ہمیں تعلیم دو

تحریر : اخلاق احمد

گورنمنٹ گرلز ماڈل اسکول تربَت وہ تعلیمی ادارہ ہے جس میں کئی طالبات زیرِ تعلیم ہیں اور کئی والدین کے خوابوں کا دارومدار اس اسکول پر ہے ،کئی زندگیوں ں کی روشنی اس سے وابستا ہے لیکن کچھ دونوں سے شوشل میڈیا پر خبریں چلائی جارہی ہیں کہ طالبات کو اسکول جانے میں مشکلات ہورہی ہیں ،کیونکہ بس کیلئے فیول نہیں ہے۔ کچھ دنوں سے بس نہیں جارہی ہے ا±ن کو لینے کیلئے فیول نہ ہونے کی وجہ سے،پھر ایک دن طالبات کو احتجاج کرنا پڑے تاکہ انکے مطالبات پورے کیا جائے۔ اس میں سے ایک اسٹوڈنٹ نے اپنے بیان میں کہا کہ ہم طلبا غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں اس کے باوجود ایک ہزار روپے ہر مہنے میں بس کی فیول کیلئے ادا کرتے ہیں پھر بھی ہمیں کبھی کبھی پیدل اسکول جانا پڑھتا ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے والدین کے پاس اتنی گنجائش نہیں ہیں جو ہمیں ہر روز اسکول چھوڑ اکریں ۔یا ٹیکسی سے بھیجوا سکے ۔ ان میں سے ایک نے سوال کی کیا تعلیم ہم غریب لوگ حاصل نہیں کر سکتے ہیں؟ کیا ہماری غربت ہماری تعلیم کو یہاں تک محدود رکھے گی؟ کیا ہم بھی ویسی زندگی گزارنی پڑے گی جیسا کہ معاشرے کی باندئی ہوئی خواتین گزار رہی ہیں؟ اگر نہیں تو دلا دو ہمیں اچھی تعلیم اور بچالیں ہماری زندگیاں خراب ہونے سے۔ جب میں نے اس بچی کو سنا تو میری آنکھوں میں آنسو آ گئی کیا حکومتِ بلوچستان اس شہروں کو اچھی تعلیم نہیں دے سکتی اور ان کی تعیلمی ترس کو پور نہیں کر سکتی۔ اس ملک میں پہلے سے کئی بچے اسکول سے باہر ہیں کئی 6 اور 7 سال کی بچے کہیں کام کرنے میں دیکھنے ملیں گے۔ یہ کمزر تعلیمِ نظام کے باجود بلوچستان میں تعلیمی ادارے پہ توجہ نہیں دیتے ہیں جتنا دینا چاہئے۔ بلوچستان میں ایسا ہزاروں گھر ہیں جہاں سے ایسے بچے نہیں ملتے ہیں جو اسکول جاتے ہو۔ اگر بلوچستان کی نظامِ تعلیم ایسا رہی تو آنے والی وقت میں بلوچستان برے کاموں کی سنٹر بنے گی۔ مزید یہ کہ تعلیم برے کاموں اور بدعنوانی صاف کرنے کی شیمپو ہے۔ تعلیم ہمیشہ ہر کسی کو غلط کام کرنے سے روک لیتی ہے اور راہِ راست کو دکھاتی ہے۔ ہمارے پیارے نبی حضور(صل اللہ علیہ وسلم) فرماتے ہیں” تعلیم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے”
تعلیم ہر قوم میں ریڈ کی ہڈی کی مانند رکھتی ہے جس سے قومیں ہمیشہ ترقی اور خوشحالی کی طرف گام زن ہوتے ہیں اور جہاں اکثر انسانیت اور بھائی چارگی کو زیادہ تریج دی جاتی ہے۔ وہ طلبات پر امید ہیں کہ صوبائی اور وفاقی ایجوکیشن منسٹرز ان کے مطلبات پہ پورا اترینگے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں