مسیحائے آواران اور بلڈ بینک کا قیام

تحریر: ارشداقبال
بلوچستان کا ضلع آواران خراب حالات، زلزلہ کی تباہ کاری، سیلاب اور موجودہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے آبائی حلقے کے نام سے جانا جاتا ہے لیکن آواران کی اصل پہچان منشیات کی اسمگلنگ کیلئے ہموار زمینی راستہ، کچی سڑکیں، ٹوٹے پل، غربت، بیروزگاری، بند تعلیمی ادارے، صحت کے سہولیات کی شدید کمی اور اپوزیشن و اقتدار پر براجمان سیاسی پارٹیوں کی غیر سنجیدگی ہے۔آواران کے مجموعی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ یہاں بلڈ بینک نہ ہونے کی وجہ سے تھیلیسمیا، خون کی کمی کا شکار خواتین جنہیں دوران زچگی خون کی اشد ضرورت پڑتی ہے اور کسی ناگہانی واقعے پر ایمرجنسی میں خون کے حصول کیلئے بہت پریشانی کا سامنا رہتا تھا۔ لیکن یہ مسئلہ اب حل ہو چکا ہے 18مارچ 2023 کو ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال آواران میں ایم ایس ڈاکٹر امیربخش بلوچ کی انتھک کوششوں سے بلڈ بینک کا قیام ہوچکا ہے۔1881ء کو ڈاکٹر ولیم کی بہن زچگی کے دوران کمی خون کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہی تھی تو ڈاکٹر ولیم نے اپنے جسم/بازو سے خون نکال کر اپنی بہن کے بازو میں خون ڈالنا شروع کیا۔ حیرت انگیز طور پر اس کی بہن آدھے گھنٹے میں ٹھیک ہونے لگیں۔ انسانی تاریخ میں پہلی بار یہ تجربہ اتفاقی طور پر کامیاب ہوا۔1901 میں آسٹرین ڈاکٹر کارل لینڈسٹینر نےخون کے ان گنت نمونے لیکر چار سال تک مشاہدہ کرنے کے بعد اس نے خون کے آٹھ گروپ دریافت کئے۔ ڈاکٹر کارل نے دیکھا کہ ہر انسان کا بلڈ گروپ زندگی سے موت تک یکساں رہتا ہے۔ ایک ہی قسم کے خون کو آپس ملایا جائے تو وہ نارمل رہتے ہیں لیکن اگر ایک بلڈ گروپ کو اس کے کسی متضاد گروپ سے ملایا جائے تو وہ لوتھڑے کی شکل اختیار کرتا ہے۔ انہوں نے ان آٹھ اقسام کو A, B, Ab, O پازیٹیو اور نیگیٹو میں تقسیم کی۔ 1914 میں یہ معلوم کیا گیا کہ اگر سوڈیم سیٹریٹ sodium citrate کو خون میں ملایا جائے تو اسے کچھ وقت تک محفوظ رکھاجاسکتا ہے۔ اور 1916 کو امریکی ڈاکٹرز نے ایک اور کیمیکل ہیپرن heparin دریافت کی جو خون کو زیادہ وقت کے لئے محفوظ رہے گا اور یہ کیمیکل آج تک استعمال ہو رہا ہے۔ 18مارچ 2023 کو ڈاکٹر امیربخش بلوچ نے بلڈ بینک کا افتتاح کرتے ہی بلڈ بینک میں خون جمع کرنے کیلئے ڈی ایچ کیو ہسپتال آواران میں بلڈ کلکٹنگ کیمپیئن چلا کر صبح دس بجے سے دوپہر دوبجے تک خون اکٹھا کیا تھا۔ اس دوران ضلع آواران کے صرف اور صرف اٹھارہ 18 نوجوانوں نے ہی بلڈ ڈونیٹ کیا جن میں سے بیشتر ڈی ایچ کیو ہسپتال آواران کے استاف ممبر ہی تھے۔ جس علاقے کا ایم پی اے ایم این اے تو کیا وہاں کا جے وی ٹیچر، اسٹینوگرافر بیٹھ کر ڈیوٹی اور کام کرنے کیلئے تیار نہ ہو وہاں امیربخش بلوچ نے اپنے فیوچر اپنی زات کو پس پشت ڈال کر اپنا جان مال وقت سب کچھ آواران کیلئے وقف کرچکا ہے۔ آواران میں 2013 کے زلزلے سےلیکر آج تک کئ نشیب و فراز آئے لیکن ڈاکٹر امیربخش بلوچ آج بھی آواران کی خدمت کرنے کیلئے دن رات حاضر رہتے ہیں ڈی ایچ کیو ہسپتال آواران ان کے بغیر ہیچ ہے۔ ڈاکٹر امیربخش بلوچ بھی آواران کے ہی باسی ہیں لیکن ان کی پہچان ان کی کردار ہے اسی کردار کی بدولت وہ مسیحائے آواران کا لقب پاچکے ہیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں