کوچ وبلوچ ،تاریخ کے تناظر میں
تحریر: ڈاکٹرزاہد دشتی
بلوچ قوم اور بلوچستان کے حوالے سے ہمیں مختلف حوالے ملتے ہیں جہاں اس کی جغرافیائی اہمیت، ادبی، ثقافتی اور تاریخی اہمیت کی بات کی جاتی ہے تو دوسری جانب بلوچستان میں بسنے والے لوگوں کی خصوصیات مورخین او ردانشوروں کے موضوع رہے ہیں ۔ نامو ر دانشور طاہر بزنجو اپنی کتاب”گریٹ گیم اوربلوچستان“ میں بلوچستان کی اہمیت کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔
”بلوچستان اپنے محل وقوع کے اعتبار سے جدید تاریخ میں ہمیشہ عالمی اور علاقائی طاقتوں کی گہری توجہ کا مرکز بنتا رہا ہے اسی لئے تو تاج برطانیہ نے اپنے اسٹریٹجک مفادات کے تحت بلوچستان کو فتح کرنا ضروری سمجھا اور اپنے خلاف کسی متوقع بغاوت یا طاقتور قومی تحریک کے ابھرنے کے امکانات کو ختم کرنے کے لئے نہ صرف بلوچستان کو مختلف حصوں میں تقسیم کر دیا بلکہ اس کے بعض حصے اور ٹکڑے ہمسایہ اقوام کو تحفے میں دے دیئے چونکہ یہ علاقہ زار روس کے لئے بھی زبردست پرکشش تھا اس لئے سالہا سال کی باہمی کشمکش کے بعد اپنی ضروریات اور مفادات کے تحت برطانیہ او رزار روس نے افغانستان سے لے کر ایران تک کے چاروں اطراف میں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر اپنے Sphere of influence کا تعین کیا۔ مثلاً 1907ءکے اینگلو روس معاہدے کے تحت ایران کے جنوبی علاقے پر برطانیہ کے تسلط اور شمالی علاقے پر روس کی بالادستی کو قبول کیا گیا۔“ (بزنجو،2006ءص،23)
بلوچستان کے حوالے سے بلوچوں نے اپنی بود و باش اور سیاسی نظام میں خاطر خواہ مقام حاصل کرنے کے لئے ہر وقت اپنی جدوجہد جاری رکھی۔اس ضمن میں اگر بلوچستان پسماندہ رہا تو اس کی وجہ بھی یہ ہے کہ یہاں کے فیصلے مختلف موقعوں پر ایسے افراد نے کئے جو نہ صرف بلوچستان کے حقیقی نمائندے تھے نہ ہی اور بلوچ قوم کے رہبر اس ضمن میں معروف صحافی مقبول رانا اپنی کتاب ”بولان نامہ“ میں تحریر کرتے ہیں۔
”تاریخ کے فیصلے قوموں کی تاریخ میں انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے ہیں ۔ اگر یہ فیصلے بروقت دور اندیشی اور حالات و واقعات کا صحیح ادراک کرکے کئے جائیں تو ان سے قوموں کا حال او مستقل سنوراور نکھر جاتا ہے اور اگر فیصلے ذاتی پسند و ناپسند،ہٹ دھرمی، کوتاہ فکری اور حالات او رحقائق کا صحیح محاکمہ اور احاطہ کئے بغیر کئے جائیں تو ان کے نتایج ہمیشہ بھیانک نکلتے ہیں اور ا س کی سزا قوموں کو قرن باقرن تک بھگتنی پڑتی ہے۔“ (رانا ،2016 ءص،24)
بلوچ قوم کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے ہم کہیں کہ ”بلوچ“جو عرف عام میں بلو چ، بلوش، بلوص، بیلوس کے طور پر تاریخ کے اوراق میں نمایاں ہے مختلف نظریوں کی وجہ سے آج بھی زوال سے دور رہا۔ بلوچ جو کبھی شام کی سبز وادیوں کے مکیں رہے تو کبھی عراق، ایران، ترکی، ترکمانستان او رافغانستان کے باسی رہے تو کبھی اپنے آباءاجداد کے وطن کو خیر باد کہہ کر شام و حلب میں اپنے مخصوص طرز حیات کے مطابق زندگی بسر کرتے رہے زمانے نے انہیں ہجرتوں پر مجبور کیا۔ بلوچ اپنے فطری ماحول انداز اور خصوصیات کی وجہ سے ہمیشہ اپنے عہد کے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف نبرد آزما نظر آتے رہے۔ بلوچ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ آزاد منش زندگی گزارتے ہیں جب بھی کسی فرد، قوم، قبیلہ کو مظلوم پایا تو اس وقت کے ظالم حکمرانوں کے خلاف کھلم کھلا مظلوموں کا ساتھ دیا۔ ایرانی باشندوں کے لوٹنے، قتل و غارت گری گاﺅں گاﺅں، شہر شہر لوٹ مار کے الزام اور ایرانی کسانوں کی زرعی اراضی لوٹنے کے جرم میں ایرانی کسانوں نے عادل نوشیروان کے دربار میں فریاد کی۔ نوشیروان بلوچوں کو سبق سکھانے کے لئے ایک لشکر لے کر ان کی سر کوبی کے لئے نکلا۔ اس نے اپنی سپاہ کو حکم دیا کہ جہاں کہیں بھی بلوچ نظر آئے تہہ تیغ کر دیا جائے۔ نوشیروان کی فوج نے بادشاہ کا حکم پاکر بلوچوں کو اس طرح قتل کرنا شروع کردیا کہ ان کو وہاں سے بھاگ کر موجودہ بلوچستان کے بلندو بالا پہاڑوں، چٹیل میدانوں اور صحراﺅں میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا اور پھر کبھی انہوں نے ایران واپس جانے کا سوچا نہیں تاہم اب بھی بہت سے بلوچ ایران میں رہتے ہیں۔
بلوچوں کی تاریخ بیان کرنے کے لئے ہم مختلف مورخوں کی آراءکو سامنے رکھیں گے۔ گل خان نصیر اپنی کتاب ”کوچ و بلوچ“ میں بلوچوں کی نسل کے بارے میں ابو القاسم فردوسی کے شاہنامہ اور دوسرے تاریخ دانوں کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ”بلوچ کے ساتھ ایک او رنام کوچ لازم و ملزوم کے طور پر آتا رہا ہے۔ میر گل خان نصیر نے بھی انہی آراءکو بلوچ نسل کو بیان کرنے میں بطور ریفرنس پیش کیا ہے۔
”مسٹر لانگ ورتھ ڈیمز اور بعض دوسرے مورخین بلوچستان کے موجودہ براہوئی قبائل پر کوچ نسل ہونے کا گمان ظاہر کرتے ہیں۔ براہوئی قبائل بلوچستان میں منتشر صورت میں آباد ہیں۔ بلکہ ساتھ ساتھ اور ٹھوس حالات میں قلات کے گرد و نواح میں اونچے پہاڑوں پر اور اُن کی وادیوں میں آباد ہیں او رشمال مشرقی بلوچوں کو مکمل اور قطعی طورپر مکرانی بلوچوں سے جدا کرتے ہیں“۔ (نصیر،1995ءص،13-14)
بلوچستان کی ایک بڑی آبادی براہوئی زبان بولتی ہے ۔ مگر ان کا بلوچستان مسکن ہونے کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو بلوچوں سے جدا نہیں سمجھتے۔ اس ضمن میں نامور مورخ گل خان نصیر لکھتے ہیں ;۔
”یہ براہوئی کون ہیں؟ آیا واقعی ان کو کوچ نسل کہہ سکتے ہیں؟ جس کا فردوسی او ردوسرے مورخین نے ذکر کیا ہے آیا بلوچوں کے ساتھ اُن کا کوئی نسلی رشتہ ملتا ہے ۔ اور ہم ان کو اس اعتبار سے بلوچ کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟
”یہ چند ایسے سوالات ہیں جو آج بھی ہمارے سامنے ہیں تاریخ کے علم سے وابستہ بعض لوگوں نے اپنی اپنی بساط کے مطابق ان سوالات کے جواب دینے کی کوشش کی ہے لیکن ا ب تک کوئی ایسا جواب نہیں ملا جسے درست تسلیم کیا جاسکے ۔“ (نصیر ،1995 ءص،13-14)
ہم ان محققین و مورخین کی تاریخی بحث کی تفصیل میں جانے کے بجائے خود براہوئیوں کی روایات، کردار و گفتار سے ان سوالوں کے جواب تلاش کریں گے۔
٭براہوئی کہتے ہیں کہ ہم ابراہیم کی اولاد ہیں او ربراہوئی اسی ابراہیم کا بگڑا ہوا نام ہے۔
٭یہ کہ ہم حلب سے ہجرت کرکے آئے ہیں۔ مسٹر لانگ ورتھ ڈیمز بھی براہوئیوں کے اس دعوے کو کسی حد تک تسلیم کرتے ہیں۔
٭ براہوئی جب سے بلوچستان میں زندگی بسر کر رہے ہیں یا جب سے اُن کا سراغ ملا ہے خود کو بلوچ اور بلوچستان کو اپنا وطن کہتے چلے آرہے ہیں۔ چنانچہ خوانین قلات جو سب سے بڑے براہوئی ہیں جن کی ایک زمانے میں ڈیرہ غازی خان سے لے کر کرمان تک اور دریائے ہلمند سے ساحل سمندر تک تمام بلوچستان پر حکومت رہی ہے۔ ہمیشہ اپنے آپ کو بلوچ کہتے رہے بلکہ اپنی بلوچیت پر فخر بھی کرتے رہے۔ یہی وجہ تھی کہ احمد شاہ ابدالی نے جب نصیر خان اول سے اُن کی مملکت کی حدود دریافت کیں تو انہوں نے صرف اتنا ہی کہا کہ ”جہاں تک بلوچ آباد ہیں وہاں تک میری مملکت کی حدود ہیں“
بلوچوں کی نسلی تاریخ کے بارے میں ڈاکٹر محمد اسماعیل البوشہری اپنی کتاب ”بلوچ تاریخ اور عرب تہذیب“ میں لکھتے ہیں۔
”یہ ایک ایسی قوم ہے جس نے ایران کی ساسانی سلطنت کے جابر حکمرانوں کی سرکشی کا علاج (یمن کی بنی ہوئی) مشرقی تلواروں سے کیا اور عراق، ایران اور مکران کے تمام علاقوں او رقوموں پر بزور شمشیر اپنا غلبہ قائم کیا“(البوشہری،2008ئ،ص 14)
مصنف بلوچوں کو عرب نسل قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔
”جیسا میں بلوچوں کے متعلق پڑھا ویسا ہی انہیں پایا۔ میں نے عربوں کی دلیری، شرافت اوراعلیٰ اخلاق کا اُن میں مشاہدہ کیا اور ان کے حسب ونسب کو نہایت اعلیٰ اور معاشرتی اقدار کی جڑوں کو بہت راسخ پایا۔ بلوچ قبائل نے اپنے آباءاجداد کی طرح عرب اسلامی کی روایات کے مطابق آزاد زندگی گزارنے کا اراد ہ کیا ۔ اور اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے کی وجہ سے اور عظمت دائمی بقاءان کا مقدر بنی۔ ان کی قدیم تہذیب اور باقی ماندہ آثار اس امر کی شہادت دیتے ہیں او راس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ ان کی شاندار تاریخ کو سنہری حروف میں لکھا جائے“ (البوشہری، 2008ءص 14)
مصنف بلوچوںکے عرب نسل ہونے کا ایک او رثبوت پیش کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ:۔
”بلوچوں کی گزشتہ تاریخ سے اس امر کی شہادت ملتی ہے کہ وہ خصوصیات او ر نسلی اعتبار سے ایک عرب قبیلہ ہیں۔ بلوچ ایک ایسے معاشرے میں زندگی گزارنا پسند کرتے ہیں جو مہر و وفا، صدق و امانت، مساوات و بھائی چارے کے جذبات سے بھرپور ہو ان کے قبائل ان کے رسم و رواج اور وایات پر فخرکرتے ہیں جس کی وجہ سے مختلف تہواروں اور ایام میں ایک جگہ جمع ہوجاتے ہیں او راس کے علاوہ مسجد میں نماز کی ادائیگی او رمنبر پر تلاوت قرآن اور احادیث کی سماعت کے لئے جمع ہونا بھی ان کاقابل فخر روایت ہیں البتہ ان کی عربی زبان اس علاقے کی مناسبت سے جہاں وہ رہائش پذیر ہیں بدل گئی ہے او ر اب بلوچی زبان کو سینے سے لگائے ہوئے ہیں۔ مگر وہ بلوچ قبائل جو خلیجی ریاستوں میں آباد ہیں بدستور عربی زبان کو اپنائے ہوئے ہیں اور عربی شکل و شباہت او رخدوخال کے ساتھ تمام تفرق گروہوں میں پائے جاتے ہیں ان کا تعلق عربوں سے ہے“ (البوشہری، 2008ءص 14)
بلوچوں کے بارے میں یہ امریقین سے کہی جاسکتی ہے کہ ان کی آپس میں محبت او ر اتفاق کی دوسرے اقوام مثالیں دیتے ہیں۔ اس کی کئی مثالیں تاریخ میں ہمیں ملتی ہیں۔ مگر بعض مورخین اس حوالے سے الگ رائے رکھتے ہیں وہ سمجھتے ہیں کہ بعض کردار ایسے بھی رہے ہیں جن کا کردار ایک سوالیہ نشان ہے تاہم بلوچ شخصیات یا بلوچستان کے باسیوں کے حوالے سے پروفیسر عزیز محمد بگٹی اپنی کتاب ”بلوچستان شخصیات کے آئینے میں“ لکھتے ہیں۔
”بلوچستان کی نسلی ابتداپردہ اخفاءمیں ہے۔ ہمارے بعض ابھرتے ہوئے تاریخ نویس،بلوچوں کے ڈانڈے بابل اور اس کے قرب و جوار سے ملانے کی کوشش کرتے رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے ان کے حسن قیاس او رجذباتیت کے سوا کچھ اور نہیں انہیں ”پدرم سلطان بود“ کی مصداق، عظیم اسلاف کی باقیات الصالحات ہونے کا غلط احساس تفاخر ہے۔ اسی لئے وہ ہمیں یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ ہماری نسبت ایسی قوم سے ہے جس نے تاریخ انسانی پر عظمت و سطوت کے گہرے نشان چھوڑے ہیں۔ اسی مقصد کے پیش نظر وہ یہ داستان طرازی کرتے ہیں کہ بلوچ ’، کلدانیوں کی اولاد ہیں وہ انہیں اس بمل دیوتا کے اخلاف بھی قرار دیتے ہیں جس کے متعلق روایت ہے کہ تمام آبائی بابل موت کے بعد اسی کی آغوش میں روپوش ہوئے۔ نمرود کی اولاد بھی بناتے ہیں۔حالانکہ اس کے تو کوئی اولاد نہ تھی اور ہوتی بھی کیسے! وہ ایک تخیلی او ر فرضی شخصیت ہی تو ہے۔“ (بگٹی،1994ئ، ص،7)
ممتاز بلوچ شاعر او ر ادیب میر گل خان نصیر بلوچوں کی نسلی تاریخ کو تین مختلف ادوار میں او رتین طائفوں میں تقسیم کرنے کی بات کرتے ہیں وہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں۔
”بلوچوں کا طائفہ اول قدیم سے آج تک ایشیاءمیں ایک خانہ بدوش قوم چلی آرہی ہے بعض تاریخ دانوں کا خیال ہے کہ بلوچ کے معنی ہیں خانہ بدوش بادیہ نشین کے ہیں یہ قوم قدیم زمانے میں عربستان میں وجلہ و فرات کی گودیوں او رحلب کے مرغزاروں میں ایرانی سرحد کے ساتھ ساتھ آباد تھی او رایران میں تبریز سے کوہ البرز کے دامن میں مشہد تک پھیلی ہوئی تھی۔“ (نصیر، 1995ءص،1)
گل خان نصیر مزید لکھتے ہیں: ۔”قدیم زمانے کے بلوچ مضبوط البدن بہادر جفا کش تھے ہمیشہ آزاد رہنا پسند کرتے تھے ان کے اپنے ملک میں سکندر اعظم کے وقت سے لڑائیوں کا سلسلہ رہا۔ یہاں سے فن سپاہ گری ان کے خون میں شامل ہے ۔ انہیں اپنے ہی ملک میں سکندر اعظم کے وقت سے لڑائیوں کا ہنگامہ رہا ہے ۔ یہیں سے فن سپہ گری سیکھا تھا جان ہتھیلی پر رکھ کر آزادی کے لئے لڑتے تھے “ (نصیر، 1995ءص،4)
میر گل خان نصیر شاہنامہ فردوسی کا حوالہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:۔”عادل نوشیروان کے 531ءعہد میں بلوچ کوہ البرز (جسے فردوسی نے برز کوہ لکھا ہے) کے گرد ونواح میں آباد تھے۔ (نصیر، 1995ءص،4)
اس بحث کو آگے لے جاتے ہوئے انتہائی قدیم تاریخ کو تحریر کرتے ہوئے بلوچوں کے طائفہ دوئم کی تاریخ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔
”یہ طائفہ دجلہ و فرات او رحلب میں آباتھا۔بنو اُمیہ کے امیر یزید بن معاویہ کے عہد میں بلوچوں نے حضرت امام حسین ؓ کی حمایت کی ،کربلا کی جنگ میں حضرت امام حسین ؓ کی شہادت کے بعد بلوچ وہاں سے نکل کر حلب کے پہاڑوں میں پناہ گزین ہوئے اور گزر معاش کے لئے میدانی و زرعی علاقوں اور شہروں کو لوٹتے رہے۔ آخر کار بنو اُمیہ کے گورنر حجاج بن یوسف نے بلوچوں کو بھی عراق او رکوفیوں کی طرح تہہ تیغ کرنا شروع کیا ۔ بلوچوں کو مجبوراً پہاڑوں کا رخ کرنا پڑا روایت ہے کہ سردار جلال خان کے سرکردگی میں بلوچوں کے چوالیس (44) قبیلے حلب سے ہجرت کرکے ایران آئے اور بمقام بفین سکونت پزیر ہوئے جب حجاج بن یوسف اور بلوچوں کی لڑائی میں بلوچوں کو شکست ہوئی تو یہاں آکر بلوچوںنے ایران میں بھی لوٹ مار کا بازار گرم رکھا لہٰذا اُس زمانے میں ایران کے حاکم بدر الدین کو بلوچوں سے لڑنے کے لئے بھیجا۔جس نے بلوچوں کو شکست دے کر ایران سے نکال دیا۔ وہاں سے نکل کر یہ قبائل مکران کے گرد ونواح میں آباد ہوئے“ (نصیر، 1995ءص،5)
بلوچوں کی نسلی اعتبار سے ذکرکرتے ہوئے تیسرے طائفہ کے بارے میں لکھتے ہیں:۔”بلوچستان کے مکران کی سرحد سے بندرعباس تک چاغی کے سرحد سے لے کر سیستان تک اور افغانی اور ایرانی سرحدوں کے ساتھ ساتھ ہرات تک بلوچوں کا ایک اور طائفہ قدیم زمانے سے آباد چلا آرہا ہے۔ جنہیں عرف عام میں ناروئی بلوچ کہتے ہیں بعض مورخین کا خیال ہے کہ ناروئی ایک قدیم اصطلاح ہے جو میدانی علاقوں میں زندگی بسر کرنے والے خانہ بدوش قبائل کے لئے بولا جاتا تھا۔غالباً یہ درست ہے کیونکہ ملک کا یہ حصہ جہاں نارو ئی بلوچ آباد ہیں تقریباً میدانی ہے۔ اس وجہ سے ہم یہ اخذ کرسکتے ہیں کہ اُن ایام میں بلوچوں کا ایک کوہستانی قبیلہ بھی ضرور ہوگا یعنی بروزکوہی یا براہوئی بلوچ جن میں امتیاز قائم رکھنے کی خاطر ان میدانی بلوچوں کو ناروئی بلوچ کہا ہوگا اور کوہستانی بلوچوں کو بروزکوہی جو بعد میں دراوڑوں کے تلفظ سے بگڑ کر بروہی یا براہوئی رہ گیا ہو“ (نصیر، 1995ءص،6)
”بلوچ قوم کی تاریخ“جس کے مصنف محمد سردار خان بلوچ ہے بلوچوں کی نسل کے بارے میں اپنی تحقیق کے مطابق کہتے ہیں (لیکن خود بھی کسی خیال سے متفق نظر نہیں آتے کہ در اصل بلوچ کس نسل سے تعلق رکھتے ہیں البتہ انہوں نے مختلف ایسے صاحب آرائ، ادیبوں کی رائے کو شامل کیا ہے وہ لکھتے ہیں کہ:۔”کسی مشہور و معروف عالم نے یہ معمہ حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی کہ بلوچ کون ہیں؟ یہ ایک ایسی اصطلاح ہے جو اب تک حل طلب ہے۔ کیونکہ زمانے کے ساتھ یہ اصطلاح اس نسلی معنویت آراءہی ہوگئی جو ابتداءسے اس سے منسوب ہوگی ان کی قومی شناخت کی یاد اور ان کا شعور اُن کے اپنے روایتی نسب ناموں کی ابتدائی صورت میں موجود ضرور ہے لیکن وہ شاذ و نادر ہی کسی دور میں محقق کو متاثر کرتا ہے۔“ (بلوچ،1989ءص 22)
بلوچ ایران کے صوبہ کرمان سے لے کر پاکستان کے صوبہ پنجاب کے درمیان بولی جانے والی بلوچی زبان کی مختلف بولیاں ہیں جوں جوں ہم ہندوستانی سرحد کی طرف چلتے ہیں تو ہم بلوچی زبان پر ہندوستانی الفاظ کا دباﺅ زیادہ دیکھتے ہیں او راسی طرح ہم ایرانی سرحد کے طرف چلتے ہیں تو فارسی الفاظ کا نفوذ زیادہ دیکھتے ہیں۔ بلوچی زبان کے گرد لپٹے ہوئے فارسی، ہندوستانی اور پشتو زبانوں کے دخیل الفاظ کو اگر علیحدہ کر دیا جائے تو ایک ایسی زبان کا تناصاف نظر آجاتا ہے جو مادہ اور صورت دونوں اعتبار سے قدیم سامی زمرہ السنہ کا ایک اثر ہے بلوچوں کے اس دعوے کو نظر انداز ہر گز نہیں کرنا چاہئے کہ وہ شام سے ہجرت پذیر ہوئے۔
بلوچ وقائع نگار اصطلاح ’بلوچ“ کو بلوص لکھتے ہیں جو بہت تاریخی اہمیت کے حامل ہے لفظ بلوچ یا بلوص صریحاً بل اچ یا بیل او ر اوصل کا ملاپ ہے اگر گہری کھوج لگائی جائے تو نسل کا نام ہی ہمارے ذہن کو ایک ایسی نسل یا تہذیب کا پتہ دیتا ہے جو کسی وقت دنیائے معلوم پر حاوی تھی۔
اے ڈبلیو ہیوز اپنی کتاب ”سرزمین بلوچستان“ میں بلوچوں کی نسل کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ:۔”بلوچستان میں زیادہ تر بلوچ قبیلے آباد ہیں جو اکثریت میں ہیں اور یہ نام انہیں ایرانی کشور کشا بادشاہ نادر شاہ نے دیا جس نے بقول سینٹ جان افغان حملہ آوروں کو ایران سے نکال کر غرب سندھ کے سارے علاقے پر قبضہ کرلیا اور اس نو ساختہ صوبے پر ایک مقامی رئیس مقرر کردیا جس کی شمالی حدوادی ہلمند او رجنوبی حد سمندر تھی او رجو مغرب میں کرمان سے لے کر مشرقی سندھ تک محیط تھی اس نو ساختہ صوبے کو اس نے بلوچستان کا نام دیا کیونکہ یہاں بلوچ بہت تھے او رطول و عرض میں پھیلے ہوئے تھے یہ ماننا پڑے گا کہ تمام یورپیوں سے زیادہ ”میسن“ کو ا س موضوع پر صحیح معلومات حاصل کرنے کے مواقع ملے اور اس کے مطابق بلوچ تین طبقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔“ (ہیوز ، 1985 ءص 46)
لفظ ”بلوچ“ کا ماخذ قعرابہام میں ہے اور اس کی مختلف تشریحات کی گئی ہیں پروفیسر رابسن کے خیال میں یہ لفظ بیلوس سے ماخوذ ہے جو انجیل شریف کا نمرود شاہ بابل تھا او رنمرود کا والد کش جس کے نام پر قلات کے مشرقی علاقہ کا نام ”کچھ“ رکھا گیا۔ پوٹنگر نے انہیں ترکمان الاصل قرار دیا کیونکہ وہ اپنے ارادوں، اطوار اور مذہب وغیرہ میں ان کے مشابہ تھے لیکن زبان مختلف تھی قبیلہ خود اپنے آپ کو ایران کے اولین مسلمان حملہ آوروں سے منسوب کرتا ہے اور وہ اپنے آپ کو عربی النسل کہلانے کے لئے بے حد مشتاق متمنی ہیں وہ افغانوں کے ہم اصل ہونے کے مفروضہ کو پائے استحقار سے ٹکرادیتے ہیں ممکن ہے کہ وہ ایران الاصل ہوں جیسا کہ بلوچی او رفارسی کی مماثلت سے ظاہر ہوتا ہے لیکن لفظ بلوچ کا صحیح اشتیقاق ہنوز ایک متنازعہ مسئلہ ہے۔
اے ڈبلیو ہیوز اپنی کتاب میں ایک اور محقق بروس کے حوالے سے لکھتا ہے کہ:۔
”ان کی اپنی روایات کے مطابق بلوچوں کا عقیدہ ہے کہ وہ حلب کے رہنے والے ہیں اور میر حمزہ ابن عبدالمطلب کی اولاد ہیں جو حضرت امام حسین ؓ 16 ھ کے دور میں 646ءکے قریب زندہ تھا انہوں نے باہمی رزم و پیکار کی وجہ سے عرب چھوڑا او رایران کے پہاڑی حصہ کرمان میں آگئے اس کے بعد مکران آئے جہاں یہ 500سال تک رہے معلوم ہوتا ہے کہ مکران کے طویل قیام کے دوران وہ ایک ہی امیر کے تحت ہوتے تھے او رقلات و خراسان میں آنے سے پہلے ان کا امیر جلال خان تھا۔ جس کے چار بیٹے او رایک بیٹی تھی یعنی رند، ہوت، لاشاری، کورائی اور مسمات جتوئی۔ رند سے میر چاکر خان برآمد ہوا اور لاشاری سے میر رامن خان او رقلات کچھی میں ان کی آمد 1540ءکے قریب وہ جلال خان کے انہی دو بیٹوں کے نام پر رند او رلاشاری حصوں میں تقسیم تھے او ران کے سردار علی التریب میر چاکرخان او رمیر امن تھے ہوت اور کورائی بھی الگ الگ قبائل بنے او رمسمات جتوئی سے جتوئی قبیلہ چلا قلات اور کچھی میں آباد ہونے کے دوران جھگڑے پیدا ہوگئے او ر لاشاری شکست کھاکر سندھ کی طرف بھاگ نکلا۔ رند و لاشاریوں سے بازی نہ لے سکے لیکن بعد میں ایرانی بادشاہ کی مدد سے ان پر غالب آگئے اس کے بعد میر چاکر اور اس کے رندوں کو مغل شاہ ہند ہمایوں نے پنجاب کے باری دو آب میں جاگیریں دیں جس کی انہوں نے جلا وطنی کے دوران مدد کی تھی جب کہ وہ اپنے تخت گم کر دہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی فکر میں تھا اس وقت سے قبیلہ تقسیم ہوکر قلات، سندھ او رڈیرہ جات میں بکھر گیا۔ (ہیوز ، 1985 ءص 48)
براہوئی تاتار کوہستانی ہیں جو کسی قدیم دور میں جنوبی ایشیا ءمیں آبا دہوئے اور خیلوں یا معاشروں کی صورت میں خانہ بدوشانہ زندگی گزارتے رہے اور صدیوں تک اپنے سرداروں او رخوانین کے تحت رہے حتیٰ کہ بالآخر جمع ہوگئے اور قلات او ربلوچستان میں موجودہ بنیادوں پر استوار ہوئے۔
براہوئی نسلی لحاظ سے بلوچستان میں کثیر التعداد میں پوٹینگر کا حوالہ دیتے ہوئے ہیوزلکھتا ہے کہ”لفظ براہوئی (با+روہ+ ای) کا بگاڑ ہے با معنی کوہ دشت کا او رمغرب سے بلوچستان میں داخل ہوئے۔پوٹنگر نے تین قبائل میں سے ایک ناہروائی بتایا ہے جو صحرائے خاران کے مغرب میں رہتا تھا نا ہروئی کے معنی غیر کوہستانی یعنی میدانی، گویا براہوئیوں سے ان کا وہی تعلق تھا جو اہل میدان کا اہل کوہ سے تھا یہ ناہروائی بلوچستان بھر میں سب سے وحشی او رغارت گر لوگ ہیں جو ناک نقشہ او ر قد و قامت میں طویل، خوش و ضع او رچاق و چوبند ہیں۔ براہوئیوں کا عقیدہ ہے کہ وہ یہاں کے اصل باشندے ہیں عجیب بات ہے کہ ان کی زبان برائیوئی بلوچی زبان سے بالکل مختلف ہے او ردراوڑی ہے جبکہ بلوچی انڈوجرمن ہے او راسی لسانی فرق کی بناءپر بعض مصنفین براہوئی کو بلوچ سے قدیم تر باشندہ قراردیتے ہیں۔ (ہیوز،1985ءص 53)
”بلوچوں کاتعلق کسی شاہی خاندان سے نہیں ہے۔ او رنہ ہی فاتحین کی کسی قوم سے وہ نسبت رکھتے ہیں بلکہ وہ صحراﺅں، پہاڑوں او رپہاڑی وادیوں میں رہنے والی ایک قدیم قوم ہے جو آریا حملہ آوروں سے بھی قبل ہندوستان او رایران کی درمیانی سر زمین پر آباد رہتے چلے آرہے ہیں او رمختلف ناموں سے منسوب وسیع علاقوں میں قبائلی تحفظات اور اتحادیئے کی صورت میں زندگی گزارتے چلے آرہے ہیں۔ یہ قبائلی تحفظات پر قائم اتحادیے بسا اوقات بیرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں تباہ ہوتے رہے اور ٹوٹتے رہے مگر جوں جوں حالات معلوم پر آتے رہے یہ اتحادیے دوبارہ قائم ہوجاتے بیرونی حملہ آور نے بلوچستان کے قدیم تہذیب کو متاثر کیا لیکن کسی بھی فاتح کو یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ یہاں ٹک کراور آرام کے ساتھ حکومت کرتا۔ تاریخ کے اوراق اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ بلوچ قبائل نے ہر حملہ آور قوت سائرس اعظم ایرانی، سکندر اعظم یونانی، ساسانی، عرب، ہندی، منگول، غزنوی، آل بویہ اور برطانوی حتیٰ کہ ہر بیرونی حملہ سے اپنے خطے کی حفاظت کرتا چلا آرہا ہے۔“ (بلوچ،2012ئ،ص،6)
جدید دور میں دنیا کے تمام اقوام گلوبل ولیج کی صورت ایک دوسرے کی زبان، ثقافت، سیاست اور دیگر زندگی کے شعبوں سے آگاہی حاصل کر رہے ہیں اور ایسے میں ضرورت اس بات کی ہے کہ بلوچوں کو بھی دنیا میں اپنا حصہ ڈالنے کے لئے ایک واضح کردار ادا کرنا ہوگا۔ جس کے لئے میڈیا کی اشد ضرورت ہے۔ تاکہ وہ قوموں کے درمیان اپنی جداگانہ حیثیت کو منوا سکیں۔ اس سلسلے میں اس ضرور ت کو مد نظر رکھ کر شکیل احمد بلوچ اپنی کتاب ”بلوچستان او رعالمی سیاست“ میں تحریر کرتے ہیں۔
”بلوچستان اور بلوچی زبان سے متلعق اس وقت سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ دور جدید میں بھی آج بلوچی زبان کو ایک پرائیویٹ ٹیلی ویژن چینل تک میسر نہیں حالانکہ اس وقت ارد گرد اس خطے کی تمام زبانوں کے اپنے اپنے پرائیویٹ ٹی وی چینلز ہیں۔ اس سلسلے میں بلوچستان او ربلوچی زبان سے تعلق رکھنے والے اخبارات کے ایڈیٹروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بلوچی زبان میں ایک پرائیویٹ چینل کے قیام کے سلسلے میں بلا تاخیر اپنی بھرپور کوشش کا آغاز کریں۔ یہ وقت او رحالات کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آج کے جدید دور میں زبان کی ترویج و ترقی میں یہ ایک اہم ضرورت بن چکی ہے“ (بلوچ، 2011ئ، ص،15)
نتائج؛۔ بلوچ قوم کی وطن کے بارے میں مختلف مورخین نے اپنے اپنے معلومات کے مطابق تحریر کئے ہیں۔ جہاں اس قوم کی وطن کی بات ہے تو اصل میں کسی بھی قوم کے حال کو دیکھا جاتا ہے کیونکہ ماضی سے زیادہ اس کا حال بہت اہمیت رکھتا ہے اور حال کی حقیقت یہ ہے کہ بلوچوں کا وطن بلوچستان (پاکستانی) ایرانی،افغانستان، ترکمانستان اور ماضی میں مختلف سر زمین رہے ہیں وہ جہاں بھی رہے اپنی قومی خصوصیات، روایات او رثقافت کو زندہ رکھا ۔ بلوچ تاریخ کے مختلف حصوں میں مختلف خطے اور جغرافیہ میں زندگی گزار چکی ہے۔ بلوچ جہاں بھی رہی ہے اس دور کے مورخین نے اس قوم کو جنگجو اور بہادر قرار دیا تو کسی نے مہمان نواز اور اپنے ثقافت اور سر زمین سے محبت کرنے والا قرار دیا جبکہ اس قسم کی رائے بھی پائی جاتی ہے کہ اس قوم کا وطن اصل میں کو ن سا سر زمین ہے۔
حوالہ جات۔
البوشہری محمد اسماعیل دشتی2008ئ”بلوچ، تاریخ عرب تہذیب“برکت اینڈ سنز کراچی
ہیوز،اے ڈبلیو 1985ئ”سر زمین بلوچستان“سیلز اینڈ سروسز
بگٹی،پروفیسر عزیز محمد 1994ئ”بلوچستان شخصیات کے آئینے میں“فرنٹیئر پوسٹ پبلیکیشنز، لاہور
بلوچ،شکیل احمد2011”بلوچستان او رعالمی سیاست“، گوشہ ادب کوئٹہ
بزنجو،طاہر 2006ئ”گریٹ گیم اور بلوچستان“،گوشہ ادب کوئٹہ
بلوچ۔محمد سردار خان 1989ئ”بلوچ قوم کی تاریخ،اردو ترجمہ پروفیسر انور رومان بے نظیر انٹر پرائزز
بلوچ، فاروق،2012ئ”بلوچ اور اُن کا وطن“فکشن ہاﺅس لاہور
رانا،مقبول،2016ئ”بولان نامہ“گوشہ ادب کوئٹہ
نصیر،میر گل خان 1995(”کوچ و بلوچ“)قلات پبلشرز کوئٹہ