علامتی تدفین

تحریر :انور ساجدی

معلوم انسانی تاریخ میں خاص طور پر گزشتہ صدی میں کئی مشاہیر کی موت پر لوگوں نے بڑی تعداد میں سڑکوں پر آکر سوگ منایا۔
ہندوستان کی تحریک آزادی کے لیڈر اور پہلے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو 1964ء کو فوت ہوگئے، عوام نے بڑی تعداد میں دریائے جمنا کے کنارے آکر ان کی آخری رسومات میں شرکت کی، رپورٹوں کے مطابق ان کے جنازے میں 30 لاکھ لاکھ لوگوں کا جم غفیر شریک ہوا، نہرو کے بعد مصر کے جمال عبدالناصر کا جنازہ اتنا بڑا تھا کہ اندازہ نہیں لگایا جاسکا کہ لوگوں کی تعداد کتنی ہے حالانکہ 28 ستمبر 1970ء کو وہ دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے تو ان کی مقبولیت کم ہوگئی تھی۔ 1967ء کی 6 روزہ جنگ میں جب اسرائیل نے اچانک حملہ کرکے یروشلم پر قبضہ کرلیا تو اس وقت ناصر مصر کے صدر تھے، وہ عرب دنیا کے متفقہ اور غیر متنازعہ رہنما تھے لیکن وہ اسرائیل کا مقابلہ نہیں کرسکے، 3 سال بعد جب ان کی موت ہوئی تو ان کے لوگوں کا والہانہ پن دیدنی تھا، نہ صرف مصر بلکہ فلسطین، اردن اور دیگر ممالک کے لوگ قاہرہ میں امڈ آئے تھے۔ نیوز ایجنسی رائٹرز نے اپنی پہلی رپورٹ میں لکھا کہ 20 لاکھ لوگوں نے ناصر کے جنازے میں شرکت کی تاہم بعد کے اعداد وشمار کے مطابق یہ تعداد 40 لاکھ سے کم نہ تھی۔ برطانیہ کی شہزادی پرنس چارلس کی اہلیہ اور ملکہ کی بہو لیڈی ڈیانا اسپینسر 31 اگست 1997ء کو پیرس شہر کے ایک انڈر پاس میں کار کے حادثے میں فوت ہوئی، ان کے ساتھ ان کے دوست دودی الفائد بھی چل بسے۔ یہ مصری نژاد تاجر محمد الفائد کے صاحبزادے تھے جو لندن کے شہرہ آفاق اسٹور ’’ہیروڈز‘‘ کے مالک تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب شہزادہ چارلس اور لیڈی ڈیانا کے درمیان علیحدگی ہوچکی تھی اور ملکہ اپنی بہو سے سخت نفرت کرتی تھیں، ڈیایا کی موت کی خبر سن کر ملکہ نے سختی سے منع کردیا تھا کہ ان کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ نہیں ہوگی لیکن ڈیانا عوام میں بے حد مقبول تھیں اس لئے وزیراعظم ٹونی بلیئر ملکہ کے پاس گئے اور کہا کہ اگر شہزادی کی تدفین سرکاری اعزاز کے ساتھ نہیں کی گئی تو لاکھوں عوام سڑکوں پر آکر حکومت کا تختہ الٹ دیں گے اور بادشاہت کا بھی خاتمہ کردیں گے چنانچہ ملکہ نے وزیراعظم کو اجازت دے دی کہ لیڈی ڈیانا کو قومی اعزاز کے ساتھ سپرد خاک کیا جائے۔ 6 ستمبر کی صبح لندن کی سڑکوں پر ہر طرف انسان ہی انسان نظر آرہے تھے، ان کے ہاتھوں میں پھول اور شمعیں تھیں اور وہ شہزادی کے سوگ میں المیہ کلام گارہے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ڈیانا کو 35 لاکھ لوگوں نے آخری ہدیہ تبریک پیش کیا۔
پاکستان میں کبھی لاکھوں لوگوں پر مشتمل جنازہ دیکھنے میں نہیں آیا۔ 17 اگست 1988ء کو جب فوجی آمر جنرل ضیاء الحق طیارے کے حادثے میں ہلاک ہوئے تو ان کے قریبی ساتھی غلام اسحاق خان جو فوری طور پر ان کے جانشین بن گئے تھے، پورا اہتمام کیا کہ لوگوں کی بڑی تعداد ان کے جنازے میں شریک ہو، اس مقصد کیلئے سرکاری وسائل کا بے دریغ استعمال کیا گیا لیکن ان کا جنازہ تاریخی ثابت نہ ہوسکا۔
ضیاء الحق وہ پہلے فوجی آمر تھے جنہوں نے 1973ء کے متفقہ آئین کو توڑا اور 11 برس تک ملک کے سیاہ وسفید کے مالک رہے۔ ضیاء الحق کی موت کے بعد جو عام انتخابات ہوئے وہ پیپلز پارٹی نے جیتنے، پاکستانی عوام نے آمریت کو مسترد کرکے اپنا فیصلہ سنایا۔ 2 دسمبر 1988ء کو محترمہ بے نظیر بھٹو نے وزیراعظم کا حلف اٹھایا، صدر غلام اسحاق خان نے ان سے حلف لیا، ہال اہم شخصیات سے کچا کھچ بھرا ہوا تھا اور اتنے رش کے باوجود سکوت طاری تھا، اچانک مہمانوں کی گیلری سے ایک نوجوان اٹھے اور انہوں نے دیوانہ وار نعرہ لگایا
زندہ ہے بھٹو زندہ ہے
یہ پیپلز پارٹی کے جیالے منور سہروردی تھے، لوگ ان کی طرف متوجہ ہوئے، یہ ایک علامتی نعرہ تھا جو یہ ظاہر کرتا تھا کہ بھٹو کو پھانسی دینے کے باوجود وہ عوام کے دلوں میں رہتے ہیں یعنی عوام نے فوجی آمریت کو قبول نہیں کیا۔
گزشتہ روز کراچی کے علاقے ملیر کینٹ میں موجودہ عہد کے ایک اور فوجی آمر جنرل پرویز مشرف کی آخری رسومات ادا کی گئیں، جب ان کی میت دوبئی سے کراچی منتقل کی جارہی تھی تو ایم کیو ایم نے اعلان کیا تھا وہ سابق صدر کے جنازے میں شرکت کریں گے، اس دوران سینیٹ نے جنرل مشرف کی فاتحہ خوانی سے انکار کردیا تھا، یہ انکار کسی اور نے نہیں کیا بلکہ جماعت اسلامی کے رہنما سینیٹر مشتاق نے کیا تھا حالانکہ 2002ء کے انتخابات کے بعد ایم ایم اے حکومت میں شریک ہوئی تھی، جنرل پرویز مشرف نے اس شرط پر کہ آئین توڑنے کی سزا قومی اسمبلی سے بخشوائی جائے ایم ایم اے کو پختونخوا کی حکومت دی تھی اور مرکز میں وزارتیں بھی عنایت کی تھیں لیکن جماعت اسلامی نے تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک اصولی موقف اختیار کیا، اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر شور مچایا گیا کہ پرویز مشرف سند یافتہ اور سزا یافتہ مجرم ہیں، انہیں آئین شکنی پر جسٹس وقار سیٹھ کی عدالت نے سزائے موت کا حکم سنایا تھا اس لئے ان کی تدفین قومی اعزاز کے ساتھ نہ کی جائے اس کے باوجود ان کے جسد خاکی کو لانے کیلئے سرکاری طیارہ دوبئی بھیجا گیا، ان کی میت کو سرکاری اہلکاروں نے وصول کیا اور ملیر کینٹ پہنچادیا تاہم عوامی موڈ دیکھ کر رسومات کو انتہائی سادہ اور مخفی رکھا گیا۔ سابق صدر کے قریبی ساتھیوں میں سے صرف امیر مقام نے شرکت کی۔ موصوف کو اپنی زندگی میں جنرل پرویز مشرف نے اپنا دینی بھائی بتایا تھا، انہوں نے اسلام آباد میں امیر مقام کا ہاتھ اٹھاکر انہیں اپنا بھائی بنایا تھا، بھاری بھرکم جسم والا یہ رہنما آج کل مسلم لیگ (ن) کے لیڈر ہیں پھر بھی انہوں نے پارٹی پالیسی کے برخلاف اپنے بھائی کے جنازے میں شرکت کی، ویسے امیر مقام جیسے لوگ پارٹی اور بھائی بدلنے میں دیر نہیں لگاتے۔ اچھی بات ہے کہ عوامی جذبات بھانپ کر عسکری قیادت نے پرویز مشرف کی تدفین کی، اگرچہ ایک ہال کے اندر انہیں کن سلوٹ دی گئی تاہم یہ رسم پبلک میں یا کھلے میدان میں ادا نہیں کی گئی، ادھر ایم کیو ایم بھی اپنے اعلان کے مطابق جنازے میں بھرپور شرکت نہیں کرسکی، رہنمائوں کی شرکت علامتی تھی تاہم کیانی سے لیکر باجوہ تک تمام سابق آرمی سربراہان ان کے جنازے میں شریک ہوئے۔ یہ مختصر تقریب بذات خود ایک درسِ عبرت ہے جس میں یہ ظابر ہوتا ہے کہ تمام تر اختلافات کے باوجود پاکستانی عوام مارشل لائوں اور آئین شکن آمروں کو پسند نہیں کرتے، اس سے اور کچھ ہو نہ ہو یہ ضرور ہوگا کہ آئندہ کوئی طالع آزما آسانی کے ساتھ آئین شکنی کا مرتکب نہیں ہوگا۔
جنرل پرویز مشرف ایک مخصوص ذہنیت کے حامل شخص تھے، وہ ایک طرف بھٹو کی یہ کہہ کر تعریف کرتے تھے کہ انہوں نے سقوط ڈھاکہ کے بعد ملک کی وحدت کو برقرار رکھا اور اتنے مختصر عرصے میں اپنے پیروں کھڑا کردیا، دوسری جانب وہ اپنے باس یحییٰ خان کے بجائے بھٹو کو ہی پاکستان دولخت کرنے کا ذمہ دار قرار دیتے تھے۔
2003 میں کیمپ ڈیوڈ سمٹ کے موقع پر صدر پرویز مشرف سے دیگر میڈیا پرسنز کے ساتھ واشنگٹن ڈی سی کے فور سیزنز ہوٹل میں طویل ملاقات ہوئی جس کے دوران انہوں نے تمام باطن کو واشگاف کردیا، مثال کے طور پر انہوں نے واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ نواز شریف اور بے نظیر کو پسند نہیں کرتے بلکہ یہ تک کہہ دیا کہ نواز شریف ایک ’’ڈفر‘‘ اور نااہل شخص ہیں، انہیں نہ معیشت کی سوجھ بوجھ ہے اور نہ سیاست آتی ہے۔ انہوں نے شہباز شریف کے بارے میں کہا کہ یہ رنگیلا اور نٹ کھٹ ہے۔ مشرف نے بتایا کہ دسمبر 1999ء میں جب سعودی فرماں روا کی خواہش پر شریف فیملی کو سعودی عرب روانہ کیا جارہا تھا تو ایک باقاعدہ تحریری معاہدہ بنایا گیا تھا جس کے 12 صفحات تھے، شہباز شریف نے گھبراکر معاہدے کے پچھلے صفحات پر بھی دستخط کردیئے تھے، انہوں نے کہا کہ نواز شریف اور بے نظیر تمام عمر بیرون ملک رہیں گے، میرے بعد میرے جانشین بھی انہیں واپس آکر سیاست میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن چار سال بعد امریکہ نے مشرف کو مجبور کیا کہ وہ ان رہنمائوں کو واپس آنے اور سیاست میں حصہ لینے کی اجازت دیں اور اہم ممالک سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات اس معاہدے کے ضامن بنے تھے، اس معاہدہ کو جو خفیہ مذاکرات کے بعد دوبئی میں ہوا تھا این آر او ون کہا جاتا ہے تاہم 2007ء میں مشرف کا اصرار تھا کہ بے نظیر واپس نہ آئے، انہوں نے دھمکی بھی دی تھی کہ وہ اس کی سلامتی کے ذمہ دار نہیں ہونگے، جب محترمہ 18 اکتوبر 2007ء کو واپس آئیں تو کارساز میں ان کی ریلی پر جان لیوا اور تباہ کن حملہ ہوا جبکہ دسمبر 2007 میں راولپنڈی کے کمپنی باغ کے باہر ان پر چہار اطراف سے حملہ کیا گیا جس میں وہ جانبر نہ ہوسکیں۔ جنرل پرویز مشرف کو مجرم نامزد کیا گیا لیکن کوئی مقدمہ نہ چلایا تاوقتیکہ وہ جنرل راحیل شرف کے تعاون سے ملک سے باہر جانے میں کامیاب ہوگئے۔ بھٹو کے وارثوں نے کوئی بدلہ نہ لیا اور زرداری نے اقتدار کے بدلے محترمہ کا یہ نعرہ دہرایا کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے یعنی سب کو معاف کردیا گیا۔
اس کے برعکس نواب اکبر خان بگٹی کے وارثوں نے کبھی پرویز مشرف کو معاف نہیں کیا، انہوں نے اپنے لیڈر کا بدلہ لینے کے لئے پہاڑوں کا رخ کیا اور ان کی تقلید میں ہزاروں افراد نے اپنی زندگیوں کی قربانی دی جن میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔ مشرف نے نواب صاحب کو دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ یہ 1970نہیں ہے، ہم آپ کو ایسے ہٹ کریں گے، آپ کو پتہ بھی نہیں چلے گا، مشرف اور ساتھیوں نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا لیکن وہ بلوچ قومی تحریک کا چراغ نہ بجھاسکے بلکہ اس کے شعلے مزید بلند ہوگئے۔ نواب اکبر خان کی شہادت نے زرنج سے لے کر بندر عباس تک سارے بلوچ وطن کو ہلادیا اور دنیا میں جہاں کبھی بلوچ آباد تھے انہیں وحدت کی لڑی میں پرو دیا۔ نواب صاحب کی شہادت کے بعد ریاست نے ایک دن بھی سکون سے نہیں گزارا۔ ’’ساحل ووسائل‘‘ کی حفاظت ایک قومی نعرہ بن گیا اور نوجوانوں نے بڑی تعداد میں باہر نکل کر تحریک میں شمولیت اختیار کرلی۔ نواب صاحب کی شہادت کے بعد دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بلوچوں کے انسانی حقوق کا مسئلہ اجاگر ہوا جس کا سلسلہ جاری ہے۔ نواب صاحب کی شہادت نے بلوچ ڈائسپورہ کو جھنجھوڑا، سندھ اور پنجاب کے بلوچ بھی دیرینہ خواب سے جاگے جبکہ بلوچستان کا دل کراچی تو تحریک میں سرخیل کا کردار ادا کررہا ہے، بلوچ روایات میں ’’بیر‘‘ (بدلہ) ہمیشہ زندہ رہتا ہے اور یہ دشمن کی شکست تک ختم نہیں ہوتا۔ نواب صاحب نے عظیم قربانی دے کر ان عناصر کے لئے حیلے بہانوں کا راستہ نہیں چھوڑا جو خود کو قوم پرست کہتے ہیں، انہوں نے وطن پرستی اور قوم دوستی کے معنی بدل دیئے۔
مشرف سے اگرچہ کسی کی ذاتی دشمنی نہیں تھی لیکن وہ مجموعی طور پر بلوچوں کے قومی دشمن تھے اور افسوس ہے کہ حکمرانوں نے ہزاروں بلوچوں کے قاتل کو بلوچ سرزمین کے ہی اندر دفن کردیا، ایسا کرکے حکمرانوں سے نادانستہ غلطی ہوگئی ہے، مشرف کی آخری نشانی دیکھ کر بلوچ کبھی اپنا دکھ نہیں بھول پائیں گے اور ان کے اندر قومی جذبے کو جلا ملتی رہے گی۔
بلوچ اتنے بے رحم اور غیر مہذب نہیں کہ وہ دشمن کی ہڈیاں نکال کر وقار سیٹھ کے فیصلے کے مطابق پھانسی پر لٹکادیں لیکن ضرور ایسا کوئی وقت آئے گا کہ اولیور کرامویل کی طرح جنرل پرویز مشرف کو بھی بعد از مرگ وقار سیٹھ کی دی گئی سزا پر عملدرآمد ہوگا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں