احساس ایمرجسنی کیش پروگرام ایک جائزہ

رحمان حمیدبلوچ
قدرتی وباء "کورونا وائرس "covid-19جسکی ابتداءگذشتہ سال دسمبرمیں چین کے شہر ووہان سے ہوئی ،یہ وباء چائنا سے نکل کر جنگل کی آگ کی طرح دنیاکے186سے زائد ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے چکی ہےبلاشبہ کوروناوائرس اس صدی کی انتہائی المناک انسانی سانحہ ہے جس نے پوری دنیا میں انسانی سماج کی تمام ترشعبوں کو بُری طرح متاثرکیاہے اس وبائی مرض سے جہاں اب تک لاکھوں کی تعدادمیں انسانی جانیں مختلف ممالک میں ضائع ہوچکیں ہے اسی طرح اس وباء نے پوری دنیا کی معیشت کو تباہ کیا ہیں۔
دوسرے ممالک کی طرح پاکستان بھی اس وباء سے بُری طرح متاثرہوئی اور اس وباء نے ہمارے یہاں معاشی طورپر بلخصوص نچلے طبقے کی غریبوں، مزدورں کوکافی متاثرکیا جب کوروناوائرس کی روک تھام اور اسکی متاثرین پر قابوپانے کے لئے حکومت نے پوری ملک میں بازاروں کوبندکرکے لاک ڈاون کا اعلان کیا ۔ اس لاک ڈاون سے پاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی دیہاڑی داراورمزدورخواتین وحضرات متاثرہوئے ۔ اس سلسلے میں وفاقی سطح پر ان متاثرین کی مالی کمک کے لئے گورنمنٹ نے "احساس ایمرجنسی کیش گرانٹ” کااعلان کیا ۔اس پروگرام کے تحت جومتاثرین تھے انہیں 12000روپے کیش کی صورت میں دینے کا اعلان کیا گیا جوکہ لاک ڈاون اور روزگارکی بندش کی صورت میں ان متاثرین کے لئے چنددنوں کے لئے ایک بہترمالی کمک تھی اس پروگرام کاجب ہم نے بریک بینی سے جائزہ لیا تو اس میں خوبیوں کے ساتھ مرکزی سطح پر پروگرام کے ڈیزائننگ میں چندایک کمزوریاں بھی نظر آئے :

