وہ جو فدا ہو کر امر ہوگئے
تحریر: شکور بلوچ
مکران کسی بلوچ کے لیے اتنا ہی افضل ہے جیسے کسی مسلمان کے لئے مکہ، کسی عیسائی یا یہودی کے لیے یروشلم۔ میں تو کہتا ہوں کہ اگر کرہ ارض پر مکہ مکرمہ کے علاوہ کسی طرف رخ کر کے سجدہ کرنا جائز ہوتا تو بلوچ مکران کی طرف رخ کر کے سجدہ کرتے۔
اسی مکران کے شہر تربت میں 1957ءمیں واجہ غلام محمد کے گھر ایک بچے کی پیدائش ہوتی ہے۔ بچے کا نام فدا رکھ دیا جاتا ہے۔ فدا بلوچ نے 1971ءمیں آبائی شہر تربت سے میٹرک پاس کیا اور اسکول کے زمانے سے ہی بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن سے وابستہ ہوکر ایک کٹھن، خاردار مگر با وقار سیاسی سفر کا آغاز کیا۔ تربت سے ہی انٹر کے امتحانات پاس کئے اور اسی دوران بی ایس او کے عہدیدار بنے۔ بعد ازاں کراچی جانا ہوا لیکن تنظیمی رہنماﺅں نے انہیں شال میں تنظیمی ذمہ داریاں سونپ دیں جو انہوں نے بخوشی قبول کی۔
22 اگست 1978ءکو بی ایس او کے مرکزی کونسل سیشن میں تنظیم کے سیکرٹری جنرل منتخب ہوئے اور تنظیم کے نو منتخب کابینہ کی تقریب حلف برداری بھی وہی ہوئی۔ تقریب میں ملک کے طول و عرض سے ترقی پسند طلبا رہنماﺅں نے شرکت کی اور بیرون ملک سے خیر سگالی کے پیغامات بھی موصول ہوئے۔
فدا بلوچ جب شال آئے تو انہوں نے جامعہ بلوچستان میں براہوی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی اور اس کے بعد نہ صرف وہ براہوی بولتے تھے بلکہ لکھتے اور تقریر بھی کرتے تھے۔
فدا بلوچ بلوچ قوم پر ہونے والی بیرونی یلغار کیخلاف برسرِ پیکار رہے، وہ بلوچ قوم پر ہونے والی جبر و نا انصافیوں کیخلاف عملی جدوجہد کرتے رہے۔ انہوں نے تنظیم میں اسٹڈی سرکلز اور فکری مباحثوں کا رجحان بڑھایا۔ انہوں نے ساتھیوں کے ساتھ مل کر تنظیم کا سیاسی پرچہ "پجار” چھاپا۔ وہ کارکنوں کے ڈسپلن پر بہت زور دیتے تھے۔ ان سے منسوب ایک قصہ بہت مشہور ہے کہ جب وہ جامعہ بلوچستان میں بی ایس او کے سرکل پر بیٹھے تھے تو ایک تنظیم کے ایک رکن سرکل میں آکر بیٹھا جس نے اپنا سر منڈوایا تھا اور سر پر کوئی ٹوپی یا رومال بھی نہیں پہنا تھا۔ کامریڈ فدا نے اس رکن کو ڈانٹا اور کہا کہ آپ کوئی غنڈہ نہیں ہیں جو اس طرح آئے ہیں جاﺅ جا کر سر ڈھانپ لو اور پھر سرکل میں آجاﺅ۔
فدا بلوچ بلوچ قوم کی مظلومیت کا ذمہ دار بیرونی یلغار کے ساتھ ساتھ اندرونی طبقاتی نابرابری کو بھی سمجھتے تھے، ان کا ماننا تھا کہ اندرونی طور پر طبقاتی نابرابری کے ہوتے ہوئے کبھی بھی بلوچ یکجا ہو کر بیرونی دشمن کے خلاف کوئی مضبوط محاذ نہیں بناسکتے۔
فدا شہید کے پر فکر خیالات سے خوفزدہ دشمن نے انہیں اپنے راستے سے ہٹانا اور ہمیشہ کے لئے خاموش کرانا چاہا۔ بالآخر دو مئی 1998ءکو تربت میں جب وہ اپنی کتابوں کی دکان میں بیٹھے تھے تو انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن مزاحمت پر انہیں گولی مار کر شہید کیا گیا۔ دشمن سمجھتا تھا کہ فدا کو جسمانی طور پر ہم سے جدا کرنے کے بعد ان کے سامنے سے رکاوٹ ہٹ جائے گی مگر فدا تو چراغ تھے اور تب تک وہ روشنی کے کئی ہزاروں چراغ روشن کرچکے تھے۔ فدا کے نظریات و خیالات آج بھی دشمن کے سامنے رکاوٹ ہیں، دشمن آج بھی ان کے خیالات سے خوفزدہ ہے۔ فدا روشنی تھے اور اندھیروں کو شکست دے چکے تھے، فدا خوشبو تھے اور فضا کو معطر کر چکے تھے، وہ فدا ہو کر امر ہوچکے تھے۔
مصطفی زیدی فرماتے ہیں کہ:
کس قفس سے غمِ دل قید ہوا ہے اب تک
کس کے فرمان کی پابند ہے رفتار ِ فلک
کون سی رات نے روکی ہے ستاروں کی چمک
کس کی دیوار سے سمٹی ہے چنبیلی کی مہک
دشتِ ایثار میں کب آبلہ پا ر±کتا ہے
کون سے بند سے سیلابِ وفا رکتا ہے