انسان، فطرت اور تہذیب، ایک نفسیاتی اور فلسفیانہ خاکہ
شہزاد اسلم بلوچ
ہزاروں سال فطرت کے رحم و کرم پہ، جنگلوں اور پھر غاروں میں رہنے کے بعد انسان اس قابل تو ہوا کہ فطرت کو اپنے قابو میں رکھے اور بے پناہ قوت کا عامل ہو جائے. انسان تہذیب کے دائرے میں آ تو گیا لیکن پوری وثوق کے ساتھ یہ کہنا مشکل ہے کہ اس مقام تک پہنچنے میں انسان کے لیے کون کون سے عوامل معاون رہے. البتہ یہ بات طے ہے کہ اس میں بہت سے عوامل کارفرماں تھے. اور یہ بھی کہ اس مقام تک پہنچنے کے لیے انسان کو ہزاروں سال لگ گئے اور آج بھی انسان ارتقائی اور تغیراتی مراحل سے گزر رہا ہے اور خود میں تبدیلیاں لاتا آ رہا ہے.
اس تغیر میں انسانی خوائش شامل ہے یا فطرت کی جبر یہ بات قابلِ بحث ہے. لیکن بحرحال انسان باقی جانوروں سے الگ تلگ رہنے لگ گیا، مگر بنیادی فطری جبلت آج بھی جانوروں سے ہی مشابہ ہیں. اور انسان کی تہذیب کی طرف گامزن ہوتے ہی یہی کوشش رہی ہے کہ وہ ہر صورت خود کو باقی جانوروں سے مکرّم قرار دے. جس کے لیے ضروری تھا کہ وہ خود کو ہر صورت ان سے الگ مخلوق قرار دے. لیکن اگر دیکھا جائے تو آج بھی انسان باقی ماندہ جانورں سے الگ تلگ رہ نہیں سکتا. فطرت کی عینک سے انسان سب سے خطرناک اور سب سے عقل مند شکاری ہے.
انسان فطرت سے الگ ایک اکائی تو نہیں بلکہ فطرت کا ایک جز ہی ہے. لیکن آج کا انسان اتنی قوت کا عامل ہو چکا ہے کہ فطرت کو بھی للکار سکتا ہے. لیکن فطرت سے سبقت لے جانا بعید القیاس ہے. میرے کہنے کا مطلب یہ نہیں کہ ضروری طور پر انسان اور فطرت باہم مسابقت میں ہیں. بلکہ اس چیز کا نفسیاتی، فلسفیانہ اور معاشرتی توجیح پیش کرنا ہے کہ کس طرح انسانی خوائش اور فطرت کے درمیان ربط پیدا کیا جا سکتا ہے یا یہ کہ انسان کا دوبارہ فطرت سے ضم ہو جانا یا کم از کم فطرت سے قریب تر ہونا کس قدر مشکل یا آسان ہے! یا آیا یہ ممکنات کی حد میں ہے یا نہیں!
جرمن ماہر نفسیات ایرک فروم کا کہنا ہے کہ "انسان فطرت سے اپنا رابطہ کھو چکا ہے جس کی بنا پر وہ اپنی زندگی کےمعمولات میں فطرت سے دور ہٹ گیا ہے. اور وہ اپنی زات کی آگائی اور دلیل کی دنیا میں رہنے لگا ہے. جس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ انسان مخصوص تشویش، شرم اور احساس جرم کا شکار ہو چکا ہے.” گویا انسان کو عزت نفس کا مسئلہ تہذیب یافتہ ہونے کے بعد پیش آیا. یعنی یہ امر انسان کا خود کو فطرت کے باقی ماندہ تخلیقات سے الگ اور زیادہ مکرّم ٹھہرانے کے بعد سامنے آیا. جب تک وہ باقی ماندہ جانوروں کی طرح ایک جانور ہی تھا تو اسکے لیے عزت نفس کسی تشویش کا امر نہیں تھا. یعنی کتنی دلچسپ بات ہے کہ تشویش، مسابقت، مقابلہ، اختلاف اور ممکنہ جدال و خون ریزی انسانی تہذیب ہی کی پیداوار ہیں. اب آیا ان پابندیوں سے چھٹکارہ پانا ممکن ہے جو انسان نے خود اپنے آپ پر مسلط کی ہیں یا نہیں؟
ایرک فروم یہ تجویز دیتے ہیں کہ ان خود ساختہ پابندیوں سے چھٹکارہ پانے کیلیے ضروری ہے کہ انسان دوبارہ فطرت سے تعلق جوڑے. فروم کی اس وضاحت سے یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انکے مطابق، بنیادی طور پر انسان کا فطرت سے فاصلہ کرنے میں فطرت کی جبر سے ذیادہ انسانی کوشش کارفرماں رہا ہے. انہوں نے اس بات کی طرف روشنی نہین ڈالی کہ کیا فطرت دوبارہ انسان کو اپنی طرف کھنچنے میں کوئی کردار ادا کر سکے گا؟ انہوں نے کہا کہ اس رابطے کو دوبارہ فعال کرنے میں انسان خود مختار ہے اور صرف انسان ہی ہے جو اس بات کا فیصلہ کر سکتا ہے. لیکن ایسا کرنا کتنا مشکل ہے یا آسان، اسکی وضاحت بھی انہوں نے نہیں کی.
فروم نے کہا کہ انسان کو اپنی جبلتوں کی بجائے اپنے جذبات کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ جبلتوں کی بجائے اسکے جزبات ہی اسکے محرکات ہیں اور یہی جزبات اسے زندگی کو ایک مخصوص انداز میں گزارنے پر مائل اور مجبور کرتے ہیں. اسکا خیال ہے کہ یہی جذبات انسان کی تہذیب اور ثقافت کے بانی بھی ہیں.
فروم کے اس دلیل میں بظاہر تضاد ہے جس میں وہ فطرت سے دوری کو تشویش اور احساسِ جرم کا سبب گردانتے ہیں اور یہ بھی کہتے ہیں کہ انسان کو دوبارہ فطرت کے مظاہر سے تعلق جوڑنا چاہیے. لیکن پھر جزبات کو فطری جبلتوں پہ فوقیت دیکر اسکو تہذیب و ثقافت کا بانی بھی گردانتے ہیں. دراصل اس میں بہت ہی باریک نفساتی پہلو مخفی ہے جسکا ازالہ سکاٹ لینڈ کے رہنے والے ماہر نفسیات رونلڈ ڈیوڈ لینگ نے کیا.
لینگ کا کہنا تھا کہ ہمارا معاشرہ حقیقت کی انکار کا ایک مظہر ہے جہاں لوگ اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کرنے کی بجائے انکو چھپانا سیکھتے ہیں. یعنی جہاں فروم انسانی جذبات کو تہذیب و ثقافت کے بانی مانتے ہیں وہیں لینگ انسانی معاشرہ اور تہزیب کو باعث شرم اور ایک غیر ضروری خوف کا سبب تصور کرتے ہیں. یعنی معاشرے کا ایک فعال رکن بننے کے لیے ضروری ہے کہ غیر ضروری طور پر تمام لوگوں کو رسماً ایک دوسرے سے خوفزدہ ہونا چائیے.
جس طرح روسو کہتے ہیں کہ انسان آزاد پیدا ہوتا ہے لیکن ہر جگہ وہ زنجیروں سے جکڑا ہوا ہے. ان زنجیروں کو انسان نے خود اپنے خلاف تشکیل دیا ہے. روسو مانتے تھے کہ یہ زنجیریں تہذیب و ثقافت ہی کی تخلیق ہیں. اور انسان کو بلآخر تہذیب و ثقافت کو خیرباد کہہ کر دوبارہ فطری زندگی کی طرف لوٹنا چائیے اور انسان کو غیر ضروری طور پر ایک دوسرے سے خوفزدہ نہیں ہونا چائیے.
لینگ کے مطابق بھی یہ خوف غیر حقیقی ہے جسکے خاتمے کیلئے ضروری ہے کہ انسان خود ساختہ تہذیب جو انسان کو ایک مخصوص قالب میں بند رہنے کیلیے مجبور کرتا ہے کو خیرباد کہہ کر فطرت کی طرف لوٹ آئے لیکن انسان کیلیے ایسا کرنا اب تقریباً ناممکن ہو چکا ہے اور دوسری طرف فروم جبلت کی بجائے انسانی جذبات کو اسی خوف کا بنیادی محرک ٹھہراتے ہےیعنی دونوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ انسان بڑی حد تک فطرت سے الگ ہو کر خود کو ایک الگ اکائی منوانے میں کامیاب ہوا چکا ہے اور وہ اپنی باہمی چپقلشوں کی فطرت سے زیادہ خود ذمےدار ہے. لہذا اب انسان کے لیے زیادہ ضروری ہو گا کہ وہ فطری جبلتوں کی بجائے اپنے جذبات کو قابو میں رکھنا سیکھے. جس پہ دوسرے مکاتبِ فکر شدید تنقید بھی کرتے ہیں.
لینگ کا تہذیب کو انسانی فلاح اور ہم ہانگی کی بجائے اسکا الٹ، حقیقت کے انکار کا ایک مظہر ٹھہرانا ایک تلخ حقیقت ہے. لیکن پھر بھی وہ بحیثیت ماہر نفسیات اسی میں ہی انسانی فلاح کو پاتے ہیں کہ انسان تہذیب و ثقافت کے اصولوں پہ ہی کارفرماں رہے. گویا انکے مطابق انسانی پیچیدگیاں اتنی غیر واضح اور مبہم ہو چکی ہیں کہ انکو سلجھانا اب ناممکن ہو چکا ہے اور انسان مجبور ہے کہ پیچھے مڑنے کی بجائے بغیر کوئی مخصوص منزل کے ہی صحیح اپنا سفر آگے جاری رکھے. حالانکہ یہ بات بذات خود متعین نہیں ہے کہ کونسی تہذیب اور ثقافت کو اپنایا جائے کہ انسان اپنی مصائب سے چھٹکارہ حاصل کر کے ایک پرسکون زندگی گزار سکے.
لینگ کہتے ہیں کہ جو لوگ معاشرے کے بتائے ہوئے اصولوں کے تحت زندگی نا گزار پائے تو معاشرہ انکو پاگل کرار دیتا ہے. جسطرح خلیل جبران نے اپنے افسانے میں اسکی تمثیلی کردار سازی سے وضاحت کی ہے کہ جب بادشاہ اور اسکے وزیر کو یہ اطلاع ملی کہ شہر میں ایک بارش آنے والی ہے جسکا پانی پینے سے لوگ پاگل ہو جائیں گے. تو بادشاہ اور وزیر نے لوگوں کی فکر چھوڑ کر اپنے لیے شفاف پانی کا بندو بست کیا. جسکا نتیجہ یہ ہوا کہ بادشاہ اور وزیر کے علاوہ سارا شہر پاگل ہو گیا. جب بادشاہ نے لوگوں کو مجلس کیلیے اپنے دربار میں بلایا اور جب لوگوں نے بادشاہ اور وزیر کے حرکات و سکنات کو دیکھا تو چھینک اٹھے کہ بادشاہ اور وزیر پاگل ہو چکے ہیں اور لوگ انکے پیچھے پڑ گئے کہ انکو مار دو. بادشاہ اور وزیر اپنی جان چھڑانے میں بلآخر کامیاب ہوئے اور موقع پاتے ہی دونوں نے بارش کا پانی پی لیا اور وہ بھی باقیوں کی طرح عجیب و غریب حرکات کرنے لگ گئے. پھر لوگوں نے انہیں دیکھ کر کہا کہ بس اب انکا پیچھا چھوڑ دو اب یہ بلکل ٹھیک ہو گئے ہیں.
عمومی زندگی میں بھی ایسا ہی ہے. انفرادیت اور اجتماعیت کے اصول وقت کے ساتھ ساتھ ناقابلِ عمل ہوتے جا رہے ہیں اور انفرادی اور اجتماعی زندگی دشوار ہوتا چلا جا رہا ہے. زندگی کا کوئی مخصوص ضابطہ طے نہیں ہے اور ہر جگہ لوگ اسی جہت میں لگے ہوئے ہیں کہ دوسرے بھی ان جیسا نظر آئیں. دوسرے بھی وہی سوچیں جو ہم سوچتے ہیں. دوسرے بھی وہی کریں جو ہم کرتے ہیں. بصورت دیگر معاشرتی زندگی گویا خارج ازامکان ہے.
اسطرح اجتماعیت فرد کی زاتی ترجیحات اور تخلیقی سوچ کو مسخ کرتا ہے اور ویسے ہی فرد اجتماعیت پہ اثر انداز ہوتا ہے. اسی طرح ایک فرد کا دوسرے فرد سے تعلق اجتماعی نفسیات سے متاثر ہوتا ہے اور تعلقات استوار کرنے میں تہذیبی اور ثقافتی دلچسپیاں اور مفاد بھی کارفرماں ہوتے ہیں. اور بلآخر فرد اس طرح مسخ، غیر واضح اور زنگ آلود ہو جاتا ہے کا اسکا حقیقی معنون میں وجود دھندلا پڑ جاتا ہے.
فرد کی ترجیحات کی تشکیل کا ایک مختصر سا نفسیاتی پہلو یہ ہے؛ میں انسے محبت کرتا ہوں کیونکہ اسکے چہرے سے میں خوبصورت دکھائی دیتا ہوں. وہ ایک خوبصورت آئینہ ہے. وہ مجھ سے محبت کرتی ہے کیونکہ اس نے مجھ میں خود کو خوبصورت پایا. ہم ایک دوسرے کی مدح سرائی کرتے ہیں، ایک دوسرے کیلیے نظمیں اور غزلیں لکھتے ہیں اور ایک دوسرے کے حسن کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہیں. لیکن حقیقت میں ہماری ترجیحات نے خوبصورتی کو آلودہ کیا ہوا ہوتا ہے اور فرد کے ترجیحات انتہائی شخصی نوعیت کے، یعنی اپنے گرد ہی گھومتی ہیں جس سے فرد معاشرتی توقعات پہ پورا نہیں اتر پاتا اور پھر معاشرہ بھی اسپر اسی طرح ہی اثرانداز ہو جاتا ہے اور پھر فردی ترجیحات اس قدر متاثر ہو چکے ہوتے ہیں کہ فرد کے لیے خود سے باہر دیکھنا محال ہو جاتا ہے. یعنی حقیقت میں دوسرا شخص وجود ہی نہیں رکھتا. وہ صرف ہماری ہی مسخ شدہ عکس ہے جسے ہم خود سے باہر دیکھ رہے ہوتے ہیں اور جسے ہم حتٰی الامکان خود سے مشابہ بنانے کے درپے ہوتے ہیں.
یعنی ہم، ہم نہیں رہے، وہ وہ نہیں رہے. ہم تقریبا ایک دوسرے کا ایک مبہم اور پیچیدہ ملغوبہ بن چکے ہیں. ہماری زات سے باہر ہمارا کوئی دشمن یا دوست نہیں. ہم خود اپنے دشمن یا دوست ہیں. اسی لیے شاید یہ کہنا بجا ہو گا زندگی ایک المیہ سے ہرگز کم نہیں.
زندگی حقیقت میں کیا ہے، اسے کیسا ہونا چائیے اور ہم نے اسے کیسا بنا دیا ہے، اس بات کو سمجھنا بہت مشکل ہے. اور زندگی کو ویسے ہی اپنانا جیسا کہ وہ ہے بہت ہی مشکل کام ہے. اس بات کو میں جانتا ہوں، تم جانتے ہو، مگر ہم نہیں جانتے. یعنی فردی حیثیت سے ہم اس بات سے آگا ہیں اور فرد ہی اس میں اصلاح کی گنجائش پیدا کرنے کے قابل ہے. مگر اجتماعیت پہ آ کے یہی بات مختلف تشریحات کی زد میں آ جاتی ہے. مگر انسان کے ساتھ المیہ یہ ہے ہماری اپنی ہی پیدا شدہ تضادات کی وجہ سے کوئی الٹیمیٹ فرد وجود ہی نہیں رکھتا. یا یہ کہ فرد کو ہم نے وہ آزادی میسر ہی نہیں کی کہ وہ آزادانہ اپنا رستہ طے کر سکے.
جیسا کہ عظیم انگریز مفکر ولیم شیکسپیئر انسانی تمدن اور ثقافت کی جفاکشیوں سے تنگ آ کر اپنی بے بسی کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ زندگی اتنا ہی المناک ہے جتنا کہ اسے ہونا چائیے. اور انسانی خواہش اسکے برعکس خوشی اور مصرت تلاش کرنا ہے جو کہ حقیت سے بعید ہونے کی طرف ایک لاشعوری قدم ہے. پھر اچانک ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی ناقابل قبول ہے لیکن پھر بھی ہمیں اسے قبول کرنا ہی ہو گا. ویسا ہی جیسا کہ وہ ہے. اور یہ ایک آسان کام نہیں. اسکے لیے بڑی جرعت اور ہمت کی ضرورت ہوتی ہے. گویا زندگی گزارنا اور اسکے طے کردہ اصولوں کے تحت چلنا ایک انتہائی مشکل اور ایک تھکا دینے والا کام ہے.
لیکن تہذیب سازی یا زندگی گزارنے کے تشکیل نو میں انسان اتنا بھی بے بس نہیں. تمام تر مشکلات اور پیچیدگیوں کے باوجود فطرت نے ایسے عظیم اور تخلیقی دماغ بھی بنائے جو ان پیچیدگیوں کو سمجھ کر انسانی مجموعی فلاح کے لیے راہ ہموار کر سکیں. ان تخلیقی انسانوں نے ہمیشہ عام لوگوں سے ہٹ کر ہی سوچا ہے. جسکی پاداش میں انکو بے پناہ ازیتیں بھی سہنی پڑی ہیں. تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے. سقراط، گلیلیو، برونو، ابن رشد، مارکس اور بہت سارے مفکر جنہوں نے عمومی سوچ سے ہٹ کر زندگی گزارنے کا فلسفہ وضح کیا. لیکن معاشرے کو ایسے لوگ کبھی بھی عزم نہیں ہوئے. لوگ ہمیشہ پرانے وضح کیے ہوئے اصولوں پر اکتفاء کرنے میں اپنی فلاح تلاش کرتے ہیں. لوگ عام طور پر آرام پسند ہوتے ہیں اور بڑی تبدیلی سے گھبراتے ہیں. اسی لیے وہ تجدید اور اصلاح پسندوں کو عموماً پسند نہیں کرتے. جس کی بنا پر انکو تنہا اپنی خیالی جزیرے میں رہنے کے لیے مجبور ہونا پڑتا ہے. یعنی ذہین لوگ فطری طور پر نہیں بلکہ معاشرتی دباؤ کی وجہ سے عموماً تنہائی اختیار کرتے ہیں. گویا تنہا پسندی زاتی دلچسپی نہیں بلکہ معاشرے کی ممکنہ عدم قبولیت کا نفسیاتی ردعمل ہے.