قوم پرست اور مارکسسٹ صدر کی لاٹری
تحریر: محمد صدیق کھیتران
شہرہ آفاق گارڈین نے اپنے 28 فروری 2000ءکے اخبار کی مرکزی سرخی لگائی کہ دو دن پہلے 26 فروری کو افریقی ملک زمبابوے کے دارالحکومت ” حرارے” میں ایک بینک کی اشتہاری مہم کے دوران سب سے بڑی لاٹری مبلغ ایک لاکھ زمبابوین ڈالر نکلی ہے۔ لاٹری کا انتظام کرنے والا "فالوٹ چواوا Fallot Chawawa یہ دیکھ کر پہلے تو حیران و ششدر رہ گیا پھر اچھل اچھل کر اپنی خوشی کا اظہار کرنے لگا کہ لاٹری پر جس شخص کا نام آیا ہے وہ خوش نصیب اور مقدر والا صدر رابرٹ موگابے ہے۔ اس سے بھی بڑا حسین امتزاج یہ ہوا کہ لاٹری نکلتے وقت قوم پرست انقلابی رہنما خود بھی لاٹری کا چیک وصول کرنے کیلئے اسٹیڈیم میں تشریف فرما تھا۔ لاٹری نکلتے وقت صدر صاحب کی عمر 75 سال تھی۔ وہ 1980ء سے اقتدار پر براجمان تھے۔ زمبابوے کی زمبابوے بینکنگ کارپوریشن” Zinbank ” نے اپنے ایسے صارفین کے لئے ایک لاکھ کی لاٹری کا اعلان کیا تھا جن کے اکاونٹ میں 2000 عیسوی تک 5 ہزارڈالر جمع پڑے تھے۔اس وقت ان کے ملک میں کم سے کم تنخواہ پاکستانی روپے کے حساب سے 7280 بنتی تھی۔لاٹری کی رقم کی اتنی ضرورت صدر رابرٹ موگابے کو تو نہیں تھی۔کیونکہ اسی سال اس نے اپنی اور کابینہ کے ممبران کی تنخواہوں میں 200 فی صد اضافہ کیا ہوا تھا۔ دارصل وہ دنیا کو باور کرانا چاہتا تھا۔کہ اس کی منشا کے بغیر اس کے ملک میں کوئی معاشی سرگرمی کا تصور بھی محال ہے۔ 2008ءکی ایک معاشی رپورٹ کے مطابق زمبابوے اپنی فی کس آمدنی میں 28 سال کے بعد بھی ایک پائی کا اضافہ نہیں کرسکا۔ عوام کا میعار زندگی ایک چوتھائی صدی کے بعد بھی اسی جگہ پر ساقط کھڑا ہوا ہے۔ صحت عامہ کی صورت حال اتنی ابتر تھی کہ 2009ءمیں 98741 افراد کو ہیضہ جیسی بیماری ہوئی۔ جن میں سے 4293 لوگ موت کے منہ میں چلے گئے۔ اقوام متحدہ کی دوسری رپورٹ کے مطابق ملک کے 94 فیصد افراد بیروزگار تھے۔ اس وقت ملک کی کل آبادی بلوچستان کے برابر یعنی 12.68 ملین تھی جبکہ اس کا رقبہ بھی 390745 مربع کلومیٹر ہے۔ جہاں سفید فام صرف 28732 رہ گئے تھے۔ ایسٹ انڈیا کمپنی کی طرح 1890ء میں "سسل رہوڈز برٹش جنوبی افریقہ کمپنی” نے ایک فوجی وفد ریاست رہوڈز کے بادشاہ کو بھیجا۔وہ وفد بادشاہ کے شہر” میتا بلیلنڈ ” سے ہوتا ہوا دوسرے قبیلے کے صدر مقام ” ماشونالینڈ ” تک جا پہنچا۔وفد فوجیوں پر مشتمل تھا اور ان کے پاس بندوقیں تھیں۔ انہوں نے اسی سفر کے دوران ہی دونوں قبیلوں پر قبضہ کرلیا۔11 سال تک وہ بغیر کسی عذر اور انتظام کے ان پر حکمرانی کرتے رہے۔آخرکار 1901ءمیں اس مفتوح علاقے کو ملک ” رہوڈیشیا” کے نام سے کالونی قرار دے دیا۔آگے چل کر اس کا نام بدل کر زمبابوے رکھا گیا۔چونکہ یہ علاقہ کمپنی نے قبضہ کیا تھا۔اسلئے ساری زمینیں بھی پرائیویٹ کرلی گئیں۔ رہوڈیشیا کی عوام کو سبز باغ دکھائے گئے۔کہ علاقہ معدنی دولت ہیرے، سونے اور تیل سے بھرا پڑا ہے۔کمپنی یہاں پر بڑی سرمایہ کاری کریگی۔کان کنی اور تیل کی تلاش میں مشینری لگائے گی۔علاقے میں خوشحالی آئے گی۔مظلوم عوام معدنیات نکالنے کا انتظار کرتے کرتے رہ گئے۔دوسری طرف سفید فام اقلیت زمینوں پر قابض ہوتی گئی۔زمینوں پر قبضے کرنے کے بعد 1923 میں سفید فام مالکوں نے کمپنی سے استعفے دے دیئے اور کمپنی کے معاملات ماسوائے زمینوں کی ملکیت سے لاتعلق ہوگئے۔انہوں نے ساتھ ہی برطانوی حکومت کو درخواست دے ڈالی کہ اب ان کو زمبابوے میں حکومت کرنے کی اجازت دے دی جائے۔توقع کے عین مطابق برطانیہ نے سفیدفام نسل پرستوں کو حکومت بنانے کی اجازت دے دی۔دوسری عالمی جنگ جیتنے کے باوجود برطانیہ معاشی طور پر نڈھال ہوکر اپنے جزیرے تک محدود ہوگیا۔ تو اس نے نوآبادیاتی ریاستوں کو آزادی دینا شروع کی۔ اس تسلسل میں 1965 کو زمبابوے کے سفیدفام” آئن سمتھ Ian Smith ” نے اپنی نسل پرست ریاست کا اعلان کیا۔اس وقت سفید فام ملک کی کل آبادی کا صرف 5 فیصد ہوتے تھے۔کچھ عالمی ملکوں نے اس نسل پرست حکومت کو تسلیم بھی کیا مگر اقوام متحدہ نے زمبابوے پر عالمی پابندیاں لگادیں۔ مجبور ہوکر 95 فیصد آبادی نے نسلی امتیاز اور جمہوری آزادیوں کیلئے بغاوت کااعلان کیااورگوریلا جنگ شروع کی۔ابتدا میں آزادی پسندوں کی دو علیحدہ علیحدہ تنظیمیں بنی تھیں۔ان میں ایک کا نام "زمبابوے افریکن نیشنل یونین” اور دوسری کا ” زمبابوے افریکن پیپلز یونین” تھا۔ پہلی والی جماعت جس کے سربراہ ربرٹ موگابے تھے اس کو روس اور کیوبا کی حمائت حاصل تھی۔دوسری جماعت جس کے سربراہ جوشا کوما تھے اس کو چین کی سرپرستی حاصل تھی۔ جنگ و جدل اور گشت و خون ہوا۔ 1980ءمیں "جوشا کوما” کی سربراہی میں سیاسی مذاکرات ہوئے تو ملک کو آزادی مل گئی۔رابرٹ موگابے افریکن نیشنل یونین کا انقلابی راہنما تھا۔وہ اپنے آپ کو بڑے طمطراق سے مارکسسٹ لیننسٹ کہتا تھا۔ آزادی کے بعد 1987ءتک وہ وزیراعظم رہا۔اس نے اپنی کمانڈ میں میٹالیلنڈ میں چڑھائی کی۔ اس جنگ میں 20 ہزار مخالفین کو موت کے گھاٹ میں دھکیلا گیا۔اپوزیشن کو طاقت کے زور پر کچلا گیا۔اسلحے کے زور پر دوسری آزادی پسند تنظیم زمبابوے افریکن پیپلز یونین کو اپنی جماعت میں زبردستی ضم کیا گیا۔جوشا کوما کو کھڈے لائن لگاکر نیا آئین بنایا اور خود صدر بن گیا۔ساتھ ہی ملک میں سنگل پارٹی نظام کو نافذ کردیا۔ایسی جمہوریت کی بنیاد ڈالی جس کے ممبران کی نامزدگی وہ خود کیا کرتا تھا۔ریاست کی تمام نوکریاں اپنی جماعت کے ممبران میں تقسیم کردیں۔مگر اقتدار چھن جانے کے خوف سے طاقتور سفیدفام نسلی آبادی کو کچھ نہیں کہا۔ جبکہ سیاہ فام اکثریت کے لئے ترقی کے دروازے بند کئے رکھے۔ تجارت اور منڈی کو اپنے انگوٹھے کے نیچے دبائے رکھا تاکہ درمیانہ طبقہ پیدا ہی نہ ہو۔ ملک غربت کے دلدل میں پھنستا گیا جب صورت حال ورلڈ بنک اور آئی ایم ایف کے قابو میں نہ رہی تو 1995ءمیں ایک سیاسی تحریک برائے جمہوری تبدیلی ” موومنٹ فار ڈیموکریٹک چینج” کے نام سے میدان میں آئی۔اس وقت تک ربرٹ موگابے ایک آزمودہ کار آمر بن چکا تھا۔اس نے پھر بھی ڈھٹائی سے اسی سال بھی 120 میں سے 118 سیٹوں پر اپنی جماعت کی جیت کا اعلان کروا دیا۔ وقت گزرتا دیر نہیں لگتی۔پھر 2000ءکے انتخابات میں مظالم اور قتل عام کے باوجود اس کی جیت دکھاوے کی حد تک 56 فیصد رہ گئی تھی۔ آمر پر جب مشکل وقت آتا ہے تو تشدد اور جبر کے نئے راستے ڈھونڈتا ہے۔اس نے بھی اپنی غیر مقبولیت دیکھ کرسفید فاموں کی زمینوں پر قبضے شروع کردئیے جس سے ملک کی رہی سہی زراعت تباہ بھی ہوگئی غربت انتہا کو پہنچ گئی۔ملک کی کرنسی کی قدر ڈوبتی گئی۔کوئی اس کرنسی کولینے والا نہیں تھا۔ ملک میں ہیپر انفلیشن "Hyper inflation” کا دور دورہ تھا۔ہر ایک گھنٹے کے بعد مقامی ڈالر کی قدر کم ہورہی تھی۔مجبور ہوکر حکومت کو جنوری 2009ءمیں اعلان کرنا پڑا کہ غیرملکی خاص کر جنوبی افریقہ کی کرنسی کو ملک میں تجارت کیلئے استعمال کی اجازت ہے۔جب کوئی سیاسی یا عسکری جماعت اپنی لیڈرشپ کو تربیت کے ساتھ جواب دہ نہیں بناتی تو بے مغز مارکسسٹ انقلابی بھی 95 سال کی عمر تک اقتدار چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے۔وہ اپنے اقتدار کے 40 سال تک قوم کی فی کس آمدنی بڑھنے نہیں دیتے۔ یہ اتنے خوش قسمت ہوتے ہیں کہ ان کی اپنی تو لاٹریاں بھرے میلے میں نکل آتی ہیں مگر ان کی عوام کے 5 ہزار افراد ہیضے کی دوائی نہ ملنے کی وجہ سے مر جاتے ہیں۔ ایسے رہنما اپنی آزادی کی جدوجہد میں 1964ءسے لیکر 1974ءتک جیل کاٹنے کا باوجود زاتی اقتدار کو طول دینے کیلئے 20 ہزار سیاسی مخالفین کو قتل کردیتے ہیں۔ وہ جب پیران سالی میں چلنے پھرنے کے قابل نہیں ہوتا تو پھر اپنی بیوی کو جانشین بنالیتا ہے۔پھر کہیں جاکر 2017 میں اس کو اس کی اپنی جماعت کے نیب صدر "ایمرس مارنگوا” نے اقتدار سے معزول کیا۔موگابے کی تین اعزازی ڈگریاں دیگر حکومتوں کو واپس کرنی پڑیں کہ وہ مطلق العنان بن کر اپنی عوام کے لئے وبال جان بن گیا ہے۔
جب آپ نئی دنیا میں مہم جوئی کرتے ہیں (When you venture in uncharted tertorries) تو پھر عملی زندگی میں بڑے بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تیاری نہیں ہوتی تو بغیر سیاسی تربیت اور اداروں کے افغانستان کی طرح رہنماوں کا آپسی قتل عام شروع ہوجا تا ہے۔بندوق اور عالمی حالات کے زور پر حکمرانی تو کبھی کبھار مل بھی جاتی ہے مگر عوام کو آزادی نہیں ملا کرتی۔نظریات کا علم و ادراک رکھے بغیر اس کا استعمال بھیڑ کی کھال میں بھڑیئے کے روپ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعتیں جب تک اپنے لئے مضبوط احتسابی ادارے، زمانے سے ہم آہنگ دیانت دار "Best Honest” اشخاص ، عوام اور سیاسی کارکنوں کو جوابدہ پختہ ذہن "Sound Mind” اور پائیدار "Reliable ” اعلئی اخلاقی کردار ” Moral compassions ” جو عوامی مفاد عامہ کا درد دل رکھنے "Devoted to public interest "والی سیاسی کھیپ تیار نہیں کرتیں۔اس وقت تک جتنی بڑی قربانیاں دی جائیں۔ان قربانیوں کے ارمانوں کا حاصل ممکن نہیں۔بلکہ معاشرے کیلئے نتائج الٹا تباہ کن ہو جاتے ہیں۔ملک میں حکمران اشرافیہ کی موج لگ جاتی ہے۔اپنی جماعت کے کچھ بدعنوان رہنماﺅں کی ایک کلاس ضرور اگ آتی ہے۔مگر پھر سریالیون کی طرح مقامی جاگیردار اور سردار عوام کا جینا دو بھر کر دیتے ہیں۔نئی ریاست میں اختیارات سکڑ کر ان کے ہاتھ میں آجاتے ہیں۔جس سے وہ اپنے ذاتی مسلح جتھے تشکیل دیتے ہیں۔آسانی سے ججوں کو خرید لیتے ہیں۔ انتخابات کے وقت دھاندلی کروا کر اپنے اقتدار کو قانونی حیثیت دلوا دیتے ہیں۔آگے کام بطور شریک کار وہ اس بدعنوان نظام کے طرف دار بن کر کر تے ہیں۔آج سے 40 سال پہلے 1980ءکی دہائی میں ہمارے 90 فیصد جمہوری حکمران بشمول سرادران معاشی طور پر بہت بدتر تھے۔ ان کی غربت اور تنگ دستی کی کہانیاں زبان زد عام ہوا کرتی تھیں۔ بلکہ ان کو اپنی موروثیت کو بچانے کیلئے اسٹیبلشمنٹ کی سیاہ کاری میں حصہ ڈالنا پڑتا تھا۔ انقلابی بھی مایوس ہوکر ان کے لئے میدان کھلا چھوڑتے رہے۔ جمود توڑنا ہمیشہ سے مشکل ،صبر آزما اور محنت طلب کام رہا ہے۔ دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ سے مل کر ان نام نہادجمہوری سرداروں نے اتنی ناجائزدولت اکھٹی کرلی ہے کہ اب وہ آسانی سے بزور طاقت حکمرانی پر قبضہ قائم رکھ سکتے ہیں۔ بلوچستان کی سطح پر دوسرا بڑا ظلم یہ ہوا کہ ہرایک ایم پی اے اور سیاسی رہنما نے اپنی اپنی الگ الگ سیاسی جماعت بنا ڈالی ہیں۔ صف بندی کے حوالے سے صورت حال اس وقت جتنی گمبھیر ہے پہلے کبھی نہیں ہوا کرتی تھی۔ معاشرے میں مایوسی پھیل چکی ہے اور نوجوان دو انتہاوں کی طرف رخ کر گئے ہیں جس کو روزگار نہیں ملا وہ گروپ پہاڑوں کا رخ کرگیا ہے۔ جبکہ باقیوں نے گاڑی پر مارخور کے سینگ سجا دیئے ہیں۔ سیاسی بقراطوں نے سماج کو سیکرٹریٹ اور اسمبلی میں بیٹھے چوروں اور لفنگوں کے حوالے کردیا ہے۔ حقیقی جدوجہد پر یقین رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے پاس اپنی قیادت اور کارکنوں کو اخلاقی و سیاسی تربیت دینے کے علاوہ کوئی نعم البدل بچا ہی نہیں ہے۔ وگرنہ بغیر تدبیر غلامی تا دیر سب کا مقدر بنی رہے گی۔