اس سلسلے میں ہم نے آوازاورآزات فاونڈیشفاونڈیشن کی معاونت سے بلوچستان کے ضلع نوشکی میں "احساس ایمرجنسی کیش پروگرام” کاجائزہ لینے کے لئے ایک سروے کااہتمام کیا جسکے تحت ہم نے نوشکی کے مختلف یونین کونسلز سے 100 سے زائد مستحق خواتین وحضرات سے سروے کے مطابق انٹریولی جن میں معذوروں اوراقلیت کوبھی شامل کی گئی :
اس سروے میں جو جائزہ ہمارے سامنے اس پروگرام کے حوالے سے اۤئی،وہ کچھ اسطرح ہے ” پہلی بات یہ کہ احساس ایمرجنسی کیش گرانٹ میں مستحقین کی رجسٹریشن کا واحد ذریعہ موبائل ٹیکسٹ تھی جسکے لیے انہوں نے ایک خاص نمبرالاٹ کی تھی کہ اس نمبرپرمستحق اپنا قومی شناختی کارڈ نمبرمیسج کرے پر وہاں سے انہیں اُس نمبرپر ایک مسیج موصول ہوتی جس میں انہیں اس رقم کے لئے اہل یا نااہل قراردی جاتی ۔ لیکن یہاں پرنوشکی ضلع میں بے شمارایسے مضافاتی دیہات ہے جن پر ابھی تک موبائل نیٹ ورک کی سہولت نہیں جن میں خاص یونین کونسل ڈاک اورانام بوستان اور کیشنگی یوسی شامل ہے جن کے بیشترگاوں پاک افغان بارڈرپرواقع ہے یہاں پر موبائل نیٹ ورک کی سہولت نہیں اور ان علاقوں سے بیشترمستحقین موبائل تک رسائی نہ ہونے کی وجہ سے رجسٹریشن سے رہ کر اس مالی معاونت سے محروم رہ گئے اسکے لئے کسی متبادل ذرائع کا انتظام ہوناچائیے تھا:
دوسری بات یہ کہ نوشکی جوکہ دس یونین کونسلزپر مشتمل ایک ضلع ہے یہاں پراحساس ایمرجنسی کیش کی تقسیم کاری کے لئے جوسینٹربازارنوشکی میں گورنمنٹ بوائز ماڈل ہائی سکول میں قائم کی گئی ہے وہ صرف پانچ یونین کونسلز سے نزدیک ہے باقی یونین کونسلز اس سینٹر سے کافی دورپڑتے ہے کچھ ایسے گاوں بھی ہے جن کے خواتین وحضرات کو یہاں تک آنے میں 70 کلومیٹرتک کافاصلہ طے کرنا ہوتا/ہوتی ہے اور ایک سائیڈ سے کم ازکم دوسوروپے کرایہ بھی دینی پڑتی ہے :
ہونا یہ چایئے تھا کہ ہریونین کونسل میں اسطرح کی ایک سینٹرقائم ہوتی تو لوگوں کو سہولت مل جاتی۔ ابھی بہت سے ایسے لوگ بھی ہے جن میں اکثریت ناخواندہ لوگوں کی ہے وہ دوردرازگاوں سے گھنٹوں سفرکرکے یہاں آتے انتظار کرتے اُن کی باری آنے پر پتہ چلتاہکہ اُنکے پیسے ابھی تک نہیں آئے اب وہ بیچارہ پریشان ہوتی کیا کرے بہت کام ایسے لوگ ہونگے جن کواس رقم تقسیم کرنے والی سینٹرسے نزدیکی کسی گاوں یا شہر میں رہائشی ٹھکانہ میسر ہوتااس سے خاص کرخواتین کو بہت ہی مشکلات کا سامنارہی :
خاص کر خواتین ، معذوروبیماروں کو اس ڈسٹری بیوشن پوائنٹ تک رسائی آسان نہیں تھی اسکی مین وجہ ٹرانسپورٹ کی کمی ہے اسے یونین کونسلز کے سطح پر کلسڑوائز ہونی چائیے تھی ۔ تاکہ لوگوں کو رقم کی وصول۔ کے لئے اس قدردقت ،خواری اور تکلیف نہ اُٹھانی پڑتی جوکہ دوردراز علاقوں سے میلوں کاسفرکرکے یہاں پہنچتے ہے اُنہیں اسطرح کی ٹیکنیکل مسلے کا تو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ناخواندہ ہے ابھی وہ میلوں سفر کرکے کرایہ بھر کرجب یہاں آتے ہے تو بہت سے مستحقین کو رقم اس لیے نہیں دی جاتی کہ آپ کا بائیومیٹرک تمب وائری فائیڈ نہیں ہے دوسرامسلہ یہ ٹھہرا کہ جب رقم کی تقسیم شروع ہوئی تو کرونا لاک ڈاون کی وجہ سے اُن علاقوں سے لوکل ٹرانسپورٹ کی بندش اہم مسلہ تھا پھر جب تمپ وائری فائیڈ کا معاملہ آتا تو لاک ڈاون میں اُن دنوں نادرہ آفس بھی بندتھا اب پچھلے ہفتے نادرہ آفس کھول دی گئی ہے ۔ دراصل احساس کیش ایمرجنسی پروگرام کی ہوم ورک مرکزی سطع پرہمارےعلاقوں کی نسبت گراونڈ کی حقیقت کو دیکھ کر نہیں کی گئی ہے ہونا تویہ چایئے تھا کہ اس سے پیشترایک اسسمنٹ کی جاتی اوریونینز کی سطح پر ڈسٹری بیوشن سینٹر قائم کرتے تواس اس پروگرام سے اورزیادہ تعدادمیں لوگ مالی طورپرمستفیدہوسکتے تھے:
احساس پروگرام کے تحت دوسری کمزوری اورکوتائی یہ نظرآئی جب سروے کے وقت ہم نے ان کے زمہ داران سے پوچھا کہ کیا آپ لوگ ہمیں اسطرح کی کوئی ڈیٹافراہم کرسکتے ہو کہ کتنے معذورافراد ،اقلیتوں اور بیواوں کو یہ رقم اب تک ملیں ہے انہوں نے کہا کہ اسطرح کی ڈیٹا ہمارے پاس اوپری سطح تک بھی نہیں اندازاً بتا سکتے ہے کہ 6 ہزار سے کچھ زیادہ مردوخواتین کواب تک رقم ملیں ہے :
ان میں کتنے معذوریا اقلیت یا بیواہ ہیں اسطرح کا کوئی ڈیٹا میسرنہیں ۔
اس میں ہوناتو یہ چائیے تھا کہ احساس کیش گرانٹ میں معذورافراداور اقلیتوں کے ساتھ ٹرانس جینڈر کے لئے کوٹہ مختص کی جاتی ۔
الغرض کوئی منصوبہ بندی نہیں ہے ایسے افراد بھی ہمیں ملے جن کی مرداور خاتون یعنی شوہراور بیوی دونوں کو رقم ملی ہے ایسے بیوہ خاتون بھی ہمیں ملے جنہیں رقم موصول نہیں ہوئی ہے ۔ لازماً یہ سسٹم میں کمزریوں کی نشاندہی کرتے ہے کہ انہوں نے پروگرام ڈئیزاین کرتے وقت ان چیزوں کی سرے سے منصوبہ بندی ہی نہیں کی ۔
اس تحریرکامقصد اس پروگرام کومزید بہتربنانے کے لئے اگلے فیزمیں اس طرح گراونڈریلیٹیزکو مدنظررکھ کر منصوبہ بندی کی جاے تاکہ مستحقین کو اس سے بہترفاہدہ ملے :

اپنا تبصرہ بھیجیں