سماج کی ترقی میں جامع اداروں کی افادیت اور اس کا تاریخی پس منظر

تحریر: محمد صدیق کھیتران
گزشتہ سے پیوستہ۔
اتنی بڑی مقبولیت دیکھ کر فرینکلین روزویلٹ کو بھی نواز شریف کی طرح آئین میں من مانی ترامیم کا بخار چڑھا۔امریکی صدر نے 9 مارچ 1937 کو ریڈیو پرخطاب کرتے ہوئے کہا۔ ” مجھے چار سال پہلے والی مارچ کی وہ شام یاد ہے۔جب میں نے پہلی تقریر میں بتایا تھا کہ اس وقت ہم بہت بڑے معاشی بحران میں پھنسے ہوئے ہیں۔ہم نے اپنی کانگریس کے اختیارات کو استعمال میں لاتے ہوئے قوم سے اپیل کی تھی کہ وہ اپنا سونا اور قیمتی زیورات "ڈالر کے بدلے ڈالر” کے عوض قومی خزانے میں جمع کرائیں۔یاد رہے 1934 میں ڈالر کی مالیت گرادی گئی۔جس سے ایک اونس سونے کی قیمت 21 سے بڑھ کر 35 ڈالر ہوگئی تھی۔لوگوں نے سونا بیچ کر اپنی قوت خرید بڑھا لی تھی۔جس سے معاشی سرگرمیاں واپس بحال ہوگءتھیں۔ ( پاکستان کی پچھلی دونوں حکومتوں نے ان کی نقل کرتے ہوئے ڈالر کو 100 سے 300 روپے تک گرادیا مگر افاقہ نہ ہوا )
صدر نے اپنی تقریر جاری رکھتے ہوئے کہا آج جب ہماری مالی پوزیشن بحال ہوئی ہے تو یہ ثابت کرتی ہے کہ ہماری پالیسیاں صحیح تھی۔ لیکن جب دو سال بعد یہ پالیسی اس وقت سپریم کورٹ پہنچی تو یہ بمشکل سے 4 کے مقابلے 5 ججوں کے ووٹ سے منظور ہوسکی۔ اس نے کہا امریکی نظام حکومت میں آئین نے تین گھوڑے دئیے ہیں تاکہ وہ کھیت میں حل جوت کر عوام کیلئے خوراک پیدا کرسکیں۔بدقسمتی سے ان میں سے دو گھوڑے کانگریس اور مقننہ صحیح سمت میں جت کر زور لگارہے تھے مگر تیسرے گھوڑے جوڈیشیل کی سمت دوسری طرف تھی”۔
فرینکلین روزویلٹ نے مزید کہا کہ "امریکی آئین نے اس کی جوڈیشری کو یہ حق نہیں دیا ہے کہ وہ قانون ساز ادار ے کو "legislation” کے حق کو چیلنج کرے مگر جوڈیشری نے یہ کردار خودہی سے 1803 سے اپنایا ہوا ہے۔میرے پچھلے چارسالوں سے جوڈیشری ایک جوڈیشل باڈی کے طور پر عمل نہیں کر رہی ہے بلکہ وہ ایک پالیسی ساز ادارے کے طور پر سامنے آئی ہوئی ہے”۔
قوموں کی طاقت کا تعین عدلیہ، پولیٹیکل سسٹم اور اسٹیبلشمنٹ کا کردار کرتا ہے۔ہم جب پاکستان کی 75 سالہ تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں تو اس میں پالیٹکس اور جوڈیشری کے ادارے مسلسل لڑکھڑاتے نظر آتے ہیں۔ یہ بحران اس وقت سے شروع ہے جب گورنر جنرل غلام محمد نے قانون ساز اسمبلی کو 1954 میں توڑا تھا۔جس کو سندھ ہائی کورٹ نے اسمبل کو بحال بھی کر دیا تھا۔مگر اس وقت کی اعلءعدلیہ نے 1955 میں جسٹس محمد منیر کی سربراہی میں سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کو "نظریہ ضروت ” کی دلیل پر کلعدم قرار دیا تھا۔ایک انصاف کے ادارے کے غیر معتبر فیصلے نے چار جنرلوں کے براہ راست جبکہ باقی تمام فوجی جنرلوں کے بلاواسطہ نقاب پوش اقتدار کیلئے راہیں کھول دیں۔یہی نہیں بلکہ یہ جوڈیشری معاشی اور سماجی محاذ پر بھی قوم کے جسد خاکی پر مسلسل ہتھوڑے برسانے میں پیش پیش رہی ہے۔مثلا” اسٹیل مل کو جب بیچا جارہا تھا۔تو اس وقت کے وزیر خزانہ قومی میڈیا پر آکر مسلسل فریاد کرتےرہے کہ کوئی اگر ایک روپے میں بھی یہ مل خرید لیتا ہے تو یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے کیونکہ یہ اسٹیل مل سالانہ اربوں روپے کا خسارہ کر رہی ہے۔کسی مرحلے پر اسٹیل مل بک بھی گئی تھی مگر جسٹس افتخار چودھری نے ٹانگ آڑائی کی۔جو اب تک کئی ارب روپے سالانہ کے حساب سے قوم پر بوجھ بنی ہوئی ہے۔ریکوڈک، ترک کمپنی کا پاور پلانٹ ، قومی احتساب بیورو کے لاتعداد سیاسی فیصلے ،جسٹس نثار ثاقب کا لاہور کے مشہور زمانہ لیور ٹرانسپلانٹ ہسپتال کے ساتھ حشر، جسٹس آصف سعید کھوسہ کا پانامہ کا فیصلہ اور جسٹس نسیم شاہ کا 3 کے مقابلے میں 4 سے ذولفقار علی بھٹو کو 1979 میں پھانسی پر چڑھانا ایسی شرمناک تاریخ ہے۔جس نے قوم کے اعتماد کو پارہ پارہ کردیا ہے۔تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے سیاست دانوں نے بھی جوڈیشری کے وقار کو خاک میں ملانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس پر آگے چل کر تفصیل سے بات ہوگی۔
سیاست دان ہر ملک کے چالاک اور فطین لوگ ہوتے ہیں۔پاورگیم مضبوط اعصاب کے لوگوں کا کام ہے۔شاید یہی وجہ کہ قانون ساز ادارے کو دنیا کے ہر جمہوری ملک میں بالاتری حاصل ہے۔مگر ہمارے جیسے ملکوں میں اس کے وقار کو ملیامیٹ کرنے والے بھی انہی میں سے نکل آتے ہیں۔ درخت سے لٹکتا پھل کسی بھی انسان یا پرندے کا نصیب بن سکتا ہے۔ جوکیدار کی غفلت کا خمیازہ ہمیشہ گھر کے مالک کو برداشت کرنا پڑتا ہے۔ماضی قریب بتاتا ہے جوڈیشری اور مقننہ نے مل کر سب سے پہلے اس بالاتر ادارے کا گلا بند کیئے رکھا۔اور یہ روش آج بھی عملی صورت میں موجود دکھائی دے رہی ہے۔
فرینکلین روزویلٹ بھی ایک سیاست دان تھا اس نے بھی اپنی شطرنج کی چال چلنے کی کوشش کی۔اس نے سوچا کہ عدلیہ پر کام کا بوجھ بڑھ گیا ہے۔ ججوں کی عمر بھی زیادہ ہے۔ لہزا نئے خون اور چست ججوں کی ضرورت ہے۔وہ حاضر سروس ججوں کی عمر میں تخفیف کے ساتھ ان کی تعدادمیں اضافے کابل کانگریس کے پاس لے گیا۔ تاہم بل پیش کرنے سے پہلے صدر نے عوامی رائے جاننے کیلئے سروے کرایا۔جس میں %40 لوگوں نے اس منصوبے کے حق میں رائے دی۔ اس وقت ایک جج لوئس برانڈیز "Louis Brandeis” جو کہ فرینکلین روزویلٹ کا ہمدرد تھا اس نے اس تجویز پر اعتراضات اٹھائے۔ اور پوری گیم کا پانسہ پلٹ دیا۔ دوسری طرف ڈیموکریٹک پارٹی جس کی دونوں ایوانوں میں اکثریت تھی اس نے بھی "نیو ڈیل” کے مسودے کو رد کر دیا۔ بلکہ سینٹ میں اس بل کو 70 کے مقابلے میں 20 ووٹوں سے شکست ہوئی۔یوں صدر کا عدلیہ کو سمیٹنے کا ارادہ دھرے کا دھرا رہ گیا۔کیونکہ وہاں ادارے اور شعور مضبوط تھا۔اسی شعور نے سوشل سیکوریٹی اور نیشنل لیبر ریلیشن ایکٹ کوبعد میں عدلیہ سے بھی منظور کرالیا۔
انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ کسی نہ کسی بہانے اختیارات کا ارتکاز اپنے پاس رکھنا چاہتا ہے۔امریکہ میں بنجمن فرینکلین "Benjamin Franklin” سے 1776 میں ایک بوڑھی عورت نے پوچھا۔
سر ؛ آپ نے ہمارے لئیے کیا کیا ہے۔بنجمین نے جواب دیا کہ ہم نے آپ کو رپبلکن آئین دیا۔خاتون نے دوسرا سوال چھاڑ دیا یہ ریپبلکن آئین کیا ہوتا ہے۔اس کے جواب میں دستور کو تحریر میں لانے والے اس عظیم مفکر نے کہا کہ جمہوریت کے ساتھ دو اضافی چیزیں اس میں سمو دی گئی ہیں۔اختیارات کی تقسیم اور نظام کا چیک اینڈ بیلنس اس کا پارٹ بنا دیا گیا ہے۔ تینوں ریاست کے ستونوں کے درمیان بوجھ کو تقسیم کردیا ہے۔مگر ان فرائض کی بجا آوری کیلئے عوام کو ہمیشہ جوکس رہنا پڑے گا۔غفلت کی صورت میں یہ آپس میں گھتم گتھا ہونگے۔ جس کے نتیجے میں پہلے مرحلے میں خاندانوں کی حکمرانی "Oligarchy” سماج میں سرائیت کرے گی اور پھر دوسرے مرحلے میں انتشار پھیلے ہوگا۔ خالی جمہوریت مافیا "Cartel” کا نام ہے. جس کی ترجیحات میں اکثریت کے بل بوتے پر اجارہ داری قائم کرنا ہوتی ہے۔ بلوچستان کا ہر ایک وزیراعلئی مفت میں نہیں کہتا کہ میں نے ہر تمام صوبائی اسمبلی کے ممبران کو ان کے حلقوں کا وزیرآعلءبنادیا ہے۔اجارہ داری کا یہ مرض ایک کاروبار کی شکل اختیار کرچکا ہے۔پارلیمانی جماعتیں پیسہ کمانے والی مشین بن چکی ہیں۔جیساکہ دور حاضر میں بلوچستان کی اسمبلی میں موجود تمام 65 ممبران نے بجٹ میں اپنا حصہ مقررکر لیا ہے۔ وہ پھر کاغزوں پر منصوبے بناکر اپنے بھائی اور فرنٹ مین کے نام پر ٹھیکیداری پر لگ گئے ہیں۔اس ٹھیکیداری نے انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ذریعے پاپولسٹ سیاست کو ضرور پروان چڑھایا ہے۔ مگر اداروں کو اب بے جان کردیا گیاہے۔ وفاق میں شہباز اور بلاول کی سربراہی میں لیفٹ اور رائٹ کا حکومتی اتحاد اس ریاکاری میں گردن تک ڈوب گیا ہے۔ ادارے اور خاص کر جب معاشی ادارے جامعیت اختیار کرتے ہیں تو پھر سماج میں ممنوعہ دولت کا ارتکاذ چند ہاتھوں میں ناممکن ہوتا ہے۔ کیونکہ نظام میں شفافیت آجاتی ہے ،تب پھر پولیٹیکل ادارے بھی جامعیت کے ساتھ سیاسی استحکام کو بڑھانے پر کام کر تے ہیں۔ (جاری)

اپنا تبصرہ بھیجیں