادی نہیں دیتا۔
2-تمام ایرانی حکومتیں بلوچ آبادی کو ڈیموگرافیکل ہیرا پھیری کے ذریعے کم کرنے میں مصروف رہےہیں۔
3-گورنمنٹ پالیسی کی بنیاد یہ رہی ہے کہ صوبےمیں غیر بلوچوں کو سستی قیمت پر زمین خریدنے اور کاروبار کرنے کیلئے آسان رسائی اور سہولیات فراہم کی جائیں۔
4- ایرانی حکومت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ بلوچوں کو روزگار کے مواقع سے محروم رکھ کر پوری بلوچ آبادی کو غربت میں رکھ کر پسماندہ رکھا جائے۔
تہران میں مرکزی حکومت میں کوئی بلوچ نمائندگی نہیں ہے۔ مثلاً کوئی وزیر یا کوئی بلوچ ڈپٹی- بلوچستان میں اعلی حکام اور فیصلہ ساز اداروں میں غیر مقامی لوگ یا مقامی غیر بلوچ متعین ہیں جنہیں دیگر علاقوں سے لاکر یہاں آباد کرنے میں مدد دی گئی ہے۔ تمام ایرانی حکومتوں نے بلوچوں پر کبھی بھی اعتماد نہیں کیا ہے۔ حتی کہ ان پر بھی جنہوں نے رضاکارانہ طور پر اپنے تعاون کی خواہش ظاہر کی ہے۔ تاکہ وہ اعلی عہدے پر بلوچ کی نمائندگی کرے۔
5-ایرانی گورنمنٹ کی بلوچ سوسائٹی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں “تقسیم کرو اور حکومت کرو” کی پالیسی رہی ہے۔ شاہ کی پالیسی کی بنیاد یہ تھی کہ مختلف حریف قبائل اور فیوڈل خاندانوں کو استعمال کر کے بلوچ سوسائٹی پر اپنا کنٹرول قائم رکھا جائے۔ اور بلوچ اکثریت کی سماجی، اقتصادی و سیاسی انصاف کی خواہشات کو یکسر نظرانداز کردیا۔ آیت اللہ کی اسلامی رڑیم نے اس کے علاوہ مذہبی کارڈ کو بھی استعمال کیا۔ اور مذہبی راہنماو¿ں کو تقسیم کر کے اپنے مقاصد کیلئے استعمال کیا۔
6-ایران میں عورت عمومی طور پر دوسرے درجے کا شہری شمار ہوتی ہے اور کسی بھی شعبے میں مرد کے برابر شمار نہیں کیا جاتا۔ قومی و مذہبی بنیاد پر اپنے فارسی اور شیعہ بہنوں کے مقابلے میں بلوچ عورت کی حالت بدتر ہے۔ بلوچ زیادہ تر سنی مسلمان ہیں۔ ایرانی قانون بلوچ عورت کو مناسب تحفظ فراہم نہیں کرتا۔ اور جو تحفظ بلوچ عورت کو بلوچ قبائلی نظام اور بلوچ روایات فراہم کرتی ہیں وہ ناکافی ہیں کہ وہ ماڈرن سوسائٹی کی ترقی میں شریک ہو اور اسے برابر حقوق حاصل ہوں۔ عورت بلوچ معاشرے میں سب سے غریب ترین طبقہ ہے جو کہ جنسی، قومی و طبقاتی امتیاز اور جبر کا شکار ہے۔مرد بھی غیر مطمئن تھے کیونکہ ایران میں بلوچ قومی تشخص کو فارسی قومی تشخص میں جذب کرانے کیلئے مذہب کے وسیلے کو استعمال کیا جارہا تھا۔ ان بنیادی حقائق نے بلوچوں کی بےچینی کومزید تقویت دی اور بلوچوں کے عمومی احساسات کو مجروح کیا۔ ایران کی مروجہ پالیساں گزشتہ کہی دہائیوں سے رائج ہیں جو تا وقت بلوچوں پر جاری و ساری ہیں۔ حتیٰ ابھی تک اکثر ایران میں بسنے والے بلوچ ایرانی ہونے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ ایران کی جابرانہ رویوں سے اسے بمشکل فیفا ورلڈ کپ میں شامل کیا گیا ہے قطر کی جگہ اگر کوئی اور ملک فیفا ورلڈ کپ ہوسٹ کررہا ہوتا تو وہ ایران کو سخت شرائط کے تحت ہی شامل کرتے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں