پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں اختلافات کی وجوہات کیا ہیں؟

تحریر: عبدالکریم
محمودخان اچکزئی اور ان کی پارٹی پشتونخوا ملی عوامی پارٹی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست اور افغانستان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کی خلاف ایک مؤثر آواز رہی ہے۔ اس کے ساتھ ملکی سیاست جس اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے پر چل رہی ہے اس بیانیے کے پیچھے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی کئی دہائیوں کی جہد مسلسل اور قربانیاں کارفرما ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے حتیٰ الامکان کوششں کی کہ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کو دباؤ میں لاکر اسے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے سے منحرف کرے لیکن اسٹیبلشمنٹ کا ہر حربہ ناکام رہا ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی آنکھوں میں پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا توانا بیانیہ اور تنظیم کھٹکتی رہی۔ مگر اب پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں اندورنی طور پر بیانیے پر نظریاتی اور تنظمی اختلاف سامنے آئے ہیں جس کی وجہ سے مذکورہ پارٹی دو دھڑوں میں تقسیم نظر آرہی ہے۔
ایک دھڑے کا سربراہ پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی خود ہیں جبکہ دوسرے دھڑے کی سربراہی پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری مختار یوسفزئی کررہے ہیں۔
یاد رہے پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی نے مختار یوسفزئی سمیت ان کے دیگر ساتھی پارٹی کے مرکزی اطلاعات سیکرٹری اور سابق سینیٹر رضا محمد رضا، سابق صوبائی وزیر عبیداللہ جان بابت، صوبہ پختونخوا کے پارٹی صدر خورشید کاکا جی اور بلوچستان اسمبلی کے موجودہ ممبر اور پارٹی کے صوبائی جنرل سیکرٹری نصر اللہ خان زیرے سمیت سینکڑوں مرکزی اور صوبائی عہدیداران کو پارٹی کے منشور اور آئین کیخلاف کام کرنے پر خارج کرکے ان کی رکنیت ختم کردی تھی۔
یاد رہے مختار یوسفزئی دھڑے کا اس بابت موقف ہے کہ 23 اور 24 نومبر کو کچلاک میں پارٹی کے مرکزی کمیٹی اجلاس میں پارٹی چیئرمین کے اختیارات کو محدود کردیا گیا۔ اس لیے وہ اس کے مجاز نہیں کہ وہ کسی کی رکنیت ختم کردیں اور جن اراکین کی رکنیت ختم یا معطل کی گئی تھی ان کی رکنیت مرکزی کمیٹی نے بحال کی۔ اس کے ساتھ مرکزی کمیٹی نے اپنے اعلامیے میں لکھا ہے کہ پارٹی چیئرمین نکالے گئے اراکین کی بابت اپنا مؤقف مرکزی کمیٹی کے جانب سے طلب کیے گئے 27 اور 28 دسمبر کے مرکزی کانگریس میں پیش کرکے پارٹی کو مطمئن کریں۔
یاد رہے یوسفزئی دھڑے نے کوئٹہ میں مرکزی کمیٹی کے فیصلے کی روشنی میں مرکزی کانگریس بھی طلب کر رکھی ہے۔
دوسری جانب پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی نے ان تمام اقدامات کو پارٹی آئین سے متصادم قرار دیکر اور اس کی اہمیت کو تسلیم سے انکار کیا ہے۔
