مکران کی سیاست ٹوکن, صوبائی سیاست فرینڈلی اپوزیشن کی نظر ہوگئی

تحریر: برکت مری
مکران کی سیاست ٹوکن کی اور بلوچستان کی سیاست فرینڈلی اپوزیشن کی نظر ہوگئی جو بارڈری کاروبار غریب عوام کی تھی جس کے زریعے وہ اپنے بچوں کی تعلیم صحت و پیٹ پال کر گزارا کرتے تھے لیکن اچانک اس آزادنہ کاروبار پر پابندی لگا کر پورے پاک ایران بارڈر پر باڑ لگا دیا گیا جو پہلے کسی بھی قسم کی تصدیق و تائید کے بارڈر پر کاروبار کررہے تھے باڑ لگانے کے بعد ایک نئی سسٹم ای ٹیگ اسٹیکر ٹوکن کے ذریعے کرا کر اس کاروبار کو متعارف کیا گیا اس ای ٹیگ اسٹیکر ٹوکن سسٹم میں بہت بڑی پابندی شناختی عمل پیدا کی گئی دن بدن عوام کیلئے مشکل سے مشکل تر بنایا گیا غریب عوام نے اپنے اس کاروبار کو آسان ای ٹیگ اسٹیکر ٹوکن کے آسان حصول کیلئے انہوں نے سیاسی پارٹیوں کے پاس جاکر مدد کی درخواست کی انہی سیاسی جماعتوں نے انہیں سیاسی موقع سمجھ کر میدان میں آئے انہوں نے متعلقہ اداروں کے سربراہان سے ملاقات کئے بعض مسائل پر احتجاج بھی کئے جس میں مولانا ہدایت الرحمان بھی عملی خدمت میں پیش پیش رہے بالآخر کار تمام احتجاج و اظہارِ ناراضگی کے بعد یہ نظام سیکورٹی اداروں سے منتقل ہوکر ضلعی انتظامیہ کے پاس چلی گئی جہاں آل پارٹیز کے ساتھ ساتھ مختلف بارڈر کے حوالے سے کمیٹیاں بنی گئیں جنہوں نے دعویٰ کیا کہ ہم غریب عوام کے روزگار کو آساں بنانے کیلئے جدوجہد کررہے ہیں جنہوں نے موقع سے فائیدہ اٹھایااور یہی غریبوں کا بارڈری کاروبار ان غریبوں سے چھین کر سیاسی جماعتوں کے سربراہان بااثر شخصیت و مافیا کے قبضے میں آگئی جنہوں نے ای ٹیگ اسٹیکر کے خریدوفروخت کا بازار بنا دیا جن کو گاڑیاں ہیں انہیں ای ٹیگ نہیں ملی جنہیں گاڑیاں نہیں ہیں انہیں سیاسی اسررسوخ کی بنیاد پر سو دو سو ای ٹیگ اسٹیکر ملے جنہوں نے اسی کاروبار سے روز اول سے اپنے گھر چلائے انکی گاڑیوں کو ٹرپ نہ ملی جن کے پاس گاڑیاں نہیں ہیں انکے پاس سو سو دو سو ای ٹیگ ہونے کی صورت میں روزانہ رننگ جاری رہا جب دیگر چھوٹے موٹے مافیاز نے دیکھا کہ اس بارڈر و ای ٹیگ اسٹیکر پر سیاسی پارٹیوں نے بڑا فائدہ اٹھایا تو انہوں نے بھی سادہ لوح متاثرہ کاروباری لوگوں کو سیاسی پارٹیوں کیخلاف ورغلا کر اپنی مفادات کی خاطر انہیں مختلف گروپ کے ناموں سے دوہزار یونین زمیاد یونین ڈرائیور یونین بارڈر یونین کے نام متعلقہ اداروں کے سامنے دھرنہ و احتجاج پر لاکر اپنے حصہ کی ای ٹیگ اسٹیکر حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جس کا بنیادی کاروبار تھا وہ محروم ہوا جنہوں نے کبھی سوچا نہ تھا انہیں یہ کاروبار نہ جائز طریقے سے حاصل ہوئے سیاسی پارٹیوں و مافیاز کی گڑجھوڑ سے نہ صرف ای ٹیگ اسٹیکر ٹوکن پر قبضہ رہا بلکہ انہوں نے مختلف چیک پوسٹ قائم کرکے بچے کھچے غریب عوام سے بھتہ لینے شروع کئے جس میں نہ صرف سیاسی پارٹیوں کے سربراہان نے بلکہ اداروں نے ادارتی زمہ داری چھوڑ کر اس بھتے کو دکانداری بنادیا جس کی وجہ سے آج اقتدار جماعت کے کارکنان اپنے سیاسی لیڈروں سے مایوس ہیں اور اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان بھی مایوس ہیں۔
صوبائی سطح پر صوبائی وزیر اعلیٰ جام کمال سے عدم اعتماد کرکے انکی حکومت کو ختم کرنے کے بعد بلوچستان صوبائی اسمبلی میں اپوزیشن کو بھی ختم کردیا گیا جمہوریت میں اپوزیشن جماعتیں ہی اصل نمائندگی کا حق ادا کرنے کے ادارے ہوتے ہیں لیکن بلوچستان میں اپوزیشن اقتدار بینچ حکمرانوں کی بیانیہ کے ترجمانی کررہے ہیں جو بلوچستان کے عوام کی بنیادی حقوق پانی بجلی صحت تعلیم روزگار مواصلات ودیگر ہیں انکی بحالی عوام کو رسائی کو چھوڑ کر مساجد اسکول کے بل کے قراداد تک محدود ہوئے جس مساجد اسکولوں میں بجلی کے بل معاف کرنے کے قرار داد پیش کئے جارہے ہیں جہاں بجلی کا نام و نشان تک نہیں ہے ڈیڑھ سال پہلے جس اپوزیشن نے اسمبلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی تھی آج وہاں خاموشی چھائی ہوئی ہے عوام کے دلوں میں پورے بلوچستان کے عوام میں یہی تاثر پیدا ہوئی ہے کہ جس سیاست کو عبادت کا مقدس فریضہ سمجھا جاتا تھا آج وہ چند افراد کا کاروبار بن گیا ہے اپنی ذاتی مقاصد کی خاطر سادہ لوح عوام کو ورغلا کر سڑک پر لایا جاتا ہے اور مفادات چند افراد اٹھاتے ہیں یہ سیاسی کاروبار نہ صرف سیاسی کارکنوں کیلئے مایوسی ہے بلکہ بلوچ قوم کیلئے قومی نہ قابلِ تلافی نقصان ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں