ساتویں مردم شماری اور اس حوالے سے تحفظات و خد شات

تحریر : محمد صدیق کھیتران

پچھلے کچھ دنوں سے ساتویں خانہ اور پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کے نام سے مرکزی حکومت کے زیر اہتمام پاکستان بیورو آف اسٹیٹکس نے عملے کیلئے تربیتی ورکشاپ شروع کررکھی ہیں۔وزارت منصوبہ بندی ،ترقی اور خصوصی اقدامات بھی عملی طورپر اس پراسس میں شریک کار ہے۔یاد رہے کہ چھٹی مردم شماری 2017 میں ہوئی تھی۔جس پر شہری آبادی خاص کر کراچی اور لاہور کے سیاستدانوں کو اعتراضات تھے ۔عام طور پر یہ شکایتیں دور دراز اور ناخواندہ علاقوں کو ہوتی رہی ہیں کیونکہ ان بچھڑے علاقوں کی آواز ایوانوں تک پہنچتی نہیں ہے۔اس لیئے اکثر خاموشی سے ایسے معاملات دبا دیئے جاتے ہیں۔پاکستان میں حکمرانی کا شرف صرف اشرافیہ کو حاصل ہے۔اس پر دیہی علاقوں کی اشرافیہ بھی اب نئی بیگمات کے ساتھ شہروں میں جاکر آباد ہوگئی ہے۔ ان کی آواز بھی مادی ضرورتوں کے تحت شہری علاقوں کے ساتھ شامل ہوگئی ہیں۔گویا پہلی دفعہ اشرافیہ کے دباؤ پر پانچ سال کے اندر اندر اسی محکمے کے زیر سایہ دوسری مرتبہ مردم شماری کا اہتمام کیا گیا ہے۔جس کی منظوریCouncil of Common Interestسے بھی لے لی گئی۔اس وقت محکمے نے اپنی نااہلی کے جواز میں یہ عذر پیش کیا تھا کہ شہروں کے لوگ اپنا ڈیٹا اس لئے نہیں دیتے کیونکہ اس طرح ان کو ٹیکس نیٹ میں آنے کے خدشات ہوتے ہیں۔اس کا حل یہ نکالا گیا ہے کہ اس دفعہ ڈیجیٹل مردم شماری کی جاے اور اس میں یہ گنجائش بھی نکالی گئی ہے کہ شہری خود ہی اپنا اندراج کرلیں۔گویا دیہی علاقوں کو دو دھاری تلوار کے سامنے کھڑاکردیا کیا ہے۔ایک یہ کہ شہری ٹیکس بچاکر وسائل اپنے پاس لے جائیں۔ دوسرا یہ کہ پڑھے لکھے ہونے کی بدولت اپنی مرضی کا اندارج کرواکر ملکی وسائل کو خودکار طریقے سے اپنی مٹھی میں بند کرکے رکھ سکیں ۔پاکستان کی نوکرشاہی کتنی ایماندار ہے اس کی رپورٹ یو این ڈی پی نے دی رکھی ہے کہ 189 ملک میں اس کی ریٹنگ 140 پر ہے۔دوسرا قومی یکجہتی اور سیاست کے اندر سب سے زیادہ تفاوت یعنی پولارائیزیشن بھی سرکاری دفتروں اور اہکاروں میں ہوتی ہےکیونکہ ریاستی وسائل کی بندر بانٹ اور رکھوالی ان ہی کےنام نہاد ہاتھوں میں ہوتی ہے ۔حالیہ مردم شماری میں ان کو بغیر چیک اینڈ بیلنس کے ایک ٹیبلٹ دے کر بھیجا جارہا ہے کہ وہ کوار ڈینیٹ "Co- Ordinates” کی مدد سے مردم شماری کا اندراج کر کے لائیں۔جس طریقے سے اس نئے ٹول پر اعتبار کر کے نرم اور بے مہار شماری کا اہتمام کیا گیا ہے۔اس سے خدشہ ہے کہ ملک کی آبادی پانچ سال کے اندر اندر دوگنا ریکارڈ ہوجائے گی۔