امریکا نڈھال، چین اگلا سپرپاور

میر سعید اللہ بزنجو
عالمی سیاسیات میں چین اور امریکہ روایتی حریف سمجھے جاتے ہیں، تاحال امریکہ سپر پاور ہے اور عالمی اقتدار کی اس دوڑ میں اگر کوئی اور ملک شامل ہے تو وہ چین ہے جو دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے۔ امریکہ اور چین کی مخالفت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کورونا وائرس کی تباہ کاریوں کے باوجود دونوں طاقتیں ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ شاید یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ امریکہ اپنے روایتی حریف چین سے خوفزدہ ہے کہ کہیں چین اقتدار کی اس جنگ میں اس کو شکست نہ دیدے۔کورونا وائرس جب چین کے شہر ووہان میں پھیلا تو امریکی حکام کی طرف سے سفارتی آداب کے منافی بیانات دیکھنے کو ملے،31 جنوری کو امریکہ کے سیکرٹری برائے تجارت ولبر روس نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ چین میں پھیلنے والا وائرس امریکی معیشت کے لیے مثبت ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا وائرس کو ووہان وائرس کا نام دیا تھا جس پر چینی حکام کی طرف سے شدید ردِ عمل سامنے آیا۔ امریکی صدر کے ووہان وائرس کے طنز کے جواب میں چین کی جانب سے امریکہ پر الزام عائد کیا گیا کہ ووہان میں پھیلنے والا وائرس امریکہ نے پھیلایا ہے۔ چینی حکام نے الزام عائد کیا کہ اکتوبر میں وہاں ہونے والی ملٹری گیمز میں شرکت کرنے والے امریکی فوجیوں نے کورونا وائرس وائرس پھیلایا۔امریکی صدر نے یہیں پر بس نہیں کیا، کچھ دن پہلے ٹرمپ نے عالمی ادارہ صحت پر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ تائیوان نے انسانوں سے انسانوں میں وائرس منتقلی کی وارننگ دی تھی اور عالمی ادارہ صحت نے ان کی ابتدائی وارننگ نظر انداز کر کے بیجنگ کی مدد کی۔ امریکی صدر نے الزام عائد کیا تھا کہ چین نے دنیا سے کورونا کی ہولناکی کو چھپایا تھا۔ حتی کہ ٹرمپ نے تائیوان وارننگ نظر انداز کرنے پر عالمی ادارہ صحت کو فنڈنگ روکنے کی دھمکی بھی دی تھی۔صدر ٹرمپ کی دھمکی کے بعد عالمی ادارہ صحت نے سخت ردِ عمل کا اظہا ر کیا۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل کے مشیر بروس ایلوارڈ نے امریکی صدر کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈبلیو ایچ او (عالمی ادارہ صحت) ایک غیر جانبدار ادارہ ہے جس نے چین سمیت دیگر ممالک کی یکساں مدد کی ہے اور صدر ٹرمپ کے بیان کو حقائق کے منافی قرار دیا۔ ساتھ ہی بروس ایلورڈ نے ٹرمپ کی طرف سے امداد روکنے کی دھمکی کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ وقت ایک دوسرے کے ہاتھ مضبوط کرنے کا ہے۔صدر ٹرمپ کی طرف سے عالمی ادارہ صحت کو دی جانے والی دھمکی پر اقوامِ متحدہ نے ڈبلیو ایچ او کی حمایت کی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرس نے کہا تھا کہ عالمی ادارہ صحت کی مدد کرنی چاہیے کیونکہ یہ کورونا وائرس کے خلاف جنگ ہے جہاں تک چین کی بات ہے تو چین اس وائرس پر کافی حد تک قابو پا چکا ہے جبکہ امریکہ اس میں پوری طرح ناکام دکھائی دے رہا ہے۔ امریکی صدر نے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ 12اپریل تک کورونا وائرس کو کنٹرول کر لیا جائے گا اور اب کہا ہے کہ جون تک کورونا وائرس کا خاتمہ ممکن ہو گا۔ اس سے امریکہ کی بے بسی صاف ظاہر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ کی ایوانِ نمائندگان کی اسپیکیر نینسی پلوسی نے صدر ٹرمپ پر ہلاکتوں کی ذمہ داری عائد کی ہے۔اگر دونوں ممالک کی صلاحیتوں کا موازنہ کیا جائے تو امریکہ کے مقابلے میں چین کی پوزیشن مستحکم نظر آ رہی ہے۔ تین باتیں ایسی ہیں جن کی وجہ سے چین نے ثابت کردیا ہے کہ اس کا پلڑا امریکہ سے کہیں بھاری ہے۔ پہلی بات یہ کہ چین کورونا وائرس کو شکست دینے میں کامیاب ہو چکا ہے جبکہ امریکہ ناکام دکھائی دیتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ چین نے مشکلات کے باوجود اٹلی، سپین، فرانس اور ایران کی مدد کی ہے۔ جبکہ امریکہ دوسرے ممالک سے امداد کا منتظر ہیں، یہاں تک کہ روس جیسے حریف کی امداد قبول کرنے پر مجبور ہوا۔ تیسری بات یہ کہ سفارتی لحاظ سے چین کو امریکہ پر برتری حاصل ہے کیونکہ اقوامِ متحدہ، عالمی ادارہ صحت اور کئی ممالک امریکہ کے مقابلے میں چین کے حمایتی نظر آتے ہیں۔صورتحال اس قدر خراب ہے کہ مختلف امریکی ماہرین معاشیات امریکہ کا معاشی مستقبل خطرے میں قرار دے رہے ہیں، ظاہر ہے معاشی طور پر کمزور ہونے کے بعد امریکہ کی دنیا پر ٹیکنالوجی اور فوجی برتری نہیں رہے گی اور واحد سپر پاور کی پوزیشن سے زوال پذیر ہو جائے گا۔ دوسری جانب چین نے علمی، سائنسی، طبی اور جیو پولیٹیکل توانائیوں کا استعمال ہوشیاری سے کر کے کورونا کو بری طرح شکست دی ہے یا دوسری صورت میں امریکہ، چین کو کورونا میں پھنسا دیکھ کر معاشی برتری کے شادیانے بجا رہا تھا، اس گڑھے میں اب خود گر گیا ہے، اور اگر یہ صورتحال مزید کچھ عرصہ جاری رہی تو چین دنیا کی قیادت کرنے کوشش شروع کردے گا۔اور دوسرے طرف امریکہ اپنے اس پوزیشن کو کھونے کے خوف سے انڈیا کی جانب سے پاکستان اور چین کے باڈر پر کشیدگی کا فضاہ قائم رکھے ہوئے ہے جو شائد امریکہ کے جانب سے کوئی سازش ہو جس سے امریکہ اور اس کے اتحادی کو کچھ فائدہ میسر ہو اب دیکھنا یہ ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتی ہے۔یا امریکہ چین کو سپر پاور تسلیم کر تا ہے جس سے دنیا بھر میں کیا ردعمل ملتی ہے۔ روس نے چین کو دنیا کی عالمی طاقت تسلیم فیصلے کیا ہے جبکہ ترکی، ایران اور ملائیشیا سمیت بہت سے یورپی ممالک کو بھی چین کے متعلق امریکی فیصلے کا انتظار ہے کہ کب امریکہ اپنے ہتھیار ڈال کر چین کو سپر پاور تسلیم کرے گاواضح ہو کہ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورت حال کے بعد چین نے انتہائی ثابت قدمی سے اس مہلک وبا پر کنٹرول حاصل کر لیا ہے جبکہ اس کے برعکس امریکہ، اٹلی، سپین اورنیوزی لینڈ سمیت بہت سے دیگر یورپی ممالک کورونا سے بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔ ان ممالک کی معیشت بھی مکمل طور پر تباہ ہو چکی ہے جبکہ چین نے خود کو امریکہ سے بڑی معاشی طاقت ثابت کرتے ہوئے کورونا سے متاثرین ممالک کی امداد شروع کر دی ہے۔ چین نے بہت سے امریکی ادارے بھی خرید لئے ہیں۔ جس کے بعد امریکہ کی طرف سے چین کو دنیا کی سپر پاور تسلیم کرنا ہی ایک حقیقت ہے جس کا اب پوری دنیا کو انتظار ہیں۔پہلے معاشی لحاظ سے دیکھتے ہیں۔ ورلڈ بنک کے مطابق قوت خرید کے اعتبار سے چین دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے۔ جبکہ نومینل جی ڈی پی کے اعتبار سے دیکھیں تو چین دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت ہے۔ لیکن دوسری بڑی ہونے کے باوجود بھی چین اور امریکی معیشت میں سات ٹریلین ڈالر کا فرق ہے۔ حالانکہ امریکہ میں یہی جی ڈی پی صرف پنتیس کروڑ آبادی کے ساتھ حاصل کیا جاتا ہے جبکہ چین کی آبادی ڈیڑھ ارب کے قریب پہنچ چکی ہے۔ جس سے پتا چلتا ہے کہ امریکی دماغ چین سے بہت آگے ہے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ امریکہ کے قریب ترین اگر کسی ملک کی معیشت ہے تو وہ چین ہے اور اگر کوئی ملک یہ فرق تیزی سے کم کرتا جا رہا ہے تو وہ بھی چین ہی ہے۔ایک طرح سے دیکھیں تو چین امریکہ سے بہت بڑی معاشی طاقت ہے۔ وہ یوں کہ امریکہ دنیا کا سب سے زیادہ مقروض ملک ہے جو اپنے جی ڈی پی کا 97 فیصد قرضے کی شکل میں ادا کرتا ہے۔ جبکہ چین اپنے جی ڈی پی کا صرف تیرہ فیصد بیرونی قرض کی مد میں ادا کرتا ہے۔ چین کے پاس فارن ریزروز تین اعشاریہ تین ٹرلین ڈالر دنیا میں سب سے زیادہ ہیں۔ فارن ریزروز میں دوسرا نمبر جاپان کا ہے لیکن اس کے فارن ریزروز چین کے آدھے سے بھی کم ہیں۔دفاعی لحاظ سے دیکھیں تو چین کے پاس تئیس لاکھ کی تعداد میں دنیا کی سب سے بڑی فوج ہے۔ لیکن نیشنل پاور انڈیکس میں چین کو دنیا کی نمبر ون فوجی طاقت نہیں بلکہ امریکہ اور روس کے بعد تیسرے نمبر پر عالمی فوجی طاقت مانا جاتا ہے۔ اس کی وجہ ہتھیاروں کی ٹیکنالوجی میں چین کا امریکہ اور روس سے پیچھے ہونا ہے۔ چین کا دفاعی بجٹ دو سو پندرہ ارب ڈالر ہے جو امریکہ کے چھ سو گیارہ ارب ڈالر بجٹ کے مقابلے بہت کم ہے۔ لیکن اس کے باوجود چین امریکی ٹیکنالوجی کے مقابلے میں اپنے ہتھیاروں کو اپنی صلاحیت سے تیار کرتا ہے۔ چین کے نئے منصوبے ون بیلٹ ون روڈ اور اس منصوبے سے جڑے سی پیک جیسے دوسرے پراجیکٹس نے امریکہ کے سپرپاور سٹیٹس کیلئے ایک چیلنج سمجھا جا رہا ہے۔ گو کہ چین ایسا تاثر نہیں دیتا لیکن یہ حقیقت ہے کہ اگر ون بیلٹ ون روڈ منصوبہ آگے بڑھتا ہے تو چین کی معاشی اور دفاعی ترقی کو روکنا ناممکن ہو گا۔ کیونکہ اس منصوبے کی حفاظت کیلئے چین کو عالمی طور فوجی اڈوں کا جال بچھانا پڑے گا جس کی ایک مثال افریقہ ملک جبوتی میں چین کا پہلا فوجی اڈہ ہے۔ سیاسی لحاظ سے دیکھیں تو چین اقوام متحدہ کی سب سے طاقتور باڈی سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہے اور عالمی سطح بڑا فیصلہ چین کی مرضی کے بغیر پاس نہیں کیا جا سکتا۔ چین کے اپنے شمالی اور مغربی ہمسایوں سے اچھے تعلقات اس کی طاقت ہیں۔ جبکہ جنوب میں بھارت سے خراب تعلقات اور مشرقی سمندر میں اس کے مشکلات کا باعث بن سکتی ہے کیا چین بھارت سے اپنے تعلقات بہتر کریں گے یا پاکستان کے دشمن سے دشمنی اور چین پاکستان کی جنگ نہیں بلکہ اپنی پاور شو کرنے مصروف عمل ہے اور بھارت امریکہ کی جنگ میں اپنے کردار کو پیش کررہاہے لیکن پوری دنیا کی نظریں چین کی طرف ہیں کہ چین کس طرح اپنے سپر پاور بننے کا اعلان کرے گا کیا وہ اپنے تعلقات بہتر بنانے کی کوشش میں کس حد اپنے آپ کو نرم گوشہ اور ثابت قدم رہے گااب دیکھنا ہے کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے ۔