دیوارِ ملامت

تحریر : انور ساجدی
75سال بعد بھی یہ ریاست ایک اونٹ کی مانند عہے جس کی کوئی کل سیدھی نہیں ہے۔اس میں ریاست کا کوئی قصور نہیں ہے اے اس حال میں پہنچانے کے ذمہ دار اس کے سابقہ اور موجودہ حکمران ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں نے طرح طرح کے تجربات کئے ۔کبھی مارشل لاء کبھی صدارتی نظام اور کبھی پارلیمانی نظام لیکن آج تک کوئی نظام صحیح معنوں میں نافذ نہیں کرنے دیا گیا۔نتیجہ یہ ہے کہ اس کا شمار دنیا کی ناکام ریاستوں میں ہونے لگا ہے۔ جنرل ایوب خان ،یحییٰ خان،ضیاء الحق اور پرویز مشرف نے جو کیا اس کا نتیجہ تو یہی نکلنا تھا گزشتہ روز سری لنکا کے روپے کی قدر ڈالر کے مقابلے میں304 رہی جبکہ پاکستانی روپیہ کی قدر308 ہوگئی۔روپے کی اس بے قدری سے قرضوں کا بوجھ تین گنا بڑھ گیا ہے۔قیام پاکستان سے کچھ عرصہ پہلے تک حکمران امریکا کے ’’دم چھلے‘‘ تھے لیکن اب چین کا دم بھرتے ہیں اس کی وجہ یہ ہے کہ چین نہ صرف معاشی طور پر ایک بلا بن گیا ہے بلکہ وہ ہمارے ہمسایہ میں واقع ہے اور حالات نے ثابت کیا ہے کہ وہ اپنے قومی نشان اژدھے کی مانند کمزوریوں کو ڈکار لئے بغیر ہضم کرتا ہے۔سیاسی زبوں حالی آئینی اور سیاسی بحرانوں کی وجہ سے پاکستان کے نوجوان اپنے مستقبل سے بری طرح مایوس ہیں۔ہر روز ہزاروں لوگ باہر جانے کی کوشش کرتے ہیں۔اکثر لوگ بحری قزاقوں اور انسانی اسمگلرز کے ذریعے کشتیوں میں بیٹھ کر مغرب کا رخ کرتے ہیں لیکن یونان اور اٹلی میں پہنچنے سے پہلے اکثر راتے میں ڈوب کر موت کا شکار ہو جاتے ہیں۔چند سال قبل ترکی نے جائیداد فروخت کے بدلے شہریت دینے کا پروگرام شروع کیا تھا دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں پاکستانی وہاں پہنچ گئے پہلے ترکی والے پاکستانیوں کی خصلتوں سے واقف نہیں تھے اس لئے ان کیلئے نرم گوشہ رکھتے تھے۔ جب یہ لوگ استنبول پہنچے تو حسب عادت انہوں نے فراڈ شروع کر دیا ۔ایسے ایسے کارنامے انجام دئیے کہ لاحول ولا قوۃ، ان کے کرتوتوں کی وجہ سے ترکی نے اکثر پاکستانی واپس بھیج دئیے ترکیکے بعد یورپ کے ایک اور غریب اور چھوٹے ملک پرتگال نے گولڈن ویزا پروگرام شروع کردیا چونکہ وہاں پر جائیداد مہنگی تھیں اس لئے پیسے والے پاکستانی وہاں پہنچنے لگے۔ظاہر ہے کہ وہاں جا کر انہوں نے اپنی استادی دکھائی ہوگی اس لئے اب پرتگال میں پاکستانیوں کو نہ تو ملازمت دیتا ہے اور نہ ہی مکان کرایہ پر دیتا ہے۔یہی حال انہوں نے اسپین کا بھی کر دیا۔پرتگال نے صورتحال کو بھانپ کر اپنی ویزا پالیسی سخت کردی ہے۔ ورنہ انگلینڈ کی طرح 25سال بعد وہاں کا وزیراعظم بھی کوئی رشی سونک یا اے ڈی چوہدری ہوتا۔
معلوم نہیں کہ پاکستان حالات کی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے یا بے ایمانی فراڈ اور جھوٹ برصغیر کی ہزاروں سال پرانی تہذیب کا حصہ ہے۔دنیا کے جس ملک میں بھی جائو پاکستانیوں کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ان سے زیادہ عزت تو بنگالیوں، افغانیوں اور ایرانیوں کی ہے حالانکہ افغانستان اور ایران مغرب میں برے ملک سمجھے جاتے ہیں۔
پاکستان کے اکثر پڑھے لکھے لوگ لوٹے اور منافق بن چکے ہیں اس فن میں وہ لوگ سرفہرست ہیں جو اپنے اپنے کو سیاستدان سمجھتے ہیں حالانکہ صحیح معنوں میں کوئی سیاست دان نہیں بلکہ سیاست کو تجارت اور کمائی کا ایک ہنر کی حیثیت حاصل ہے۔مولانا طارق جمیل اور دیگر علماء کی حرکتیں تو دیکھ کر لگتا ہے کہ ایمان تو کب کا رخصت ہو چکا۔
ہمارے اکثر علماء کا یہ حال ہے کہ وہ اکثر حکومت کا حصہ بن جاتے ہیں اور وہی کام کرتے ہیں جو عام سیاست دان جسے عیب نہیں سمجھتے۔
یہ تو معلوم نہیں کہ اصل خرابیوں کا بنیادی سبب کیا ہے لیکن ظاہری طور پر لگتا ہے کہ جب سے ایوب خان حکمرانی اور سیاست میں وارد ہوا سیاست کرپٹ ہوئی۔انہوں نے ایبڈوکا قانون لا کر تمام مخالف سیاست دانوں پر پابندی لگا دی اور بی ڈی ممبر منتخب کرواکرسیاست دانوں کی ایک نئی کھیپ متعارف کروا دی جو شاہ دولے کے چوہوں کی مانند سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے عاری تھے۔ایوب خان کے زوال کے بعد یحییٰ خان نے اقتدار سنبھالتے ہی راندہ درگار جماعتوں قیوم مسلم لیگ کونسل مسلم لیگ اور دیگر نوٹیبلزجماعتوں کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ان کا خیال تھا کہ وہ ان کے ذریعے ایوب خان کی طرح کم از کم10سال تک اس ملک پر مسلط رہیں گے ان سے غلطی یہ ہوئی کہ انہوں نے پہلی مرتبہ بالغ رائے دہی کے ذریعے عام انتخابات کروا دئیے اس جوئے کو وہ بری طرح ہار گئے۔اور سیاسی غلطیوں کی وجہ سے ملک بھی دولخت کر بیٹھے۔ان کے بعدبھٹو آئے ۔اس زمانے کے اخبارات دیکھئے کہ فلاں سردار،فلاں چوہدری اور فلاں خان نے ہزاروں ساتھیوں سمیت پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے۔اگرچہ ان کے دور میں اس سیاسی بے قاعدگی کے باوجود کرپشن عام نہیں تھی۔تاہم جب مرد مجاہد مرد حق تختہ الٹ کر آئے تو انہوں نے معاشرے اور اپنی بچی کھچی اقدار کو تہس نہس کر دیا۔انہوں نے شاہ دولے کے ساتھ قلندر کے چوہوں کوبھی یک جا کر دیا۔غیر جماعتی انتخابات کروانے کے باوجود الیکشن کے بعد ایک عدد مسلم لیگ بنا ڈالی اور ایک رسوا کن ریفرنڈم کے ذریعے خود ساختہ صدر بن بیٹھے۔بدقسمتی سے جس طرح جماعت اسلامی نے جنرل یحییٰ خان جیسے خائن کا ساتھ دیا وہ ضیاء الحق کے ساتھ بھی شامل ہوگئے۔ضیاء الحق نے افغان جنگ شروع کر کے امریکہ سے اربوں ڈالر بٹورے سندھ میںلسانی جماعتیں بنوائیں۔ایک کروڑ افغان مہاجروں کو بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں بسایا۔ان کی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان عالمی جہاد یا دہشتگردی کا مرکز بن گیاتاحال پاکستان اس عفریت کا شکار ہے۔
بدقسمتی سے جنرل مشرف نے ایک بار پھر ڈالروں کی خاطر نہ صرف امریکا کا ساتھ دیا بلکہ اس جنگ کا حصہ بن گئے۔اس جنگ کے نتیجے میں ریاست کی بنیادیں ہل گئیں۔سارے مجاہدین بھاگ کر پختونخواہ اور بلوچستان آ گئے۔حتیٰ کہ افغان طالبان کے سیکریٹریٹ کا نام کوئٹہ شوریٰ پڑ گیا۔یہ طالبان ہمیشہ کیلئے یہاں آباد ہوگئے۔حتیٰ کہ طالبان امیر المومنین اور سابق رہبر کوئٹہ میں مستقل طور پر رہائش پذیر ہوگئے۔ ہو نہ ہو یہ امریکی ڈالروں کی تڑپ ہے جس نے پاکستانی معاشرے کی بیخ نکال دی۔اکثر اہم شخصیات حکمران اور بڑے بڑے ادارے ڈالروں کے اسیر ہوگئے یہ اسیری ختم ہونے کا نام نہیں لے رہی ہے۔ڈالر میں وہ جادو ہے کہ امریکی انخلاء کے وقت سینکڑوں افغانی امریکی طیاروں کے اوپر چڑھے جیسے وہ اپنے علاقوں میں بسوں کی چھتوں پر چڑھتے ہیں۔افغانستان کی وجہ سے ’’نارکو ٹریڈ‘‘آیا جو ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا ہے۔بڑے بڑے مافیاز بن گئے ہیں جو اربوں ڈالر کما رہے ہیں جب اسامہ بن لادن افغانستان میں بیٹھ کر’’نارکو ٹریڈ‘‘کو فروغ دے رہے تھے تو کئی پاکستان سیاست دن ،سائنس دان اور صحافی وہاں جا کر ان سے بخشش حاصل کرتے تھے۔1989 میں بے نظیر کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے دوران جو اراکین بھی خریدے گئے ان کا پیسہ اسامہ بن لادن نے دیا تھا۔ڈالر میں اتنی طاقت ہے کہ امریکی حملہ کے بعد کئی سال تک اسامہ ایبٹ آباد میں مقیم رہے ان پر جو حملہ ہوا تھا وہ بھی ڈیڑھ کروڑ ڈالرکی خاطر مخبری پر ہوا۔جنرل پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے پانچ سو مجاہدین امریکہ کے حوالے کئے تھے۔ضیاء الحق نے جو خار دار پودے کاشت کئے تھے ریاست ان کے ہاتھ لگ گئی اور وہ ریاست کو ماں کا درجہ دینے کے بجائے اس کے نام اور رتبے کے ذریعے کاروبار کرنے لگے۔
9مئی کے روز لاہور کے کور کمانڈر ہائوس کو آگ لگانے کی بڑی ملزم خدیجہ شاہ کا نام آیا تو انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ وہ سابق آرمی چیف آصف نواز جنجوعہ کی نواسی اور سابق مشیر خزانہ سلمان شاہ کی صاحبزادی ہیں۔انہوں نے دھمکی دی کہ وہ دہری شہریت رکھتی ہیں اور اپنے خلاف کارروائی سے اپنے اصل ملک کو آگاہ کررہی ہیں۔اعداد و شمار نکالے جائیں تو جنرل یحییٰ خان کے بیٹے سے لے کر اب تک کے تمام بااثر خاندان غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں۔ان کا نام لکھنے سے ڈر لگتا ہے۔حالانکہ ہم لوگ تو اس ملک میں رہتے ہیں راہ فرار ان لوگوں نے اختیار کی ہے اور شہریت کی خاطر غیر ممالک کا حلف وفاداری اٹھا رکھا ہے۔اسی طرح اکثر سیاسی خانوادے بھی غیر ممالک کے شہری ہیں چنانچہ ان کا مفاد اپنے ملک سے ہوتا ہے۔ان ممالک سے وابستہ وہاں ان کی فیملی کا کاروبار اور سرمایہ ہے۔اگرچہ عمران خان بار بار ان لوگوں کوطنز کہتے تھے لیکن خود ان کے دونوں صاحبزادے اور صاحبزادی بھی غیر ملکی شہریت رکھتے ہیں۔نوازشریف کا پورا خاندان برطانوی شہریت رکھتا ہے۔جو سویلین اور غیر سویلین حکمران ہیں انہوں نے دہری شہریت حاصل کر رکھی ہے۔اس لئے وہ اپنے ملک کو کرایہ کا اور جہاں وہ آباد ہیں اسے اصلی گھر سمجھتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ اس وقت تک کسی حکمران نے کوئی پلاننگ نہیں کی کہ اس ملک کو کیسے چلانا ہے اور جو25 کروڑ خانہ برباد لوگ ہیں ان کی خوش حالی کے لئے کیا کیا جائے۔اسی وجہ سے ملک عملاً دیوالیہ ہوگیا ہے۔ آمدنی کے ذرائع کم اور اخراجات بے تحاشا ہیں۔نام نہاد جعلی اور جھوٹی اشرافیہ عیاشیاں چھوڑنے کو تیار نہیں ہے۔ایک حالیہ مثال پاکستان اور ایران کے بارڈر پر جہاں وزیراعظم شہبازشریف اور ایرانی صدر رئیسی کی ملاقات ہوئی دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستانی وزیراعظم شہبازشریف کو دھوپ کی شدت سے بچانے کیلئے چھتریاں تان رکھی ہیں جبکہ ایرانی صدر عام آدمی کی طرح جا رہے ہیں۔
پاکستانی دو نمبر اشرافیہ کی جو سوچ ہے کہ وہ مزید لوٹ مارے کرے جب یہ ملک دیوالیہ ہوتا ہے خانہ جنگی اور انتشار کا شکار جائے تو سارے بھاگ جائیں گے نہ کوئی سیاسی لیڈر یہاں رہے گانا کوئی جج اور نا جرنیل کیونکہ انہوں نے باہر کے ممالک میں اپنا بندوبست کر رکھا ہے۔
اس وقت جو لڑائی ہو رہی ہے وہ بہت بے ڈھنگی اور بے ہودہ ہے۔اس کا کوئی فاتح نہیں ہوگا بلکہ کرنے اور جینے والے سارے فریق دراصل ہار جائیں گے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلام آباد کی پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ایک دیوار ملامت بنائی جائے جس پر ان تمام لوگوں کے نام درج کئے جائیں۔جنہوں نے ریاست،آئین اور پارلیمنٹ کی بے حرمتی کر کے اسے ایک ناکام ریاست میں تبدیل کر دیا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں