فرقہ واریت کی آگ اور بلوچ روایات!

تحریر۔ عاطف رودینی بلوچ

دنیائے تاریخ میں جہاں بھی بلوچستان کا ذکر ہوتا ہے وہاں بلوچستان کی روایات کا تذکرہ بھی ضرور ہوتا ہیں۔ ہزاروں سالوں سے بلوچ سرزمین میں بسنے والے افراد چاہے ان کا تعلق کسی بھی مذہب، کسی بھی فرقے، کسی بھی قوم، قبائل یا کسی بھی نسل سے ہو ہمیشہ روایات کا پاسدار رہے ہیں اور قومی روایات کی پاسداری میں کسی نے بھی اپنی جان کی بازی دینے سے دریخ نہیں کیا۔ یہاں رہنے والے مسلم ہندو سکھ عیسائی بلوچ، پشتون، سندھی، ہزارہ، سنی شیعہ، بریلوی وہابی، کے درمیان جو محبت، اخوت بھائی چارگی ہے اس کی مثال نہیں ہے اور یہی بلوچ روایات ہے جن کی پاسداری ہمیشہ ہوئی ہے۔
بلوچ قوم اور بلوچ سرزمین کے باسیوں کی روایات رہی ہے کہ انہوں نے کبھی نفر ت کا مظاہرہ نہیں کیا اور نہ کبھی نفرت کو بڑھنے دیا ہے ہمیشہ محبت اور بھائی چارگی اختیار کی ہے۔ مہمان کی خدمت اور اپنے باہوٹ(پناہ میں آیا ہوا شخص) کی حفاظت میں اپنی جان و مال کی قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹے ہیں۔ دشمن کے للکارنے سے پہلے دشمن پر کسی صورت حملہ نہیں کرتے۔ بھاگتے ہوئے دشمن کو کبھی نہیں مارتے۔ جب دشمن ہتھیار ڈال دیں تو اس پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ جب دشمن میڑھ (مرکہ) لیکر گھر پہنچتا تو اسکی بڑی سے بڑی غلطی بھی درگزر کردیا جاتا ہے۔ کبھی بھی بچوں بوڑھوں اور عورتوں پر ہاتھ نہیں اٹھاتے۔ اپنی صفوں کو مظبوط اور باہر سے آنے والوں کو اپنے اندر داخل ہونے نہیں دیتے۔ ان روایات کی پاسداری، آپسی اتحاد محبت اور بھائی چارہ ہی بلوچستان کی سب سے بڑی طاقت رہی ہے اسی لیے بلوچستان پر جب بھی کسی نے قبضہ کرنے کی کوشش یا حملہ کیا ہے تو اسے شکست یا پھر بہت بڑے نقصان ضرور اٹھانے پڑے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یہ طاقت بلوچستان پر گندی نظریں رکھنے والوں کی آنکھوں میں چبھتی ہے اسی لیے اس طاقت کو توڑنے اور مٹانے کیلئے مختلف ہتھکنڈے سازشیں اور چال بازیوں کا سہارا لیتے رہے۔ بڑی سے بڑی طاقت بھی بلوچستان کے اس طاقت کو توڑنے میں ناکام رہی۔ ان روایات کو دیکھ کر کئی دشمن دوست بن گئے حیوانوں میں بھی انسانیت جاگ اٹھتی تھی۔ ظالم کے دل میں بھی ندامت پیدا ہوتی تھی۔ تاریخ اس بات کا گواہ ہے کہ بلوچستان میں ہزاروں سالوں سے آباد ہندوؤں اور بنگالیوں کو آج تک بلوچستان میں بلوچ لوگوں کی طرف سے تشدد کا نشانہ نہیں بنایا گیا ہے جس کی مثال انگول میں قائم ہندوؤں کی مندر ہے جس کی آس پاس کی آبادی بلوچوں پر مشتمل ہے لیکن آج تک اس مندر کو ذرا برابر بھی نقصان نہیں ہوا ہے۔ ڈیرہ بگٹی میں بھی ہزاروں کی حساب سے ہندو آباد ہیں لیکن انہیں بھی کبھی مذہب اور فرقہ واریت کا نشانہ نہیں بنایا گیا ہے بلکہ جب ڈیرہ بگٹی میں نواب اکبر بگٹی پر حملہ ہوا تھا اس حملے میں سب سے زیادہ ہندو شہید ہوئے تھے جو اس کے قلعے کے ساتھ رہتے تھے۔
مگر بدقسمتی سے بلوچستان میں فرقہ واریت، تقسیم اور نفرت کی ایسی خوفناک آگ بھڑک اٹھی جس نے یہاں کی روایات، محبت بھائی چارے اور اتحاد کو جلا کر راکھ کردیا ہزاروں سالوں سے ایک بندھن میں بندھے ایک پھل میں ٹھوٹ کر بکھر گئے ایک دوسرے کیلئے جان دینے والے ایک دوسرے کے جان کے دشمن بن گئے فرقہ واریت اور تقسیم کے گن گلی گلی گھائے گئے تاکہ فرقہ واریت تقسیم اور نفرت کو مزید فروغ مل سکے۔ سنی شیعہ، بریلوی وہابی، ذگری نمازی، کے نام پر لوگوں کے دلوں میں نفرت بھر کر ایک دوسرے کے دشمن بنا دیے گئے ہیں۔ مسلمان، مسلمان نہیں بلکہ سنی، شیعہ بریلوی بن گئے۔ فرقہ واریت کی تضادات فسادات میں ہزاروں گھر جل گئے بہت سے ماں باپ کے سہارے ٹوٹ گئے کئی بچے یتیم ہو گئے بہت سے بیویاں بیوہ بن گئیں۔ یہ آگ رکنے کا نام نہیں لے رہی اور وقتاً فوقتاً اس آگ پر پٹرول چھڑک کر آگ کو بڑھایا جاتا ہے تاکہ یہ آگ مزید تباہی مچائے۔
چند روز قبل پیش آنے والے سانحہ ہزارہ ٹاؤن جس میں جس بے دردی اور ظالمانہ طریقے سے فرعونیت قائم کی گئی نا قابل بیاں ہے جس نے بلوچستان کے روایات کا جنازہ ہی نکال دیا اور اس سانحہ سے انسانیت ہی لرز اٹھی اس سانحہ کی تہہ تک نہیں پہنچا گیا اور نہ ہی حقیقت سامنے لائی جارہی ہیں ملزمان کے خلاف کارروائی بھی جس طرح ہونا چاہیے اس طرح سے نہیں ہو رہا جو سوالیہ نشان ہے۔ اور اس سانحہ سے بھی زیادہ خطرناک بات یہ ہے کہ اس سانحہ کو فرقہ واریت کی آگ کا پٹرول بنایا جارہا ہے اس واقعہ نے پورے خطے آباد لوگوں میں ایسا زہر پیدا کر دیا ہے جس کی اثر بہت بری اور بھیانک دکھائی دے رہی ہے۔ اس واقعے کے بعد ہزارہ قبیلے سے تعلق رکھنے والے چند افراد پر تشدد بھی کیا گیا اور اس واقعے کے بعد "ہم اپنے پشتون بھائیوں کے ساتھ مل کر ہزارہ قبائل سے بدلہ لینگے” اور "ہزارہ طاقت ور قبائل ہے لڑے گا اور اپنی دفاع کرے گا” جیسے نعروں سے سنی شیعہ اور پشتون ہزارہ تضاد کو جنم دینے اور خانہ جنگی بنانے کی ماحول بنانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ اس آگ پر قابو پانا ہوگا ورنہ ہمیں ایک اور، بڑا نقصان اٹھانا پڑے گا ہمیں مزید تباہی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس آگ اور ان جیسے کئی نفرت کے سیلاب کو روکنے کیلئے حکومتی نمائندوں، سیاسی رہنماؤں، علمائے کرام، دانشوروں اور شاعروں ادیبوں کو مل کر ان زہر پھیلانے والے واقعات کو روکنا ہوگا انصاف پر مبنی نظام قائم، مجرموں، انبیاء کرام اور صحابہ کرام کی شان میں گستاخی کرنے والوں مذہب کا مذاق اڑانے والوں اور سر زمین سے غداری کرنے والوں کو قانون کے دائرے اور روایات کے تناظر میں کھڑی سے کھڑی سزا دینا چاہیے تاکہ مزید سانحہ ہزارہ ٹاؤن جیسے واقعات پیش نہ ہو۔ لوگوں کو روایات کے بارے میں علم اور روایات کے پاسدار بنانا ہوگا ہمیں کسی قوم یا کسی فرقے کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے محبت اتحاد اخوت بھائی چارے کیلئے اور پروپیگنڈوں سازشوں اور جعل سازی کے خلاف کھڑا ہونا چاہیے اسی طرح سے اس خطرناک آگ پر قابو پا سکتے ہیں ورنہ جس تیزی سے یہ آگ پھیل رہی ہے کئی ہمارے روایات کے طرح ہمارے وجود کو بھی مٹا کر راکھ نہ کردیں۔

اپنا تبصرہ بھیجیں