پارٹی کے مرکزی سیکرٹریٹ میں پریس کانفرنس کے دوران انہوں نے مرکزی کمیٹی میں شرکت کرنے والے تمام پارٹی اراکین کے سوائے عثمان کاکڑ کے بیٹے خوشحال کاکڑ کی رکنیت ختم کردی۔ انہوں نے مؤقف اختیار کیا کہ جنوری میں ہونے والے مرکزی کانگریس میں مرکزی کمیٹی ختم ہوگئی تھی آئینی طور پر اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔
پارٹی میں اختلاف کا آغاز کب ہوا۔۔۔؟
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی میں اختلافات 2013ء کے انتخابات کے بعد اس وقت نمودار ہوئے جب پارٹی بلوچستان حکومت میں شامل ہوئی۔ محمود خان اچکزئی مخالف گروپ کا الزام ہے کہ انہوں نے اپنے من پسند اور خاندان کے لوگوں کو وزارتیں عنایت کیں۔ اس کے بعد پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی نے بنا مرکزی کمیٹی سے پوچھے اپنے بھائی محمد خان اچکزئی کو گورنر بلوچستان تعینات کروایا جس کے بعد اس وقت کے پارٹی کے مرکزی جنرل سیکرٹری اکرم شاہ جو گورنری کے امیدوار تھے ناراض ہوکر کنارہ کش ہوگئے۔ انہوں نے 2018ء کے عام انتخابات میں اپنے بیٹے مزمل شاہ جو کہ اب محسن داوڑ کی پارٹی نیشنل ڈیمو کریٹک موومنٹ کے مرکزی جنرل سیکرٹری ہیں کو ہرنائی کے صوبائی علاقے پر پشتونخوا ملی پارٹی کے نامزد امیدوار عبدالرحیم زیارتوال کی مخالفت میں کھڑا کیا۔ اس بنیاد پر ان کی رکنیت ختم کردی گئی۔
یاد رہے مختار یوسفزئی کا دھڑا عثمان کاکڑ سے منسوب ہے۔ عثمان کاکڑ کی موت سے پہلے پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی کے حمایتوں کا یہ مؤقف تھا کہ اس کی سربراہی عثمان کاکڑ کر رہا ہے اور انہوں نے ایک لابی بنائی ہوئی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے پارٹی پر قبضہ جمایا ہوا ہے جو چاہتے ہیں کہ پارٹی چیئرمین بنیں۔ اب بھی یہ دھڑا لالا گروپ سے پارٹی میں جانا جاتا ہے۔ یاد رہے 2015ء کے بعد پشتو نخوا اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن واضح طور پر بلوچستان میں دو دھڑوں میں پہلے ہی سے تقسیم تھی۔
ایک دھڑے کی سربراہی کبیر افغان کررہے تھے جس کی حمایت عثمان کاکڑ کرتے رہے جبکہ دوسرے دھڑے کی سربراہی بلوچستان میں ملک عمر کاکڑ کررہے تھے۔ کبیر افغان پر پارٹی چیئرمین کیخلاف سنگین الزامات لگانے کا بھی الزام ہے لیکن اب وہ پارٹی چیئرمین کے کیمپ میں ہیں۔ اب اس دھڑے کے سربراہ لطیف کاکڑ ہیں جو کہ خوشحال کاکڑ کے انتہائی قریب سمجھے جاتے ہیں۔
عثمان کاکڑ کا دھڑا خود کو نظریات کا حامی اور موروثی سیاست کیخلاف گردانا ہے۔ محمود خان اچکزئی پر پارٹی عہدوں پر اقرباء پروری کی بنیاد پر تعیناتی کے الزامات لگاتے رہتے ہیں لیکن عثمان کاکڑ کی موت کے بعد یہ دھڑا چاہتا تھا کہ عثمان کاکڑ چونکہ پارٹی کے صوبائی صدر تھے اس لیے ان کا جانشین ان کا بیٹا خوشحال کاکڑ ہے، اس کا حق ہے کہ وہ صوبائی صدر بنے لیکن رواں سال جنوری میں ہونے والے پارٹی کانگریس میں صوبائی صدر عبدالقہار ودان منتخب ہوئے جس کی وجہ سے پارٹی میں اختلافات کو تقویت ملی۔
پارٹی میں نظریاتی اختلاف کیا ہے۔۔؟
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے آئین 29-30 اور 13 مارچ 1989ء میں تاسیسی کانگریس جو کوئٹہ میں منعقد ہوئی پیش کیا گیا تھا۔ اس سے پہلے پشتونخوا ملی عوامی پارٹی پشتونخوا نیشنل عوامی پارٹی کے نام سے فعال تھی، اس کے ساتھ پشتونخوا مزدور کسان پارٹی کے انضمام کے بعد پاکستان پشتونخوا ملی عوامی پارٹی وجود میں آئی مذکورہ دونوں پارٹیوں کے رہنماؤں نے ایک مشترکہ آئین تشکیل دیا جس کا محور جمہوری مرکزیت پر مرتکز ہے اور یہ آئین کمیونزم سے بھی متاثرہ ہے۔
اس وجہ سے جب افغانستان میں رجیم چینچ سامنے آیا اور افغانستان میں نئی حکومت برسراقتدار آئی تو پارٹی چیئرمین محمود خان اچکزئی کا اس کی بابت موقف سخت تھا اور بارہا انہوں نے مختلف مواقع پر کہا کہ نئی افغان حکومت پاکستان کے ایما پر افغانستان میں کارروائیاں کررہے ہیں لیکن اب اس کے مؤقف میں بدلاؤ آیا ہے جو کہ پارٹی کا بیانیہ بھی ہے۔ محمود خان اچکزئی اب سمجھتے ہیں کہ نئی افغان حکومت ہمارے اپنے پشتون ہیں وہ دشمن کے ہاتھوں میں ہیں ہمیں انہیں سمجھانا ہے اور مل بیٹھ کر افغانستان کا ایک مستقل حل تلاش کرنا ہے کیونکہ افغانستان ایک نئی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
واضح رہے کہ محمود خان اچکزئی نے 18 گست 2022ء کو افغانستان کے استقلال کے دن نئی افغان حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں افغان سفارت خانے میں منعقدہ تقریب میں شرکت کی تھی۔ جس پر پارٹی کے اندر اس پر سخت تنقید کی گئی۔
جبکہ دوسرا دھڑا محمود خان اچکزئی کے بیانیے کو اپنا ذاتی بیانیہ قرار دیتے ہوئے کہتا ہے کہ پارٹی کا بیانیہ وہ افغانستان کی بابت 1989ء میں درج بیانیہ ہے۔ اس میں کوئی تغیر نہیں آیا ہے۔ اس دھڑے کا مؤقف ہے اگر محمود خان اچکزی چاہتے ہیں کہ منشور میں تبدیلی آئے اور پارٹی ایک نیا بیانیہ قوم کو دے تو وہ مرکزی کمیٹی کا اجلاس بلالیں جو کہ 31 سال سے نہیں بلایا گیا ہے جو کہ پارٹی آئین کے مطابق ہر تین مہینے بعد اجلاس بلایا جانا چاہیے۔ مرکزی کمیٹی میں وہ اپنی بات رکھیں اور ممبران کو قائل کریں جبکہ محمود خان اچکزئی مرکزی کمیٹی میں عثمان کاکڑ گروپ کے نمائندوں کی تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے مرکزی کمیٹی کا اجلاس بلانے سے کتراتے رہے۔
محمود خان اچکزئی کا دوسرے دھڑے کے ساتھ دوسرا بڑا اختلاف مذہبی ہے۔ محمود خان اچکزئی مخالف دھڑا پارٹی کو کمیونزم کے اصولوں کے مطابق چلانا چاہتے ہیں۔ وہ مذہبی جماعتوں سے اتحاد کو پارٹی اصولوں کیخلاف سمجھتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں سے اتحاد پشتون کاز کیلئے نقصاندہ ہے، ان کا مؤقف یہ ہے کہ پشتونوں کو سب سے زیادہ نقصان ملاؤں نے پہنچایا ہے۔
جبکہ محمود خان اچکزئی چاہتے ہیں کہ کوئی اور ازم چاہے وہ کمیونزم ہو سوشلزم یا کوئی اور وہ پشتون معاشرے پر اپلائی نہیں ہوتا اور نہ پشتون معاشرے پر فٹ آتا ہے۔ پشتونوں کے اپنے اصول روایات اور نفسیات ہے، ہمیں ان اصولوں کے مطابق چلنا ہوگا اگر ہم نے کوئی اور نظام ان پر نافذ کرنے کی کوشش کی تو قوم تقسیم در تقسیم ہوتی جائیگی جس کے منفی نتائج سامنے آئیں گے اور پشتون قوم وہ منفی نتائج بھگت رہی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں