کٹھ پتلیوں کا کھیل

تحریر:انور ساجدی

پاکستانی سیاست ان دنوں ایک پرلطف مزاحیہ دور سے گزر رہی ہے۔ ایک سے بڑھ کر ایک مزاحیہ بیانات پڑھنے اور دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ راولپنڈی کا کامیڈین تو جیل میں ہے لیکن پیشی پر وہ بھی کوئی نہ کوئی دلچسپ چٹکلہ چھوڑ دیتا ہے۔ مثال کے طور پر میں عمران خان کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑا ہوں ، یہ کہنے کے ساتھ وہ پولیس والوں سے گلے مل کر زارو قطار روتا ہے۔ ایک روز کہہ رہا تھا میں پراسٹیٹ غدود کی بیماری کا شکار ہوں، اگر مر گیا تو شہباز شریف، آصف عل زرداری، رانا ثناء اللہ اور بلاول میری موت کے ذمہ دار ہوں گے ۔ اگر موصوف ایک دو ماہ بعد مزید جیل میں رہا تو توبہ کرکے باہر آئیں گے۔ ضمانت بھی مل جائے گی کیونکہ عدلیہ میں ان کے مداحوں کی اچھی خاصی تعداد موجود ہے۔ سب سے زیادہ مزاحیہ بیانات ملک کے سب سے بڑے لیڈرعمران خان دے رہے ہیں۔ 8 اپریل 2022 سے اب تک وہ سینکڑوں مرتبہ اپنا بیانیہ بدل چکے ہیں۔ حکومت سے معزولی کے بعد انہوں نے الزام لگایا کہ امریکہ نے سازش کرکے ان کی حکومت گرائی ہے لہٰذا پی ڈی ایم کی حکومت امپورٹڈ ہے۔ لیکن 9ماہ بعد ان پر انکشاف ہوا ہے کہ حکومت امریکہ نے نہیں باجوہ نے گرائی ہے۔ وہ روزانہ ٹی وی چینلوں پر قوم سے خطاب کرتے ہیں اور ہر روز ایک نیا مزاحیہ چٹکلہ چھوڑ دیتے ہیں اور یہ بھول جاتے ہیں کہ کل انہوں نے کیا کہا تھا۔
اپنے تازہ خطاب میں انہوں نے باجوہ سر کو ’’سپرکنگ‘‘ کا خطاب دیا ہے اور کہا ہے کہ وہ بادشاہوں کی طرح حکم جاری کرتے تھے اور میری کوئی بات نہیں سنتے تھے۔ حالانکہ جب تک حکومت میں تھے ایک پیج کا ذکر کرتے تھے اور فخر تھا کہ مقتدرہ اور حکومت ایک پیج پر ہیں ، آج کل ان کا سب سے بڑا ٹارگٹ باجوہ سر ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ باجوہ سر اپنے اس اعلان کے باوجود کہ وہ اب گمنامی میں چلے جائیں گے لیکن ایک کالم نگار کو بلا کر انہوں نے اپنی تخلیق عمران خان کے خلاف خوب دل کی بھڑاس نکالی ۔ یہ تک کہا کہ اگر انہیں نہ ہٹایا جاتا تو پاکستان نہ رہتا ، بس اس بیان کا آنا تھا کہ کپتان اور اس کی ٹیم نے تابڑ توڑ حملے شروع کردیئے جس کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا ہے۔ باجوہ کے بارے میں ایک انکشاف جے یو آئی کے جنرل سیکریٹری عبدالغفور حیدری نے دو روز قبل کیا۔ ان کے مطابق باجوہ نے سیاسی رہنمائون کو ملاقات کے لئے بلایا تھا، سب تشریف فرما تھے باجوہ اچانک کمرے میں داخل ہوئے اور سلام نہ دعا وہ مولانا فضل الرحمن پر چڑھ دوڑے اور انہیں تسلسل کے ساتھ گالیاں دیتے رہے۔ جب معاملہ حد سے بڑھ گیا تو انہوں نے اٹھ کر کہا کہ ’’ شٹ اپ‘‘ اس کے بعد باجوہ سر خاموش ہوئے ، تھوڑی دیر بعد انہیں اپنی غلطی کا احساس ہوگیا اور وہ معاملات کو سنبھالتے ہوئے کہنے لگے کہ مولانا میرے دوست ہیں ان سے مذاق کا سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ اس کے بعد انہوں نے مولانا صاحب کی تعریف شروع کردی اور انہیں نہایت زیرک رہنما قرار دیا۔ عبدالغفور حیدری کے بیان میں شٹ اپ کال دینا کچھ مزاحیہ سا لگتا ہے۔ اگر پاکستانی سیاستدانوں میں جرأت ہوتی تو وہ بار بار استعمال نہ ہوتے اور کٹھ پتلیوں کا کردار ادا نہ کرتے۔
پاکستانی سیاست کے ایک بڑے مزاحیہ کردار سابق ایم این اے سابق سینیٹر فیصل وائوڈا ہیں ، تین سال پہلے جب باجوہ سر کی توسیع کا معاملہ درپیش ہوا تو انہوں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کہا تھا کہ سارے لیڈر دم ہلاتے ہوئے آئیں گے اور توسیع کا قانون منظور کریں گے، چنانچہ یہ بات سچ ثابت ہوئی۔ ن لیگ جو باجوہ کی بہت مخالف دکھائی دے رہی تھی انہوں نے خاموشی کے ساتھ توسیع کا قانون منظور کرلیا جبکہ کسی نے بھی مخالفت نہیں کی، باجوہ سر کو توسیع لینے کا اتنا شوق تھا کہ جب دو دفعہ ان کے چہیتے وزیر قانون ایم کیو ایم کے بیرسٹر فروغ نسیم نے دو مرتبہ غلط سمری بنوائی تو وہ خود وزیراعظم ہائوس پہنچ گئے اور اپنی نگرانی میں سمری بنوائی۔ فیصل وائوڈا تو ایک مرتبہ ایک بڑا سا بوٹ بھی ٹی وی ٹاک شو میں لائے تھے اور کہا تھا کہ اس بوٹ کی پالش میں سارے سیاستدان پیش پیش رہتے ہیں۔
حال ہی میں ایک مزاحیہ بیان بلوچستان کے وزیراعلیٰ قدوس بزنجو نے بھی جاری کیا ہے۔ وہ ایک فنکشن سے خطاب کرتے ہوئے فرما رہے تھے کہ ان لوگوں نے اپنے مقصد کا کام مجھ سے لے لیا او اب مجھے نکالنے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ وہ اتنے کمزور نہیں کہ استعفیٰ دے دیں تاہم انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان سے استعفیٰ کون طلب کررہا ہے ۔ اگر طلب کرنے والے پرانے طاقتور دوست ہوئے تو عبدالقدوس بزنجو استعفے پر دستخط کرتے ہوئے ایک سیکنڈ بھی نہیں لگائیں گے۔
مزاحیہ کردار بناتے ہوئے اپنے وزیراعظم شہباز شریف کا بیانیہ بھی کافی پرلطف ہوتا ہے۔ کچھ عرصہ قبل سوات میں انہوں نے آکسفام سے لئے ہوئے پرانے کوٹ کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اپنے کپڑے بیچ کر کے اپنی عوام کو آٹا فراہم کریں گے۔ یہ بیان دیتے ہوئے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کے کپڑوں کی قیمت میں تو ایک خاندان کو بھی آٹا نہیں مل سکتا۔ چار کروڑ لوگوں کو وہ کہاں سے آٹا دیں گے۔ شہباز شریف کا وضع قطع بھی خاصا دلچسپ ہے ، وہ عجیب و غریب پہناوا پہنتے ہیں۔ کبھی پاسنگ شو کی ٹوپی پہنتے ہیں کبھی گرینگو والا کوٹ۔ کفایت شعار اتنے ہیں کہ ان کے کپڑے 20 سال سے چل رہے ہیں اور کثرت استعمال سے اب وہ لنڈے کا مال لگنے لگے ہیں۔ اگرچہ پریشانیوں کی وجہ سے وہ آج کل مائیک کم توڑتے ہیں لیکن نٹ کھٹ والی حرکات و سکنات نہیں بھولے۔ گزشتہ ہفتے جب ترکی میں تباہ کن زلزلہ آیا تو موصوف نے فوری طور پر ترکی جانے کا اعلان کردیا یہ سوچے بغیر کہ انقرہ میں کون ان کا خیر مقدم کرے گا اور کون ان کے بھاری بھر کم وفد کو سنبھالے گا۔ بہت جلد ترک حکومت نے ترک حکومت نے پاکستانی وزیراعظم کو آنے سے منع کردیا تب جا کر وہ سکون سے بیٹھ گئے۔
چند سال قبل ایسی ہی صورتحال تھی تو ایک سفارت کار کے بقول میاں نواز شریف استنبول پہنچے تھے۔ رات کو انہوں نے خواہش ظاہر کی کہ وہ مشہور کھابے کے کھانے کے کباب کھانا چاہتے ہیں اور ریستوران جا کر کھانا چاہتے ہیں۔ سفیر کے مطابق انہوں نے کہا کہ اس کا اچھا تاثر نہیں جائے گا۔ ترک عوام مصیبت میں ہیں اور آپ وہاں جا کر افراتفری پھیلائیں گے۔ بڑی مشکل سے انہیں قائل کیا گیا کہ کباب آپ کے پاس آجائیں گے، آپ وہاں جانے کی زحمت نہ کریں۔ ایک راوی کے مطابق لندن میں میاں صاحب کے گھر کے قریب ایک عراقی ریستوران ہے وہاں پر گوشت کی بڑی بڑی ڈشز بنتی ہیں۔ راوی کے مطابق وہ اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے کہ میاں صاحب اپنے لائو لشکر کے ساتھ وہاں پر آگئے۔ انہوں نے کچھ دیر بعد کھانے کی بڑی بڑی رکابیاں جاتی دیکھیں اور ایک سالم بکرے کا روسٹ ان کے سامنے رکھا گیا حالانکہ وہ سرکاری طور پر بیمار ہیں اور اپنے پلیٹ لیٹس کا علاج کروانے لندن گئے ہیں۔ میاں صاحب آج کل آسانی کے ساتھ لندن کی سڑکوں پر گھومنے نہیں جاسکتے کیونکہ پی ٹی آئی کے لڑکے شایان علی نے ان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ وہ جہاں جاتے ہیں موصوف لڑکے لے کر وہاں آجاتے ہیں اور چور چور کا نعرہ بلند کرتے ہیں۔ یہ نوجوان آئے دن ایون فیلڈ کے سامنے مظاہرے بھی کرواتے ہیں کئی دفعہ گرفتار ہوچکے ہیں لیکن ہر دفعہ پولیس چھوڑ دیتی ہے، اگر پاکستان ہوتا تو اب تک جیل میں ہوتے۔
عمران خان نے دور وز قبل یہ مزاحیہ انکشاف کیا تھا کہ نواز شریف مقتدرہ سے مطالبہ کررہے ہیں کہ عمران خان کو نااہل کرکے جیل میں ڈال دیا جائے اور ان کی باعزت واپسی کا بندوبست کیا جائے۔ یہ بات کچھ حقیقت لگتی ہے کیونکہ اس موضوع پر لندن میں بات چیت کے کئی دور چل چکے ہیں۔ مقتدرہ کا مؤقف ہے کہ آپ پہلے آئیں جیل جائیں اپنے مقدمات عدالتوں میں لڑیں جب بری ہوجائیں تو الیکشن لڑیں، لیکن میاں صاحب کو ان باتوں پر اعتبار نہیں وہ پرانے تجربات سے بھی خوفزدہ ہیں۔ مثال کے طور پر واپس آکر ان کی جیل طویل ہوگئی یا عدالتوں نے جلدی بری نہ کیا تو وہ یہ وقت جیل میں کیسے گزاریں گے اس لئے وہ آنے سے گریزاں یا خوفزدہ ہیں۔ کہاں پارک لین کی رومانی اور پرتعیش فضا اور کہاں اڈیالہ یا اٹک جیل کا آسیب زدہ ماحول ، جہاں لال بیگ، چوہے اور چھپکلیاں سونے نہیں دیتیں، میاں صاحب کے فلیٹ سے اگرچہ ہائیڈ پارک کا مسحور کن منظر دکھائی نہیں دیتا لیکن چند قدم جا کر وہ طرح طرح کے مناظر سے بڑے لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اگر ان کی آمد ہوئی تو آئندہ الیکشن کے بعد ہوگی وہ بھی اس شرط پر کہ ان کی صاحبزادی مریم وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوجائیں یا کم از کم بھائی دوبارہ منتخب ہوجائیں لیکن بظاہر یہ دونوں باتیں مشکل لگتی ہیں۔ ان کی جماعت ن لیگ کے اندر بغاوت ہے ، اختلافات کی وجہ سے یہ پارٹی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہورہی ہے۔ التبہ اگر مقتدرہ نے حتمی فیصلہ کرلیا کہ عمران خان کو کسی بھی صورت میں دوبارہ اقتدار میں آنے نہیں دیا جائیگا تب ن لیگ کی باری آسکتی ہے کیونکہ اور کوئی متبادل جماعت نہیں ہے۔ کہنہ مشق صحافی اور دانشور راشد رحمان کا کہنا ہے کہ مقتدرہ جب کسی کو دھتکار دیتی ہے تو دوبارہ اقتدار میں نہیں لاتی، نواز شریف واحد خوش قسمت ہیں جنہیں تین بار موقع دیا گیا ، چوتھی بار ان کے آنے کا امکان بھی نہیں ہے ، ان کے بقول پیپلز پارٹی کو سندھ تک ہی محدود رکھا جائے گا۔
سیاست کا یہ مزاحیہ دورانیہ اپنی جگہ ، ریاست بہت ہی سنگین مسائل سے دوچار ہے۔ آئی ایم ایف کی شرائط کے بعد 170 ارب روپے کے نئے ٹیکسوں کا نفاذ شروع کردیا گیا ہے۔ یہ سار بوجھ غریب آدمی پر پڑے گا، نام نہاد جعلی اشرافیہ پر کوئی بوجھ ڈالنے کا ارادہ نہیں ہے۔بلکہ ان کی صنعتوں اور کاروبار کو مزید مراعات دی جارہی ہیں۔ سیکورٹی کے اخراجات میں کٹوتی کی بجائے چار کھرب کا اضافہ کردیا گیا ہے۔ اور کسی قسم کی اصلاحات روبہ عمل نہیں لائی جارہی ہیں۔ پی ڈی ایم یا شہباز حکومت ایک بدترین کٹھ پتلی کا کردار ادا کررہی ہے اور تکیہ کررہی ہے کہ مقتدرہ عمران کو روک کر دوبارہ اسے تخت پر براجمان کردے گی۔ واللہ العالم باالصواب

اپنا تبصرہ بھیجیں