پاکستان سمیت دنیا بھر میں ایڈزسے بچاؤ اور آگاہی کا عالمی دن آج منایا جارہا ہے، رپورٹ سہیل ابابکی

یکم دسمبرکو پاکستان سمیت دنیابھر میں ایڈزکاعالمی دن منایاجاتا ہے اس دن کے منانے کامقصدلوگوں میں شعوروآگاہی اجاگر کرنا ہے کہ لوگ کس طرح سے احتیاط کرتے ہوئے ایچ آئی وی وائرس سے بچ سکتے ہیں ۔دنیا بھر میں ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد کم و بیش 3کروڑ 80 لاکھ ہے۔ بلوچستان ایڈ ز کنٹرول پروگرام کے تحت اس وقت ان میں سے صرف رجسٹر ڈ ایڈ ز کی مریضوں کی تعداد 2016ہوچکی ہے جب کہ گزشتہ سال یہ تعداد 1745تھی رواںسال کوئٹہ میں1665 اور تربت میں 361رجسٹرڈ ہ ہو چکے ہیں اور یہ تعداد گزشتہ تین سالو ں کے نسبت بڑھ چکی ہے اور اس کے بڑھنے کی اہم وجہ ایڈز کنٹرول پروگرام کا کوئٹہ اور تربت سمیت بلوچستان بھر میںبھرپور اگہی مہم ہے جس سے ایڈز کے چھپے ہوئے مریضوں کا سامنے آنا اور ٹیسٹ کیلئے ذہنی طور پر تیار ہونا شامل ہے اور یہ تعداد بھی بڑھے گی کیونکہ ہمارا پہلا ہدف ان چھپے ہوئے مریضوں کا خوف ختم کرنا ہیں ۔ دوسر ی جانب ایڈز کنٹرول پروگرام کے مطابق 100خواجہ سراﺅں کے ٹیسٹ کرنے پر 20خواجہ سراءایچ آئی وی پازیٹیو نکلے اور یہ صورت حال کوئٹہ کے لئے خطرے کی گھنٹی ہے ۔ کیونکہ نوجوان نسل اور دیگر لوگ ان خواجہ سراﺅں کے پاس آتے جاتے ہیں حالانکہ گذشتہ سال 10خواجہ سراﺅں میں ایڈز پایا گیا تھا لیکن اس سال اس کی تعدادمیں اضافہ ہوا ہے ۔اس طرح حاملہ خواتین میں 2017میں 10، جبکہ 2018میں 12 خواتین میں ایڈز پایا گیا تھا لیکن اس سال تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ رواں سال کے دس مہینوں میں 50حاملہ خواتین میں ایڈز پایا گیا۔

ایڈز سے متاثرہ شخص عیوض فرضی نام نے بتایاکہ انہیں شروع میں معلوم نہیں تھا کہ ایڈز کی بیماری لاحق ہے کمزوری زیادہ ہوئی توانہوںنے نجی ہسپتال سے علاج کروایا لیکن جب ان کی صحت بہتری کی طرف نہیں گئی تو انہوںنے بولان میڈیکل کمپلیکس کارخ کیاجہاں انہیں معلوم ہوا کہ وہ ایڈز جیسی بیماری کاشکار ہوچکے ہیں،ایک دن جب میں باتھ روم جارہاتھا تومیںزمین پر گرپڑامجھے اسی وقت میرے گھروالوں نے بولان میڈیکل ہسپتال منتقل کیا دس دن داخل رہنے کے بعد مرکز تشخیص ہوئی یہاں مجھے بتایاگیا کہ آپ کو ایڈز کی بیماری لاحق ہے“عیوض گزشتہ ایک مہینے سے بولان میڈیکل ہسپتال سے اپنا علاج کروارہے ہیں۔ایڈز کی وجہ سے وہ کافی تکلیف میں مبتلا رہتے ہیں ۔
ڈاکٹر خدائیداد خان بولان میڈیکل کمپلیکس ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سینٹر کے سربراہ ہے۔HIV

ایڈز کے بنیادی طور پرتین وجوہات کی بناءپر پھیلتا ہے یہ وائرس غیرمحفوظ جنسی تعلق سے متاثرہ افراد سے غیر متاثرہ افراد میں منتقل ہوجاتا ہے۔ اور دوسرا اہم ذریعہ بناءسکریننگ کے خون کو عطیہ کرنا ایچ آئی وی ایڈز کے پھیلاﺅ کاسبب بن سکتا ہے ۔اورتیسرا ذریعہ آلودہ آلات ہیں جو صحیح طرےقے سے صاف نہ کئے گئے ہوںاورپاکستان سمیت بلوچستان بھر میں غیر مستند اور اطائی ڈاکٹرز کے آلودہ آلات کی وجہ سے یہ وائرس تیزی سے پھیل رہاہے کمرشل سیکس ورکرز کو ہم رسکی گروپس کہتے ہیں ان میں ایڈز پھیلنے کی شرح زیادہ ہے اگر کوئی ان گروپس کے ساتھ غیرمحفوظ جنسی تعلق قائم کرینگے تو ان میں ایچ آئی وی کی منتقلی کااندیشہ زیادہ ہوگا ۔سیکس ورکرز کے ایک سے زیادہ پارٹنرز ہونے کی وجہ سے ان میں ایڈزپھیلنے کاخطرہ زیادہ ہوتا ہے۔یہ معاشرے کا ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اس سے آگاہی کے ذریعے روکا جاسکتا ہے اکثر جگہوں پر لکھاجاتا ہے کہ ایڈز لاعلاج مرض ہے جس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ایڈز کا علاج ممکن نہیں یہاں لاعلاج سے مراد یہ ہے کہ ایڈز کا وائرس مکمل طورپر انسان کی جسم سے ختم نہیں ہوتااور یہ وائرس مسلسل انسان کے قوت مدافعت کو متاثر کرتا رہتاہے جس کی وجہ سے مریض دیگر بیماریوں کامقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔پچھلے 20سالوں میں ایڈز کے وائرس کو کنٹرول کرنے والی متعددادویات بنائی گئی ہے جس کی مدد سے ایڈز کا علاج ہوپارہاہے ان ادویات سے ایڈز سے متاثرہ شخص کافی حد تک بہتر ہوجاتا ہے اور اس وائرس کے پھیلاﺅ کا سبب نہیں بنتاملک بھر میں یہ ادویات مریضوں کو مفت فراہم کی جاتی ہے ۔

حبیب الرحمن چیف ہیلتھ ایجوکیشن سیل کے سربراہ ہیں وہ بتاتے ہیں کہ ہیلتھ ایجوکیشن سیل ایڈ پروگرام کے ساتھ ملکر ایڈز کے حوالے سے آگاہی مہم چلارہے ہیں خاص طور پر سوشل میڈیا کے ذریعے لوگوں تک ایڈز کے حوالے سے آگاہی دیتے ہیں اور اس کے علاوہ ہم مدرسوں اور سکولوں میں ٹریننگ سیشز بھی کرواتے ہیں۔اور ہیلتھ ایجوکیشن کے بلوچستان کے تمام اضلاع میں بھی ایڈز کے حوالے سے بھرپور آگاہی دے رہا ہے جتنے بھی ڈسٹرکٹ کوآرڈینیٹر ہےں وہ ایڈز کے حوالے سے خصوصاً آگاہی مہم چلارہے ہیں جس میں آئی سی میٹریل کی تقسیم اور اخبارات کے ذریعے ہم لوگوں تک اپنا پیغام پہنچاتے ہیں ۔

بلوچستان بھر میں پبلک مقامات پر بل بورڈس لگائے گئے ہیں جن پر ایڈز سے متعلق کے پیغامات درج ہیں ان بل بورڈز کی مدد سے لوگوں میں کافی حد تک ایڈز سے متعلق آگاہی پھیلی ہے ایڈز ایک لاعلاج مر ض ہے اور جان لیوا ہے ایڈ ز کے وائر س کو Human immono Deficiency ایچ آئی وی یعنی انسانی جسم کی قوت مدافعت میں کمی کو کہا جاتا ہے ، ایچ آئی وی ایک ایسا وائر س ہے جس سے ایڈزکی بیماری لگ سکتی ہے یہ وائر س کچھ عرصے کے بعد جسم کی مدافعتی نظام کو تبا ہ کر دیتا ہے دفا عی نظام کے مفلوج ہونے کی صورت میں جو بھی بیماری انسان کی جسم میں داخل ہو جاتی ہے وہ سنگین اور مہلک صورت اختیار کر جاتی ہے اور موت ہی اس کا انجام ہوتا ہے ۔

آیئے اب یہ جانیںکہ کن چیزوں سے ایچ آئی وی وائرس ایک تندرست اور صحت مند شخص میں داخل ہو سکتا ہے ، کہا جاتا ہے کہ ایچ آئی وی انسانی جسم میں تین طر یقوں سے داخل ہوسکتا ہے ۔ اول یہ کہ خون کے ذریعے یہ داخل ہوجاتا ہے جن میں غیر محفوظ انتقال خون، ایچ آئی وی سے متاثر ہ شخص کے استعمال شدہ سرنج سے ، آلات جراحی ، حجام کے استعمال میں آنے والے آلات ، کان ناک میں سوراخ کرنے کیلئے استعمال میں آنے والے آلا ت سے اور اسی طرح دانت نکلواتے وقت استعمال ہونے والے آلا ت سے داخل ہوتا ہے اور دوسرا طریقہ متا ثر ہ ماں سے پیدا ہونے والے بچے میں یہ داخل ہوتا ہے جبکہ تیسرا ذریعہ کسی ایچ آئی وی متاثر ہ شخص سے غیر محفوظ جنسی تعلقات روا رکھنے سے ہوتا ہے تاہم صوبائی ایڈز کنٹرول پر وگرام محکمہ صحت بلوچستان نے اس وائر س کے انسانی جسم میں داخل ہونے کے اور بھی طریقے بتائے ہیں جس کے مطابق پاکستان اور بلوچستان میں انجکشن کے ذریعے نشہ لینے والے نشہ کے عادی افراد میں ایچ آئی وی کے وائر س زدہ افراد کی تعداد زیادہ ہے اور دوسرا بڑا ذریعہ مرد کے جنسی تعلقات جن میں ہجڑ ے بھی شامل ہیں جبکہ تیسرا بڑا ذریعہ خاتون کے ساتھ جنسی روابطہ قائم رکھنا ان سے بھی یہ وائر س جسم میں منتقل ہوسکتا ہے، اور بدقسمتی سے بلوچستان میں انجکشن کے ذریعے نشہ لینے والے افراد کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔

ارشاد مینگل بولان میڈیکل کمپلیکس میں قائم ایچ آئی وی ٹریٹمنٹ سینٹر میں کیس منیجر ہے وہ بتاتے ہیں کہ ہمارے پاس بہت سارے ایڈز کےایسے مریض آتے ہیں جو مختلف ذہنی بیماریوں میںمبتلا ہوتے ہیں تومیں ان کی کونسلنگ کرتاہوں تاکہ وہ ذہنی طورپربہتر محسوس کرسکیں۔ یہاں ہم مریضوں کو رجسٹرڈ کرتے ہیں اور ہرمہینے انہیں ادویات فراہم کرتے ہیںشروع کے دنوں میں ایڈز کے مرریضوں کو مرض کا پتہ چل جانے پر کہ ذہنی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوجاتے ہیںتو ایسی صورت میں ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہمہ ان کی کونسلنگ کریں۔کچھ مریض ایسے بھی ہوتے ہیں جو علاج کے دوران اپنی ادویات چھوڑ دیتے ہیں تو ہم انہیں ٹریس کرکے ٹیلیفون کے ذریعے ہم ان سے رابطہ کرتے ہیں تا کہ وہ دوبارہ اپنا علاج جاری رکھیں۔بلوچستان میں ایچ آئی وی ایڈز کے مر یضو کی تعداد اگر ایک لحاظ سے ہمیں کم نظر آرہا ہے مگر بلوچستان ہائی ارسک پر ہے اور اس مرض کے مریضو ں کی نہ صرف تعداد بڑھ سکتی ہے بلکہ یہ مر ض مذید پھیل بھی سکتا ہے اور اس پر فوری تو جہ کی ضرورت ہے ایک مسئلہ اور بھی ہے کہ ایچ آئی وی ایڈ ز میں مبتلا لوگوں کا خوف و ڈر کو ختم کرنے پر بھی کا م کرنا ہوگا کیونکہ ایچ آئی وی ایڈز میں مبتلالو گ اپنی مر ض کو چھپا تے ہیں اور وہ کسی سے بھی رابطہ نہیں کر تے ہیں دوسری جانب ہمارے رویے بھی ان مر یضو ں کے ساتھ ٹھیک نہیں ہوتے ہیں لہذا ایڈ ز کے مریض سے نفر ت نہیں کرنا چائے ایچ آئی وی کے روک تھا م میں جہاں پر سماجی تنظمیںڈاکٹرز سماجی کارکنان اور دیگر طبقات اہم رول ادا کر سکتے ہیں تو وہاں پر علماءکرام کے موثر ترین رول کو ہم کسی بھی صورت میں نظر انداز نہیں کر سکتے ہیں عماءکرام کسی بھی مصیبت خاص طور پر ایچ آئی وی ایڈز سے قوم کو بچا نے میں ہر اول دستے کا کام دے سکتے ہیں علما ءکرام متاثر ہ افراد ان کے خاندانوں اور ان کی دیکھ بھال کرنے والوں اور ان پر لگے بدنامی کے داغ دھونے اور ان سے نفر ت کے خاتمے کے لئے بھی بہت موثر ثابت ہوسکتے ہیں ، بلکہ عوام النا س کی اخلاقی اور سماجی اقدار پر اثر انداز ہوسکتے ہیں اور ایڈز سے بچاو ُ کیلئے لوگوں کو قرآن و سنت کی روشنی میں صاف ستھر ی زندگی گزارنے کی تلقین کر سکتے ہیں روئے زمین پر اللہ کی محبت کے روحانی نمائندوں کی حثیت سے دینی رہنما ءایچ آئی وی ایڈز سے متاثر ہ لوگوں میں زیادہ عر صے تک جینے ، با معنی اور پروقار زندگی گزارنے کی لگن اور تمنا پیدا کر سکتے ہیں بجائے اس کے کہ ایسے لوگوں کے ساتھ لعن طعن یا تقریق کا رویہ برتا جائے اور انہیں احساس ندامت سے زیر بارکیا جائے علماءکرام کی ہمدردی متاثر ہ افراد کیلئے اُمید ، علاج معلومات روک تھام اور دیکھ بھال کے راستے کھول سکتی ہے لہذا علماءکرام اس موذی مر ض سے انسانوں کو بچا نے اور جنسی بے راہ روی اختیار کرنے اور ایڈز کا موجب بننے والے دیگر ذریعے مثلا انجکشن کے ذریعہ نشہ ، انتقال خون کے دوران غیر تشخصیں شدہ خون اورغیر فطری جنسی تعلق سے لوگوں کو بچانے میں اہم ترین کردار ادا کرسکتے ہیں آج ایڈز کے روک تھام کے لئے عالمی دن کے موقع پر پاکستان بھر میں یہ دن منایا جارہاہے اوربلوچستان میں بھی صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کی خصوصی دلچسپی اور بلوچستان ایڈز کنٹرول نیٹ ورک کے معاونت سے بھر پور انداز میں منایا جارہا ہے

محمد قاضی
ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ نور محمدقاضی کا ایڈز کے عالمی دن کے حوالے سے کہناتھا کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں ورلڈ ایڈز ڈے ہر سال یکم دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ایڈز ایک جان لیوا مرض ہے جسے احتیاط کر کے ہی مزید پھیلنے سے روکا جا سکتا ہے۔ ایچ آئی وی ایڈز کا وائرس انسانی جسم کے ڈیفنس سسٹم کو متاثر کرتا ہے، یہ وائرس غیر محفوظ جنسی تعلق، عطائی ڈاکٹروں کے آلودہ آلات سمیت مستند لیبارٹری سے سکریننگں کے عمل سے گزرے بغیر خون عطیہ کرنے سے پھیل سکتا ہے۔ڈبلیو ایچ او کے مطابق دنیا بھر میں ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد کم و بیش 3کروڑ 80 لاکھ ہے جبکہ بلوچستان میں یہ تعداد 2016 ہے۔احتیاط ہی اس بیماری کو مزید پھیلنے سے روک سکتی ہے آئیں ہم یہ عہد کریں کہ اس بیماری کو مزید پھیلنے سے روکنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں گے۔

اس ایڈز کے عالمی دن پر آؤ بات کریں،پاکستان سے ایڈز کی روک تھام میں اپنا کردار ادا کریں
ایڈز کنٹرول پروگرام کے سربراہ افضل زرکون کے مطابق مکران ڈویژن میںایڈزکے مریضوں کی مشکلات کو مد نظررکھتے ہوئے ہم نے تین مزید سینٹرز کااضافہ کیا ہے پہلے اس طرح ہوتا تھا کہ ہمارے ژوب قلعہ سیف اللہ کے مریض کوئٹہ آیاکرتے تھے حکومت نے مزید سینٹرز کا اضافہ کیا ہے نئے سینٹرز میں ٹیچنگ ہسپتال لورالائی ،ٹیچنگ ہسپتال ڈیرہ مرادجمالی اور جام غلام قادرہسپتال حب میں قائم کئے جہاں کا علاج جاری ہے ہمارے تمام ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرز میںا یچ آئی وی کٹس فراہم کئے ہیں مریضوں کے سکریننگ کرکے ہرمہینہ کے پہلے ہفتے میں ہمیں رپورٹ ارسال کرتے ہیںجسے کہ آئی ڈیوزانجیکشن ڈرگ یوسرزہوتے ہیں جو انجکیشن کے ذریعے نشہ کرتے ہیں پھر وہ وہی انجیکشن اپنے دوستوں کو دیتے ہیں وہ اس طریقے سے ایڈزپھیلانے کا سبب بنتے ہیں۔بلوچستان کے جیلوں میں بھی ایڈز کے کافی مریض ہے پچھلے سال 12بلوچستان کے بڑے جیلوں کے قیدیوں کا سکریننگ کیا 19000لوگوں میں سے 37قیدیوں کے ایڈز کے ٹیسٹ مثبت آئے ہیں ۔ اس سال25نومبر سے کوئٹہ سمیت بلوچستان میں ایڈز سے متعلق آگہی مہم کا آغاز ہوچکا ہے اس مہم میں صوبائی ایڈز کنٹرول پروگرام کے بینر تلے مرسی کور ، یونیسف ، رہنما ایف پی اے پی ، اساس پی کے ، لے جنڈ سوسائٹی ، سوشیو پاک نے سرگرمیاں منعقد کی ہیںمیگاایونٹ کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی واک اور سیمینار وں کا اہتمام کیا گیا ہے اور یہ اچھی بات ہے کہ بلوچستان میں اس مہلک بیماری کے خلاف موثر طور پر کام کاآغاز تو کیا گیا ہے مگر اب بھی اس کام کو دیر پاءاور کامیاب بنانے کیلئے عالمی اداروں اور خصوصی طور پر حکومت بلوچستان کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا ۔
بلوچستان ایڈز کنٹر ول پروگرام کے صوبائی منیجر ڈاکٹر افضل خان زرکون نے بتایا ہے کہ اس سال ہم کرونا وائرس کے سابے میں ورلڈ ایڈز ڈے کوئٹہ اور بلوچستان میں منا رہے ہیں ہم بڑی تقریبات نہیں منعقد کررہے ہیں مگر اویر نیس کے لئے ہم نے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد عمل میں لایا ہے جس سے لوگوں کو ایڈز سے متعلق اگا ہی مل رہی ہے ۔ مرسی کور پاکستان کوئٹہ آفس کے سربراہ ڈاکٹر سعد اللہ خان نے کہا کہ اس سال ایڈز کنٹرول پروگرام کو سپورٹ کرنے کے بھر پور معاونت کررہا ہے مر سی کور نے بھی مختلف آگہی سرگرمیوں کا انعقاد کیا ہے ۔اور مرسی کور بلوچستان آفس مذید بھی اویرنیس مہم کے سلسلے میں اپنا کردار ادا کر یگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں