تربت یونیورسٹی آخری رینکنگ پر۔۔۔آخر کیوں؟
منّان صمد بلوچ
یونی رینک ویبسائٹ کی جانب سے صوبہِ بلوچستان کی بہترین جامعات کی نئی درجہ بندی کی فہرست جاری کر دی گئی ہے۔ سال 2020 کی حالیہ رینکنگ میں بلوچستان یونیورسٹی آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، انجینئرنگ اینڈ مینجمنٹ سائنسز پہلی نمبر پر اور یونیورسٹی آف تربت آخری نمبر پر ہے جو مکران ڈویژن کے نوجوان نسل کیلئے ایک انتہائی تشویشناک امر ہے- مکران کے مختلف اضلاع کے غریب طلباء و طالبات علم کی پیاس بجھانے کیلئے اسلام آباد اور پنجاب کے اعلیٰ ترین یونیورسٹیوں میں داخلے لینے سے مکمل قاصر ہیں- اسی لئے اُمید کا دامن باندھ کے اور اپنے فیوچر خواہشات کو عملی جامہ پہنانے کیلئے یونیورسٹی آف تربت کا رُخ کرتے ہیں-
لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ یونی بدلے میں نااُمیدیاں سمیٹ کر ان کے ہاتھوں میں تھام دیتی ہے- تخلیقی ماحول کے بجائے گھٹن سی فضا میں پڑھنے پر مجبور کر دیتی ہے- تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ دینے کے بجائے غیر ضروری سرگرمیوں میں اُلجھا دیتی ہے- یونیورسٹیوں میں مرحلہ وار میلوں اور فیسٹیولوں کا منعقد ہونا، قابلِ تحسین عمل ہے کیونکہ طلباء و طالبات کی زہنی نشونما کے لیے غیر نصابی سرگرمیاں ازحد ضروری ہیں لیکن ہفتوں ہفتوں تک یونی میں موسیقی کا گونج اُٹھنا، انتظامیہ کی غیر ذمہ داری کی عکاسی کرتی ہے- یہ میرج ہال ہے یا تعلیمی ادارہ؟ حکومتی میلوں سمیت مختلف ڈیز بھی یونیورسٹی میں منائے جاتے ہیں- طلباء و طالبات کو دانستہ طور پر غیر ضروری سرگرمیوں میں مگن کرنا، تعلیم دشمن عناصر کو فرطِ انبساط میں نچانے کے مترادف ہے-
کچھ عرصے پہلے یونیورسٹی آف تربت کی بنانے کی کریڈٹ کو لےکر سیاسی بیان بازی عروج پر تھی- ہر پارٹی فخر سے کریڈٹ لیتی تھی- بلوچستان اسمبلی میں تربت یونی کی قرارداد منظور کرانے پر سیاسی تلخیاں بھی کم نہیں ہوئیں- لیکن تعجب خیز بات یہ ہے اب کوئی بھی سیاسی پارٹی اس آخری رینکنگ کی کریڈٹ کو لینے کے لیے سامنے نہیں آرہی- آخر کیوں؟ اس پر بھی کچھ سیاسی بیان بازی ہونی چاہیے- اس پر بھی کچھ فخریہ بیانات آنی چاہیے- مجھے میٹھا میٹھا ہپ ہپ، کڑوا کڑوا تھو تھو والا معاملہ لگ رہا ہے- لیکن یہ سوال جواب طلب ہے؛ تربت یونیورسٹی کی گرتی ہوئی معیار کا ذمہ دار کون ہے؟
اس سخن میں کوئی دو رائے نہیں کہ تربت یونیورسٹی میں اقربا پروری آسمان سے باتیں کررہی ہے- یونی میں میرٹ کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں- سفارشی کلچر کو فروغ مل رہا ہے- اپنے عزیز و اقارب کو نوازا جارہا ہے- انتظامیہ اپنے منظور نظرافراد کی دھڑادھڑ تعیناتیاں کر رہی ہے- بلاشبہ سیاسی اثرورسوخ کا براہِ راست عمل دخل ہے- اسٹوڈنٹس کو سنگین مسائل سے دوچار کرکے ان کے مستقبل کے ساتھ سنگین کھیل کھیلا جارہا ہے- حیرانگی کی بات یہ ہے کہ جب سے یونیورسٹی بنی ہے، کسی ایک طالب علم کی ریسرچ یا سائنسی تحقیق صوبائی اور ملکی سطح پر شائع نہیں ہوئی ہے جو علمی تحقیق کا واضح فقدان کی غمازی کرتا ہے- جب یونیورسٹی کے سینیئر لیکچرارز پی ایچ ڈی پروگرامز کے لئے بیرونی ملکوں میں چلے جاتے ہیں تو یونی میں خاک معیاری تحقیقی سرگرمیوں کو فروغ ملے گا-
اس تلخ حقیقت کو جٹھلایا نہیں جاسکتا کہ یونیورسٹی آف تربت تباہی کے دہانے پہ پہنچ چکا ہے جس کو بچانے کیلئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اپنا کردار نبھانا ہوگا- میں دنگ رہ جاتا ہوں جب یونی میں زیرِ تعلیم طلباء و طالبات اپنے آنکھیں بند کرکے یونیورسٹی کے متعلق مخالف آوازوں کو دبانے کی کوشش کرتے ہیں- اُنہیں یہ واضح کرتا چلوں کہ یونیورسٹی کی ساکھ کو بچانے کے چکر میں اپنے مستقبل کو داؤ میں ڈالنا سراسر بیوقوفی ہے- اگر یونیورسٹی آف تربت کو ایک مثالی تعلیمی ادارہ دیکھنا چاہتے ہو تو تمام طلباء و طالبات کو سچ کے آئینے کو لیکر یونیورسٹی کے تمام کرتوتوں کو بلاجھجک بے نقاب کرنا ہوگا- خدارا انتظامیہ کی دباؤ میں آکر اور خاموشی کی چادر اوڑھ کر نوجوان نسل سے کھلواڑ مت کھلیں- وقت ہوا چاہتا ہے کہ تمام اسٹوڈنس چھپ کا روزہ توڑ ڈالیں اور یونیورسٹی دن دگنی رات چگنی ترقی کے سیاسی دعویداروں کو نئے سرے سے مضبوط و مربوط حکمت عملی اپنانا چاہیے- یونیورسٹی کو بناکر کریڈٹ لینے کے ساتھ ساتھ یونی کی بہتری کے لیے تعلیمی اصلاحات لاکر مطمئن کن کارکردگی کا حامل بھی بنائیں تاکہ آنے والی نسلوں کا مستقبل درخشاں و تابناک ہوسکے-