بلوچستان میں قوم پرست سیاست زوال کی طرف جارہی ہے؟

تحریر:حضور بخش قادر
1988 سے پہلے کی قوم پرستانہ سیاست ہمیں تو یاد نہیں مگر 1988 سے 2022 کے آخر تک کی قوم پرستانہ سیاست کو اپنے آنکھوں سے دیکھا، کانوں سے سنا اور دیکھتے رہے ہیں ۔1988 کے عام انتخابات کے بعد جب بلوچستان میں نیشنل الائنس کی حکومت بنی اس حکومت میں شامل قوم پرستوں نے محکوم و مظلوم مفلوک الحال متوسط طبقے کے قوم پرستانہ خیالات کے تحت ووٹ لیکر اقتدار تک پہنچ گئے متوسط طبقے محکوم و مظلوم مفلوک الحال عوام میں بھی خوشی کی لہر دوڑ گئی کہ شاید اب ان کی تقدیر بدل جائے گا ۔ قوم پرستانہ سیاست کے پیروکار سیاست میں حصہ لیتے رہے۔ اپنے ذاتی اور گروہی مفادات اور آنا پرستی کے باعث تقسیم ہوتے گئے ۔ اس تقسیم در تقسیم کے دوران مختلف قبائلی اور معتبر روایتی شخصیات قوم پرست پارٹیوں میں شامل ہوتے گئے اور اور نکلتے گئے یہ سلسلہ چلتا گیا اور تاحال جاری ہے ایک بات شاید سب کو یاد ہو کہ نہ ہو مگر یہ کہ نواب اکبر خان بگٹی قوم پرستوں کو اکثر وبیشتر پیٹ پرست کہتے رہے حتیٰ کہ جب وہ بلوچستان نیشنل الائنس سربراہ کی حیثیت سے بھی صحافیوں کے ساتھ گفتگو کے دوران بھی قوم پرستوں کو پیٹ پرست کہتے رہے اس وقت کچھ قوم پرستوں نے ان باتوں پر برہم بھی ہوئے بہرحال ان چند الفاظ کے لکھنے کا ہر گز یہ مطلب نہ لیا جائے کہ ہم قوم پرستی کے خلاف ہیں مگر یہ بات اپنی جگہ حقیقت ھے کہ جہان ظلم جبری معاشرتی ناہمواری استحصالی نظام ہو وہاں قوم پرستانہ سیاست جنم لیتی رہے گی تاہم اگر بلوچستان کے موجود قوم پرستی کی سیاست پر بات کی جائے تو قوم پرستانہ سیاست آنا پرستی کنبہ پرستی جیالہ پرستی ذاتی اور گروہی مفادات کے گرد گھوم رہی ہے سیاسی سوچ ٹھیکہ داری اور تجارت کے تابع ہوگئی ہے سیاسی جماعتوں میں نظریاتی اور فکری ورکرز کی جگہ روایتی لوگوں نے لی ھے 1988 کے انتخابات میں جس لاٹ نے الیکشن میں حصہ لیا تھا انتہائی معزرت کے ساتھ اگر وہ خود اپنے ماضی اور حال میں موازنہ کریں اور اپنے ضمیر میں جھانک کر دیکھیں تو اس آئینے میں ان کو اب بھی غریب اور مفلوک الحال عوام کی بے بسی بدحالی نظر آئے گا کیا یہی ہے قوم پرستی کہ بلدیاتی جنرل الیکشن میں حقیقی ورکرز کو نظر انداز کر کے روایتی لوگوں کو آگے لایا جائے کیا یہ قوم پرستی ھے کہ اپنے اختیارات کا غلط استعمال کرکے خود اربوں روپے کے جائیدادوں کے مالک بن جائے اور غریب کو ایک کچے مکان تک کی جگہ میسر نہ ہو کیا یہ قوم پرستی ھے کہ آپنے علاج بیرونی ممالک یا بڑے شہر کے ہسپتالوں میں ہو اور غریب عوام کو ہسپتال میں پیناڈول کی گولی تک نہ ملے کیا یہی قوم پرستی ھے کہ خود تو کمیشن حاصل کرکے ارب پتی بن جائیں اور غریب عوام کو دو وقت کی روٹی میسر نہ ہو مختلف ادوار میں آنا پرستی ذاتی اور گروہی مفادات کی خاطر پارٹی کو تقسیم کرنا قوم پرستی ھے اگر یہ قوم پرستی ھے تو قوم پرستی زوال کی طرف جارہاہے۔ اور ایسا لگ رہا ہے آنے والے وقت میں اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پائے گا مکران جو قوم پرستانہ سیاست کا گڑھ سمجھا جاتا تھا ایسا لگ رہا ہے لوگوں کے رجحانات مذہبی اور دیگر جماعتوں کی جانب گامزن ہورہا ہے، حقیقت کو ماننا ہوگا شتر مرغ کی طرح آنکھیں بند کرکے چند شمولیت سے اپنے دل کو تسلی ضرور ملے گی مگر حقیقت کو ماننا پڑے گا کہ قوم پرستانہ سیاست کی زوال کی بنیادی وجہ لیڈر صاحبان کی آنا پرستی کنبہ پرستی جیالے پرستی ذاتی اور گروہی مفادات سیاست کو تجارت بنانا نظریاتی اور فکری ورکرز کو نظر انداز کرنا اور روایتی لوگوں کو آگے لانا سیاست کو ٹھیکیدار ی کی طرف راغب کرنا قوم پرستانہ سیاست کی زوال کا باعث بن سکتی ھے۔اس زوال کا زمہ دار غریب اور مفلوک الحال متوسط طبقے محکوم و مظلوم مجبور عوام نہیں بلکہ شاہان شاں زندگی گزارنے والے وہ لیڈر ہونگے۔جو محض …جاری

اپنا تبصرہ بھیجیں