"بولان سے چترال” یا استعماری سوچ

تحریر: عاطف رودینی بلوچ
مشہور انقلابی رہنما چی گویرہ کا کہنا ہے کہ "سامراجی سوچ رکھنا ایک ایسا مرض ہے جس کے بعد انسان انسان نہیں رہتا بلکہ ایک وحشی درندہ بن جاتا ہے اور اسکی درندگی کی کوئی انتہا نہیں ہوتی”۔ دنیا کی تاریخ یا موجودہ دور میں کہیں بھی حق خودارادیت، جمہوریت، برابری و عدل انصاف کے گلا گھونٹنے والے ہمیشہ سامراج، سامراجی قوتوں یا سامراجی سوچ رکھنے والے ہی رہے ہیں جن کے عمل، فیصلوں اور پالیسیوں سے بے امنی، قتل و غارتگری، نا انصافی، ظلم و زیادتیاں، نسل کشی میں اضافہ ہوتا جاتا ہے جس کی واظح مثال برطانوی سامراج کی ہے۔ برطانوی سامراج کی برصغیر، افغانستان اور بلوچستان کے وسائل و گرم پانی (بحیرہ بلوچ) پر قبضہ کرنے کی سامراجی سوچ اور ڈیورنڈ لائن، میکمن لائن و جبراً مسلط کردہ "تقسیم کر حکمرانی کر” معاہدوں اور چالاکیوں کے اثرات اب تک باقی ہیں۔ برطانیہ دہائیوں قبل یہاں سے چلا گیا مگر سامراجی سوچ رکھنے والی قوتیں آج بھی موجود ہیں جن کی وجہ سے خطے میں بسنے والے بلوچ، پشتون و دیگر مظلوم و محکوم قوموں کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے۔ بلوچ و پشتون یا بلوچستان اور افغانستان کے تعلقات پر نظر ڈالیں تو تاریخ بتاتی ہے کہ بلوچ اور پشتون کبھی ایک ریاست میں نہیں رہے نہ کسی ایک انتظامیہ میں، دونوں اپنی الگ الگ حیثیت رکھتے تھے۔ بلوچستان اور افغانستان کے مابین صدیوں سے خوشگوار تعلقات رہے ہیں، بالخصوص 1758ءمیں خان بلوچ نوری نصیر خان اور شاہ افغانستان احمد شاہ ابدالی کے معاہدے کے بعد ایک دوسرے کے قریبی سیاسی اتحادی بن گئے تھے۔ سیاسی اتحاد اور قربت کے وجہ سے نوری نصیر خان اور احمد شاہ ابدالی نے سکھوں، مراٹوں اور فارسی بانوں کیخلاف متعدد جنگیں لڑیں۔ پانی پت اور دہلی کی فتح میں نوری نصیر خان کی بہادری کے قصے اور افغان فوج کو فارسیوں سے شکست پر بلوچ لشکر نے جنگ میں افغان فوج کو فتح یاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا۔ نوری نصیر خان، احمد شاہ ابدالی نے کبھی بلوچ افغان سرحد کو نہیں بگاڑا۔ مگر برطانوی سامراج نے اپنے سیاسی مفادات کے خاطر بزور طاقت کے ذریعے ڈیورنڈ لائن اور میکمن لائن کھینچی جس سے بلوچ افغان سرحد بگڑ گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ بلوچ علاقے نمروز، زرنج، ہلمند، ریکستان وغیرہ افغانستان کا حصہ بنا دیے گئے اور کچھ پشتون علاقے جیسا کہ لورالائی، پشین، ژوب بلوچستان کا حصہ بنا دیے گئے۔ اس کا مقصد ان دونوں اقوام کی طاقت کو تقسیم اور ان کے اتحاد کو ختم کرکے نفرت میں تبدیل کرنا تھا، یہ پہلی دفعہ تھا کہ کچھ بلوچ اور افغان ایک ہی ریاست یا ایک انتظامیہ میں رہے ہوں۔
کیونکہ اس وقت 18ویں صدی میں دو بڑی سامراجی قوتیں روس اور برطانیہ تھے، دونوں خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے میں ایک دوسرے کے مدمقابل تھے۔ 1849ءمیں پنجاب سکھوں سے فتح کرنے کے بعد برطانیہ کی سرحدیں افغانستان سے ملنے لگیں اور وسطی ایشیا کی متعدد ریاستوں کو شکست دینے کے بعد روس کے سرحدیں بھی افغانستان سے ملنے لگیں۔ برطانوی حکومت کو خدشہ تھا کہ بحیرہ بلوچ پر پہنچنے کیلئے روس افغانستان پر بھی قبضہ کرسکتا ہے جس سے برطانیہ کی سرحدیں براہ راست روس سے ملیں گی جس سے جنگ چھڑنے کے خطرات لاحق ہوسکتے ہیں اور اس سے برطانوی طاقت کو بڑا نقصان اٹھانا پڑ سکتا تھا۔ اسی لیے برطانیہ نے بلوچستان اور افغانستان میں پنجے گاڑھنا شروع کردیے۔ 1879ءمیں افغانستان کے امیر شیر علی کو شکست دے کر 26 مئی 1879ءکو برطانوی حکومت اور امیر محمد یعقوب کے درمیان معاہدہ گندمک طے پایا اور برطانوی حکومت نے افغانستان کے چند علاقوں کو بلوچ علاقوں میں ڈال کر ڈیورنڈ لائن کھینچ کر تقسیم کردیا۔ اس کے بعد 1896ءمیں برطانوی سرکار کے ملازم ہنری میکمن کی زیر نگرانی میکمن لائن کھینچی گئی جس سے بلوچستان کے کچھ علاقے جو ابراہیم خان سنجرانی کے زیر تسلط اور ریاست قلات کے ماتحت تھے ان کو جبراً افغانستان میں ڈالا گیا۔ مشہور تاریخ دان عنایت اللہ بلوچ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ برطانوی حکومت 1854ءاور 1876ءکے معاہدات کے تحت بلوچستان کی آزاد حیثیت کو تسلیم کیا تھا اس کے باوجود میکمن لائن کھینچتے وقت خانِ قلات سے مشورہ نہیں گیا اور مقامی لوگوں کے حق خودارادیت کو بھی نظر انداز کیا گیا، جس کی وجہ سے اس سرحد کی کوئی قانونی حیثیت نہیں رہتی۔ بلوچ دانشور گل خان نصیر کے مطابق باﺅنڈری کمیشن کے فیصلے کے بعد بلوچستان کا اچھا خاصا حصہ افغانستان کے قبضے میں چلا گیا۔ اب بھی میکمن لائن کے دونوں طرف بلوچ آباد ہیں۔ اس کے علاوہ برطانیہ نے بلوچستان کا ایک حصہ گولڈ اسمتھ لائن کھینچ کر ایران کو بھی دیا تھا۔ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ کبھی بھی بلوچوں نے اس غیر قانونی تقسیم کو قبول نہیں کیا اور مختلف ادوار میں بلوچستان کو متحد کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان میں سرفہرست نام یوسف عزیز مگسی اور عبدالعزیز کرد کا ہے۔ یوسف عزیز مگسی وہ رہنما تھے جنہوں نے عظیم تر بلوچستان کی بات کی تھی۔ یوسف عزیز مگسی، عبدالعزیز کرد، بابو کریم شورش سمیت دیگر اکابرین نے سامراجی سوچ و اثر و رسوخ ختم کرنے کیلئے سیاسی شعور و جدوجہد کی بنیاد ڈالی جس پر ہر بلوچ آج بھی کاربند ہے۔ مختلف بین الاقوامی ریاستوں میں تقسیم ہونے کی وجہ سے بلوچ آج بھی محکومی کی زندگی گزار رہے ہیں، ہزاروں بلوچ ظلم کا شکار ہیں، ان کو نہ حق خود ارادیت دی گئی ہے اور نہ ہی اپنے ساحل و وسائل پر اختیار دیا گیا ہے۔ ان کے وسائل کو بے دردی سے لوٹا جارہا ہے اور وہ کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
بلوچوں کے ساتھ ساتھ ان کے قریبی ہمسایہ پشتون بھی ایک محکوم قوم ہیں، ظلم و ستم کا شکار ہیں اور بین الاقوامی ریاستوں میں تقسیم ہیں۔ ان کا آپسی اتحاد ان کی استحصالی کو روک سکتا ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ایک مخصوص پشتون لسانی جماعت وہ اپنی قوم اور بلوچوں کی محکومی کو دور کرنے کے بجائے بلوچوں کو استعمار قرار دے رہا ہے۔ وہ لسانی جماعت چند شمالی بلوچستان کے اضلاع کی جماعت ہے اور قطعاً تمام پشتونوں کی جماعت نہیں ہے۔ ان سے زیادہ پشتون اے این پی، جمعیت علماءاسلام اور جماعت اسلامی میں ہیں۔ اس لسانی جماعت نے بلوچ اور پشتون تاریخی رشتے خراب کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ ان کے ا س عمل سے شاید سب سے زیادہ فائدہ اسلام آباد میں بیٹھے ان سامراجی سوچ والوں کو ہورہا ہے جنہوں نے بنا بلوچوں اور پشتونوں کی مرضی کے موجودہ صوبہ بلوچستان میں ڈالا ہے۔ حال ہی میں اس لسانی جماعت کے رہنما محمود خان نے یہ بیان دیا کہ بولان سے چترال تک الگ صوبہ اور بلوچوں کی دل آزاری کرکے انہوں نے یہ تک کہہ دیا کہ وہ ان کے وطن بلوچستان کو کیک کی طرح کاٹ کر تقسیم کردیں گے۔ یہ ایک غیر سنجیدہ اور اشتعال انگیز بیان تھا جو کہ ایک بزرگ سیاستدان کو زیب نہیں دیتا۔ محمود خان اور ان کی پارٹی کی جانب سے متعدد بار گندمک معاہدہ اور ڈیورنڈ لائن کا ذکر کیا جاتا ہے کہ اس سے پشتون وطن کی تقسیم ہوئی ہے جو کہ ایک درست بات ہے لیکن کن پشتون اضلاع کی تقسیم ہوئی ہے وہ اس بات کا ذکر کبھی نہیں کرتے۔ جن دو اضلاع کا نام وہ لیتے ہیں بولان سے چترال اس معاہدے میں نہ تو بولان کا نام شامل ہے اور نہ ہی چترال کا۔ بولان بلوچی ریاست قلات کا موسم سرما کا دارالحکومت تھا جبکہ چترال ایک علیحدہ ریاست تھی جس نے قیام پاکستان کے بعد ملک میں شمولیت اختیار کی۔

موصوف نے بلوچوں کی تاریخی حیثیت، جدوجہد اور مظلومیت کو تسلییم کرنے کے بجائے کئی بار بلوچوں کو استعمار ثابت کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے یہ موقف رکھا ہے کہ پشتون اگر مظلوم ہیں تو اسکی وجہ ریاست یا ماضی کی پالیسیاں نہیں بلکہ بلوچ ہیں جو پختونوں کے حقوق پر غاضب ہیں حالانکہ وہ خود اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ بلوچ خود مظلومیت کی زندگی گزار رہے ہیں اور اس ملک میں سب سے زیادہ بلوچ کی حق تلفی کی جارہی ہے۔ بلوچ وسائل کو لوٹا جارہا ہے، اس کے باوجود وہ پشتون محکومیت کا ذمہ دار بلوچوں کو قرار دے رہے ہیں جو کہ ایک مزاح خیز بات ہے۔ وہ یہ سمجھتے ہیں پشتون محکومیت کے خاتمے کا ایک ہی حل ہے کہ ان کی پارٹی کے کسی بندے کو بلوچستان کا گورنر یا وزیراعلیٰ بنایا جائے۔ حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ بلوچستان کے گورنر یا وزیراعلیٰ کو مرکز آزاد حیثیت سے کام کرنے نہیں دیتا اور یہاں وزیراعلیٰ اکثر کٹھ پتلی ہوتے ہیں۔ لہٰذا ایک کٹھ پتلی پشتون وزیراعلیٰ بلوچستان میں براجمان ہو بھی جائے تو اس سے پشتونوں کی محکومیت کیسے ختم ہوگی یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ محمود خان بکثرت ڈیورنڈ لائن کا تو ذکر کرتے ہیں کہ یہ پشتونوں کی تقسیم کی وجہ بنا لیکن میکمن لائن کا جس کی وجہ سے بلوچستان کا ایک بڑا حصہ افغانستان کے حصے میں چلا گیا اس کا ذکر نہیں کرتے اور وہ یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ تمام محکوم قوموں کیلئے جدوجہد کرتے ہیں۔ ہم یہ امید رکھتے ہیں کہ وہ اگر واقعی محکوم قوموں کا درد رکھتے ہیں تو آئندہ اپنے جلسوں میں میکمن لائن کا بھی ذکر کریں۔
بلوچ قبائل میں بولان کافی اہمیت کا حامل رہا ہے، یہی وجہ ہے بولان کو ”بلوچی دپتر“ (بلوچ تاریخ) کہا جاتا ہے بلوچ دانشوروں کے مطابق جس طرح بلوچستان کیلیے گوادر، سیندک، ریکوڈک، سوئی اپنے معدنیات کے وجہ سے اہمیت رکھتے ہیں اسی طرح بولان اپنی تاریخ کی وجہ سے انتہائی اہمیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نواب اکبر خان بگٹی نے محمود خان اور ان کے والد خان صمد خان کے بولان کے موقف پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ چترال سے ہمارا کوئی تعلق نہیں لیکن بولان ہمارے باپ دادا کی میراث ہے جو بولان پر نظر اٹھائے گا تو سمجھو اس نے ہمارے ننگ پر نظر اٹھائی اور ہمیں للکارا۔ بلوچی یا کسی بھی قبائلی روایت میں کسی دوسرے قبیلے کی زمینوں پر دعویٰ کرنے پر جرگہ بلایا جاتا تو اس میں اصل وارث اپنی تاریخ اور بزرگوں کے قبرستان دکھا کر اس زمین کے وارث ہونے کا ثبوت دیتے ہیں، محمود خان کے پاس ایسا کوئی ثبوت نہیں چاہے وہ دستاویزی صورت میں ہو یا قبرستان کی۔ محمود خان جو کہ خود کو جمہوریت کا علمبردار کہتے ہیں ان سے یہ سوال پوچھنا چاہیے کہ بولان کا نعرہ لگانے سے پہلے انہوں نے کبھی بولان کے مقامی افراد سے یو پوچھا ہے کہ وہ ان کو بولان تا چترال صوبے میں رہنا ہے یا نہیں، اگر نہیں پوچھا تو یہ ان کے اظہار خودارادیت کی توہین ہے جو کہ ایک غیر جمہوری عمل ہے۔
2019ءمیں بلوچستان کے بڑی قوم پرست جماعت بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل ڈیرہ غازی خان، تونسہ جو ماضی میں بلوچستان کا حصہ رہے ہیں ان علاقوں کے سیاسی دورے پر گئے تھے جہاں جلسے کے بعد صحافی نے سردار اختر مینگل سے سوال کیا کہ یہاں سرائیکی صوبے کی تحریک بھی چل رہی ہے اور وہ ڈیرہ غازی خان پر دعویٰ کرتے ہیں آپ اس حوالے سے کیا کہتے ہیں تو سردار مینگل نے جواب دیا کہ اولین بات یہاں کے بسنے والے لوگوں کی ہے جو ہمارے ساتھ شامل ہونا چاہتے ہیں تو ہم ان کے لیے تحریک چلائیں گے اگر وہ سرائیکی صوبے میں رہنا پسند کرتے ہیں تو ہم ان کے حق خود ارادیت کو تسلیم کریں گے۔ مگر محمود خان قوم پرست ہونے کے ساتھ ان صلاحیتوں سے قاصر ہیں جہاں عوامی رائے کو بالکل نظر انداز کرکے سامراجی سوچ اپنانے پر بضد ہیں کہ بولان ان کے تصوراتی صوبے کا حصہ ہو۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ بولان کے عوام ان کی رائے سے اتفاق رکھتے ہیں اور ان کے فرضی صوبے کا حصہ بننا چاہتے ہیں تو ان کی پارٹی ایک پارلیمانی پارٹی ہے جو سیاست میں بڑھ حڑھ کر حصہ لیتے ہیں، ان کو چاہیے کہ وہ آئندہ الیکشن میں اپنی پارٹی کا ایک شخص بولان سے کھڑا کریں یا پھر خود ہی بولان کی نشست پر الیکشن لڑیں تاکہ انہیں اور ہمیں زمینی حقائق کا پتا چلے کہ بولان میں ان کے نعرے کی کیا مقبولیت ہے۔ ان نعروں کے جواب میں ترقی پسند پشتون قوم پرستوں کی جانب سے محمود خان کے اس نعرے کو نفرت انگیز قرار دے کر اس کی مذمت کی ہے۔
دوسری جانب بلوچ قوم پرست رہنماﺅں کی جانب سے محمود خان کے اس نفرت انگیز بیانات کے باوجود تاریخی تعلق کے وجہ سے بردباری کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہاں تک کہ انہیں یہ بھی پیشکش کی گئی کہ اگر آپ نئے صوبے یا خیبر پختونخوا میں شامل ہونے کی تحریک چلائیں گے تو ہم آپ کا ساتھ دیں گے۔ 2013ءسے 2018ءتک محمود خان اور ان کی پارٹی نے اسمبلیوں میں ہونے کے باوجود اس پر کبھی قرار داد پیش نہیں کی کیونکہ اس کے پیچھے محمود خان کے سیاسی مفادات ہیں، اس سے پشتون قوم کو تو فافدہ ملے گا مگر موصوف کو نہیں، اگر پشتون علاقوں کو خیبر پختونخوا میں شامل کیا گیا تو خیبر پختونخوا کی آبادی ڈیڑھ سے دو کروڑ ہے اور انکی نسبت بلوچستان کے پشتون علاقوں کی آبادی بیس سے پچیس لاکھ ہے جس سے ان کو صوبے کا وزیراعلیٰ یا گورنر بننے کا خواب خواب ہی رہ جائے گا اور ان کو اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ ان کی پارٹی بلوچستان کے پشتونوں میں بھی مقبولیت ترین نہیں ہے۔ اس سے زیادہ مقبول پارٹی جمعیت علماءاسلام ہے جو خیبر پختونخوا میں بھی ایک بڑا ووٹ بینک رکھتی ہے۔ ان کا اس بات کا ادراک ہے کہ متحدہ پشتون صوبے میں نہ تو وہ جمعیت علماءاسلام کا مقابلہ کر پائیں گے اور نہ ہی اے این پی کا اور نہ ہی وہ اس صوبے میں بلوچ کارڈ کھیل کر معصوم عوام کو گمراہ کرپائیں گے۔
ان کا ایک اور مطالبہ یہ بھی ہے کہ انہیں جنوبی پشتونخوا نام سے بلوچستان کے پشتون علاقوں سمیت کوئٹہ، سبی اور بولان پر مشتمل ایک نیا صوبہ دیا جائے لیکن وہ اس نئے صوبے کی بھی قرارداد اسمبلی میں نہیں لاسکے، غالباً اس میں بھی ان کے ذاتی مفادات وابستہ ہیں۔ جیسا کہ پہلے بھی بیان ہوچکا ہے کہ نیا صوبہ پشتون آبادی پر مشتمل ہوگا اور ان کو بلوچ کارڈ سے ڈرانا ممکن نہیں ہوگا ان کا مقابلہ جمعیت علماءاسلام سے ہوگا۔ پشون قوم پرست سے زیادہ مذہبی رجحان رکھتے ہیں اسی لیے وہ نئے جنوبی پشتونخوا صوبے میں بھی الیکشن کے ذریعے وزیراعلیٰ نہیں بنیں گے اور اگر سلیکشن بھی ہوئی تو اس میں بھی جمعیت علماءاسلام کا پلڑا بھاری ہے کیونکہ جمعیت علماءاسلام اور مقتدرہ کے نظریات ملتے ہیں اور دونوں لسانی قوم پرستی کے بجائے مذہبی قومیت پر یقین رکھتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ نہ وہ الیکشن کے ذریعے کامیاب ہوسکتے ہیں نہ سلیکشن کے ذریعے۔ لہٰذا محمود خان کو فیصلہ خود کرنا ہوگا کہ وہ معصوم پشتون عوام کو مزید گمراہ کریں گے یا ان کے مفاد کو مد نظر رکھ کر واقعی بولان سے چترال کے بجائے بلیلی سے چترال صوبہ بنانے کیلئے عملی جدوجہد کریں گے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں