50 سال قبل

تحریر:انورساجدی
گزشتہ کل یعنی 10فروری کا دن پاکستان کی تاریخ کا ایک اہم مگر پُرآشوب اور لولی لنگڑی جمہوریت کی بیخ کنی کا دن تھا، اسی روز مرکزی حکومت نے ایک احمقانہ فیصلہ کیا جس نے آگے چل کر صوبائی خودمختاری کو دفن اور آئینی حکمرانی کے راستے مسترد کردیئے۔
10 فروری 1973ء کی صبح مرکزی پولیس اور انٹیلی جنس اداروں کے درجنوں اہل کاروں نے اسلام آباد میں واقع عراقی سفارت خانہ پر چھاپہ مارا ور دعوے کے مطابق بڑے پیمانے پر آتشی اور جدید روسی اسلحہ برآمد کرلیا، اسلحہ کریٹوں میں بھرا ہوا تھا، فارن آفس نے کم از کم دو درجن بین الاقوامی صحافیوں کو مدعو کیا تھا تاکہ وہ اس کا معائنہ کرسکیں، اس کے ساتھ حکومت پاکستان نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ عراقی سفارت خانہ سے برآمد اسلحہ کا مقصد پاکستان کی سلامتی کو نقصان پہنچانا اور اسے ان عناصر تک پہنچایا تھا جس کا مقصد بلوچستان میں علیحدگی کی تحریک کو تقویت پہنچانا تھا تاہم بغداد میں عراقی حکومت نے واقعہ پر حیرت کا اظہار کیا اور کہا کہ یہ ناقابل یقین ہے جس کی انکوائری کی جائے۔ اس بیان کے بعد حکومت پاکستان نے عراق کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کردیئے، سفیر اور دیگر عملے کو ناپسندیدہ شخصیات قرار دے کر واپس بھیج دیا جبکہ بغداد میں پاکستان کے سفیر اور دیگر عملے کو واپس بلایا، اس واقعہ کے بعد وزراء اور پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے نیپ کی قیادت پر الزام تراشی شروع کردی کہ وہ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سازش کررہے ہیں، جواب میں نیپ نے عراقی اسلحہ اور پراسرار سازشی تھیوری سے لاتعلقی کا اعلان کیا۔ چار روز بعد اس واقعہ کو جواز بناکر بلوچستان میں نیپ جے یو آئی مخلوط حکومت کو برطرف کردیا گیا جبکہ صوبے میں گورنر راج نافذ کردیا۔ اس طرح ذوالفقار علی بھٹو نے بلوچستان میں ایک شورش کو جنم دیا جو 49 سال بعد نہ صرف جاری ہے بلکہ اس نے تحریک آزادی کی شکل اختیار کرلی ہے۔
عراقی اسلحہ کا ڈرامہ اس لئے رچایا گیا تھا کہ صدام حسین نے ایران کی دشمنی میں بغداد میں ان جلا وطن رہنمائوں کو آزاد بلوچستان سیکریٹریٹ قائم کرکے دیا تھا جو ایران اور پاکستانی حکومتوں سے نالاں تھے۔ جواب میں شاہ ایران نے آزادی پسند کرد رہنما ملا مصطفی برزانی کو ایران میں پناہ دی تھی، ملا کے حامی آزاد کردستان کی تحریک چلارہے تھے۔
عجیب بات ہے کہ جو الزام نیشنل عوامی پارٹی کے قائدین پر لگایا گیا تھا اس کا آزاد بلوچستان کی تحریک سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ نیپ کے رہنما 1970ء کے عام انتخابات میں حصہ لیکر حکومت کا حصہ بن چکے تھے اور وہ زیادہ صوبائی خودمختاری اور وسائل میں اپنا حصہ مانگ رہے تھے جبکہ بغداد میں آزاد بلوچستان سیکریٹریٹ چند ایرانی اور پاکستانی بلوچ اکابرین نے قائم کیا تھا اور بی ایس او اینٹی سردار کے جیالے اس کے کرتا دھرتا تھے، آزاد بلوچستان یا گریٹر بلوچستان کا بنیادی تصور ہمیشہ بلوچوں کے دلوں میں موجزن رہتا تھا لیکن اس کا نعرہ ریاست قلات یا برٹش بلوچستان کی کسی شخصیت نے پیش نہیں کیا تھا بلکہ اس کے بانی واجہ میر قادر بخش نظامانی تھے جن کا تعلق حیدرآباد کے قصبہ ٹنڈو قیصر سے تھا۔ واجہ قادر بخش نظامانی نے راقم کو بتایا تھا کہ ریاست قلات کے جبری الحاق کے بعد جب انہوں نے سنا کہ شہزادہ کریم بلوچ افغانستان گئے ہیں تو وہ کئی دن کی مسافت کے بعد سرلٹھ پہنچے، وہاں آزادی پسندوں کا کیمپ قائم تھا، انہوں نے پہنچتے ہی آزاد بلوچستان کا پُرجوش نعرہ لگایا لیکن کسی نے اس کا جواب نہیں دیا بلکہ سارے لوگ خاموش تھے جس پر انہیں حیرانی ہوئی تاہم حال احوال کے بعد شہزادہ کریم نے بتایا کہ میر قادر بخش ہم سب لوگ ریاست قلات کی بحالی کے لئے جمع ہیں، آپ پہلے شخص ہیں جو آزاد بلوچستان کا نعرہ بلند کررہے ہیں، اس لئے ہمارے ساتھی خاموش رہے اور انہوں نے نعرے کا جواب نہیں دیا۔ میر قادر بخش نظامانی نے اپنے نعرے کی تصحیح کرتے ہوئے بتایا کہ آزاد بلوچستان کا نعرہ سب سے پہلے انہوں نے بلند نہیں کیا تھا بلکہ روایات ہیں کہ ڈیرہ اسماعیل خان میں پہنچنے کے بعد دریائے گومل کے کنارے بلوچ وطن زندہ باد کا نعرہ میر نصیر خان نوری نے بلند کیا تھا جبکہ 1930ء کی دہائی میں یوسف عزیز مگسی نے اپنے اشعار اور مضامین میں گریٹر بلوچستان کا تصور پیش کیا تھا، ان کے مطابق 1843 میں انگریزوں سے برسر پیکار لشکر نے بلوچ وطن کے جنگی گیت گائے تھے جو ان کی پردادی کو یاد تھے۔
بہرحال بلوچ تحریک اور میر قادر بخش سے اس کی وابستگی ایک طویل موضوع ہے جس پر کتابیں لکھنے کی ضرورت ہے، ان کے داماد واجہ اکبر بارکزئی کو موقع ملا تھا کہ وہ طویل انٹرویو کے ذریعے واقعات کو قلمبند کرتے لیکن بوجوہ وہ ایسا نہ کرسکے اور گزشتہ برس لندن میں اس دار فانی سے کوچ کرگئے اور تاریخ بلوچستان کا اہم باب ادھورا رہ گیا۔
عراقی سفارت خانے سے اسلحہ برآمد کرنے کا مقصد بلوچستان پر فوج کشی کا راستہ ہموار کرنا تھا، اگرچہ بظاہر بھٹو 1973ء میں ایک طاقتور وزیراعظم تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ نے انہیں مجبور کیا کہ بلوچستان پر ڈائریکٹ ایکشن کیا جائے، اس سلسلے میں شاہ ایران کا دبائو بھی کافی زیادہ تھا، بھٹو نے معاملات کو ٹالنے کی خاطر شاہ کی ہمشیرہ اشرف پہلوی کو کوئٹہ بلایا اور ایک جلسہ عام کا اہتمام کیا جن میں دائیں طرف گورنر میر غوث بخش بزنجو اور بائیں جانب وزیراعلیٰ سردار عطاء اللہ خان کو بٹھایا گیا تھا، لیاقت باغ کے جلسہ عام میں بھٹو نے روایتی جذباتی تقریر کرتے ہوئے یہ رسک لیا تھا کہ کوئی ایک شخص بھی اٹھ کر شاہ کے خلاف بات کرے تو وہ چلے جائیں گے لیکن کسی نے بات نہیں کی۔ اس جلسے کا مقصد شاہ ایران کو وفاداری کا یقین دلانا تھا، اس کے باوجود شاہ مطمئن نہیں ہوئے، میر امان اللہ گچکی کے مطابق جب وہ بغداد کے دورے پر گئے تھے تو عراقی فوج کے ایک ریٹائرڈ کرد جرنیل نے پیشگی اطلاع دی تھی کہ شاہ اسلام آباد کو جدید ہیلی کاپٹر دے رہا ہے تاکہ انہیں بلوچستان میں استعمال کیا جاسکے، بھٹو جیسے تاریخ کے استاد کو اچھی طرح معلوم تھا کہ عراقی اسلحہ اور گریٹر بلوچستان تحریک سے نیپ کی قیادت کا کوئی تعلق نہیں ہے اور نہ ہی بغداد کے آزاد بلوچستان سیکریٹریٹ سے ان کا واسطہ ہے لیکن انہیں محض فوج کشی کے لئے بہانہ چاہئے تھا، اتفاق سے 1958ء میں قلات پر فوج کشی اور خان کی گرفتاری عمل میں لانے والے برگیڈیئر اس وقت کمانڈر انچیف بن چکے تھے جن کا نام ’’ٹکا خان‘‘ تھا، یہی شخص ’’بچر آف بنگال‘‘ کے نام سے مشہور ہوگئے تھے۔ بھٹو سے زیادہ کون جانتا تھا کہ نیشنل عوامی پارٹی کی قیادت کون کررہا ہے، وہ باچا خان اور خان عبدالولی خان اور ان کی جدوجہد سے اچھی طرح واقف تھے، وہ نواب خیر بخش میر غوث بزنجو اور سردار عطاء اللہ کی شخصیت سے بھی آگاہ تھے، انہوں نے تو کبھی آزاد یا عظیم تر بلوچستان کی تحریک نہیں چلائی تھی، صرف میر غوث بخش بزنجو نے 1948ء میں قلات اسمبلی میں ایک تقریر کی تھی جس میں قلات کی پاکستان میں شمولیت کی مخالفت کی گئی تھی تاہم 1950 کی دہائی میں میر غوث بخش، گل خان نصیر اور ان کے ساتھی میر قادر بخش زہری کی قیادت میں مسلم لیگ میں بھی شامل ہوئے تھے، نیپ کی تشکیل سے قبل مسلم لیگ میں شمولیت بعد ازاں نیپ کے منشور کو نظر انداز کرکے یحییٰ خان سے مذاکرات اور چار صوبوں کے قیام پر آمادگی، 1970ء کے عام انتخابات میں حصہ لینا، پاکستان کی وفاداری کا حلف اٹھانا، گورنر وزیراعلیٰ بننا اس بات کا ثبوت تھا کہ وہ پاکستان کو مانتے ہیں، البتہ نواب اکبر خان بگٹی نے 1971ء میں سقوط ڈھاکہ کے بعد کچھ پاکستان مخالف بیانات دیئے تھے جنہیں پنجابی شائونسٹ اخبار نوائے وقت نے اچھالا تھا ۔
15 فروری 1973ء کو سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت کی برطرفی کے بعد یہ رہنما پاکستان کے شہر شہر گھوم کر سیاسی جدوجہد کررہے تھے لیکن اگست 1973ء میں رہنمائوں کی گرفتاری اور 1975ء میں پشاور یونیورسٹی میں گورنر حیات محمد شیر پائو کی بم دھماکے میں ہلاکت کے بعد حکومت نے خود بلوچستان کی علیحدگی کا مسئلہ اٹھایا تھا، حیدرآباد سازش کیس اس کا واضح ثبوت ہے، حکومت نے نیپ کے رہنمائوں پر علیحدگی کا الزام لگایا تھا جو ثابت نہ ہوسکا تھا کیونکہ حکومت کے پاس شواہد نہیں تھے۔ نیپ کے رہنمائوں نے تو 1973ء کا دستور بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا، اس آئین پر نیپ کے پارلیمانی لیڈر میر غوث بخش بزنجو کے دستخط بھی ہیں۔ ضیاء الحق کے مارشل لاء کے نفاذ کے بعد ان رہنمائوں کو 5 فروری 1978ء کو باعزت بری کردیا گیا تھا اور سازش کیس اپنی موت آپ مرچکا تھا، رہائی کے بعد اگرچہ نواب مری اور سردار مینگل نے جلاوطنی اختیار کی تھی لیکن انہوں نے آزاد بلوچستان کے لئے کوئی تحریک نہیں چلائی تھی، سردار صاحب نے لندن میں پاپولر فرنٹ ضرور بنایا تھا لیکن کچھ ہی عرصے بعد انہوں نے سندھی بلوچ پشتون فرنٹ بناکر کنفیڈرل نظام کا مطالبہ کیا تھا، نہ صرف یہ 1997ء کے انتخابات میں ان کی جماعت نے بھرپور حصہ لے کر کامیابی حاصل کی تھی جس کے نتیجے میں ان کے صاحبزادے اختر مینگل وزیراعلیٰ بن گئے تھے، البتہ 1990کی دہائی میں جب نواب خیر بخش مری افغانستان سے واپس آئے تھے تو انہوں نے پہلی مرتبہ آزادی کی بات کی تھی، 1973ء کو جو مسلح بغاوت ہوئی تھی اس کے شرکاء نے بھی آزادی کا مطالبہ نہیں کیا تھا بلکہ کہا تھا کہ یہ ایک احتجاجی تحریک ہے، ایسی تحریک تو 1958ء میں بھی چلی تھی اس کے مقاصد واضح نہیں تھے چنانچہ بھٹو کو نیپ کی قیادت پر علیحدگی پسندی کے الزامات نہیں لگانے چاہئے تھے بلکہ سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دے کر ان کے ساتھ تعاون کرتے تاکہ پاکستان میں جمہوریت کو فروغ ملتا، اگر بھٹو نے کچھ کرنا تھا تو واجہ یوسف نسکندی اکبر بارکزئی اور رحیم ظفر کو تختہ دار پر لٹکاتا کیونکہ وائس آف بلوچ ریڈیو نے پہلی مرتبہ بغداد کی فضائوں سے آزاد بلوچستان کا نعرہ بلند کیا تھا جس کے ذمہ دار بی ایس او اینٹی سردار کے جیالے تھے۔
پھر بھی بھٹو کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے ہزاروں بلوچ قتل کرکے گریٹر بلوچستان تحریک کی بنیاد رکھی، اس طرح پرویز مشرف نے بھی اس تحریک کو بام عروج پر پہنچاکر ایک اور بڑا احسان کیا، بھٹو کا یہ بھی شکریہ کہ انہوں نے تحریک آزادی کے جیالوں کو اپنے ساتھ ملاکر نہ صرف ان کی جان بخشی کردی بلکہ عہدے بھی دیئے۔
اس سے قطع نظر جو تحریک ہے یا جو آگ ہے وہ بی ایس او اینٹی سردار کی لگائی ہوئی ہے ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی کے بعد بلوچوں کی کوئی سیاست جماعت نہ تھی، بی ایس او ہی پہلی تنظیم تھی جسے بلوچوں نے اپنا رہبر اور سیاسی جماعت جانا کیونکہ نیپ تو مختلف لوگوں کی جماعت تھی جس کے سربراہ مولانا بھاشانی اور عبدالولی خان تھے، بی ایس او نے میر قادر بخش کے پہلے نعرے کو زندہ کرتے ہوئے بلوچ قوم پرستی کو فروغ دیا اور بلوچ عوام میں تبلیغ کرکے انہیں اپنے مادر وطن اور آزادی کی طرف راغب کیا، اس میں نیپ کا کوئی خاص حصہ نہیں، بی ایس او نے 1967ء میں سرداری نظام کے خلاف علم بغاوت بلند کرکے قرار دیا تھا کہ بیشتر سردار طالع آزما ہیں ان کی ماضی وطن فروشی پر استوار رہے لہٰذا بلوچ قوم کی قیادت ایسے عام نوجوان کریں جو قربانی کے جذبے سے سرشار ہوں اور جو مراعات کی خاطر سودے بازی کے مرتکب نہ ہوں، بی ایس او اینٹی سردار کا یہ موقف نصف صدی بعد صادق نظر آتا ہے۔
حتیٰ کہ سب سے بڑے سردار خیر بخش مری نے بھی زندگی کے آخری ایام میں کہا تھا کہ ان کے بعد نام نہاد سرداری نظام اپنی موت آپ مر جائے گا اور نوجوان آگے بڑھ کر بلوچستان کو عظیم کامیابیوں سے ہمکنار کریں گے، بی ایس او اینٹی سردار کا جو بھی انجام ہوا وہ نظر انداز کرنے کی چیز ہے لیکن انہوں نے جو بیچ بوئے تھے وہ تناور درخت بنتے جارہے ہیں اور جو نعرے بغداد میں لگے تھے وہ حقیقت کا روپ دھار رہے ہیں۔