اسلام آباد کی نوکر شاہی کو زمینی حالات اور معاشرے میں پائے جانے والے تضادات کا یا تو علم نہیں ہے یا پھر وہ ان تضادات کو جان بوجھ کر بڑھانا چاہتی ہے۔حالانکہ مردم شماری کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اس حقیقی ٹول کو وسائل کی تقسیم ، مستقبل کی منصوبہ بندی ،سماجی ترقی،وارڈ سے لیکر قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کی تعداد و انتخاب کا ذریعہ بنایا جائے۔اگر ایسا نہ ہوتا تو یقیننا” 10 سال تو دور کی بات ہے یہاں 20 سال تک بھی کوئی مردم شماری کی ذکرنہ کرتا۔بلوچستان جیسے صوبے میں پہلے سے ہی آبادی کے عدم توازن "Demographic imbalances ” جیسے خدشات اور تحفظات پائے جاتے ہیں۔جہاں پر کثیر تعداد میں غیر ملکی افغانی گزشتہ 40 سالوں سے پناہ گزین ہیں۔اب ان کی دوسری اور تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے۔ دوسری طرف طالبان کی حالیہ حکومت کے آنے بعد مہاجرین کے مزیدریلے آگئے ہیں۔ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ اب جبکہ افغانستان میں امریکہ اور ناہی روس سمیت کوئی غیر ملکی موجود ہے۔پہلے ان کو واپس کیا جاتا پھر پانچ سال بعداپنے وقت مقررہ پر مردم شماری کی جاتی۔ایسے میں بے سروپا مردم شماری بلوچستان جیسے حساس خطے میں مزید نسلی تناو کا باعث بنے گی۔بدقسمتی یہ ہے۔کہ اسٹیبلشمنٹ نے 2018 میں اپنی مرضی کے نمائندے سلیکٹ کروائے ہیں۔جن کو ان معاملات کے بارے میں کوئی ادراک ہی نہیں ہے۔ان کو بڑے بڑے فورموں میں تصدیقی مہروں کے طور پر استعمال کرکے قانونی جواز نکالا جاتا ہے۔حیرت ناک بات یہ ہے کہ اس مردم شماری کو نادراکے جاری کردہ قومی شناختی کارڈ ( کمپیوٹرازڈ شناختی کارڈ) سے یکسر باہر کر دیا گیا ہے۔گویا آج تک جو قومی شناختی کارڈ جاری کیئے گئے اس پرخود ہی حکومتی محکمے نے عدم اعتماد کردیا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں قومی شناختی دستاویز کو ساتویں مردم شماری سے الگ کرکے ایک نیا پنڈورابکس کھول دیا گیا ہے۔بلوچستان کے لوگ تو پہلے بھی تسلسل سے کہہ رہے تھے کہ نادرا جعلی قومی شناختی کارڈ بنا رہا ہے۔اوربظاہر کبھی کبھار افسروں اور عملے کو سزائیں بھی دی گئی ہیں۔ حالانکہ قومی شناختی کارڈ کو جاری کرتے وقت خاندانی نسب یعنی فیملی ٹری اور لوکل سرٹیفکیٹ کی شرائط جیسے چیک اینڈ بیلنس بھی رکھے گئے تھے۔حتیٰ کہ بنک اکاؤنٹ بھی اس شناختی کارڈ کے بغیر نہیں کھولے جاسکتے۔جس دن اس قومی شناختی کارڈ کی میعاد گزرجاتی ہے اسی دن بنک اکاونٹ خود بخود منجمند ہوجاتے ہیں۔اب اگر اس قومی شناخت کارڈ کو بائی پاس کردیا گیا ہے تو اس کامطلب ہے اپنی پسند کی مردم شماری کی جائے گی۔ مردم شماری سے ہی وسائل کی تقسیم، انتخابی حلقے اور فہرستیں ترتیب دی جائینگی۔ ایسی کیا افتاد آن پڑی ہے۔کہ ماضی کی تمام دستاویز کو ایک طرف رکھ کر ہمارے ارسطووں نے صرف شہری علاقوں کے لوگوں کو ٹیکس نیٹ سے بچنے کی خاطر مردم اندارج کی نئی سہولیات نکالی ہیں یہ عجیب منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔دوسرا متنازعہ معاملہ قومی شناخت کو متعلقہ زبان سے مشروط کردیا گیا ہے۔بلوچستان کی بلوچ آبادی ایک ہی وقت میں دو یا دوسے زیادہ زبانیں بولتی ہے۔جس میں بلوچی، براہوئی، کھیترانی، سندھی، دہواری، لاسی اور کہیں کہیں پشتو تک بھی شامل ہے۔ ایسے میں مردم شماری کے کالم نمبر 8 اور 9 کو اس مد میں انتہائی مبہم اور متنازعہ بنادیاگیا ہے۔ سب پر عیاں ہے یہ ملک ایک فیڈریشن پر مشتمل ہے جس کے اندر پانچ بڑی قومیں پنجابی، سرائیکی ،سندھی،پشتون اور بلوچ آباد ہیں جن کو عام طور پر قومیتوں کا نام دیا جاتا ہے یہ سب مل کر ایک پاکستانی قوم بناتے ہیں۔کالم نمبر8 &9 کے فارمییٹ میں قوم اور قومیت کی منفرد تشریح ڈال کر قومیتوں کے تشخص کو شعوری طور پر مسخ کیاگیا ہے۔ آج کل سوشل میڈیا میں ہر طرف باضابطہ طور پر مہم چلا دی گئی ہے کہ اپنے اپنے علاقے کی آبادی کو بڑھا چڑھا کر درج کیا جائے۔دو بڑے شہر کراچی اور لاہور تو پہلے سے ہی دعویدار ہیں کہ ان کی جملہ آبادی سات کروڑ سے متجاوز ہے۔دیگر 10 بڑے شہروں کو اگر اس مہم میں ملایا جائے تو ان کی فرضی آباد 20 کروڑ سے بھی بڑھ جائے گی۔گویا دیہی آبادی صرف دس بیس فی صد رہ گئی ہے۔مزید یہ کہ اس فارمیٹ میں تیسری خامی یہ ہے کہ اگر ایک خاندان کے پاس ایک سے زیادہ گھر ہیں تو وہ آسانی سے گھر کے کسی بھی نئے فرد کو سربراہ لکھ کر دوہرا اندراج شہر اور گاوں میں الگ الگ کرسکتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان تمام خدشات ،موسمی شدت خاص کر سردی، رمضان اور سیاسی جماعتوں کے اعتماد جیسے مسائل پر نظرثانی کرکے مردم شماری کا حصہ بنایا جائے۔اگر کچھ وقت لگتا ہے تو اس میں کوئی امر مانع نہیں ہونا چاہیئے۔ وگرنہ ساری کاوشیں اکارت جایئنگی ۔تاہم درج ذیل چند تجاویز کو ضرور زیرنظر لایا جائے۔
1 :مردم شماری کے نئے اندارج کو پہلے سے جاری شدہ قومی شناختی کارڈ کے ساتھ مشروط کیا جائے اور فارمیٹ میں نئی فیلڈ ڈالی جائے۔
2 : زبانوں کی بنیاد پر قومی تشکیل اور اسکی آبادی کے شمار کو اس سے نکالاجائے۔
3 :قومی شناخت یعنی خاندانی نسب ( فیملی ٹری) اور لوکل بشمول قانونی ڈومیسائل سرٹیفیکیت کی بنیاد پر آبائی ضلع میں درج مستقل پتے پرشمار کیا جائے۔
4 :بوگس اندراج کی روک تھام کے لئےمقامی لوکل باڈی اورسول سوسائٹی کے نمائندوں کی کمیٹیاں بناکر چیک اینڈ بیلنس کے میکنزم کو ممکن بنایا جائے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں