رات ڈھائی بجے موت کی دستک

تحریر:فاروق دشتی

ڈھائی بجے:
.
میں چھوٹا تھا تو رات کو جب دیر سے سوتا تھا تو میری امی کہتی تھی کہ بیٹا سوجاؤ ورنہ (افتار ڈنگی) اُڑ کر آجائے گا اور ہمیں مار دیگا۔
اسی ڈر سے ہمیشہ میں جلدی سوجاتا تھا،مجھے یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ یہ کون ہے اور ہمیں کیوں مارنا چائے گا۔دن میں اسکے بارے میں سوچ کر پریشان اور رات کو اسکے خوف سے آدھی نیند میں تھا۔جس کو میں نے کبھی نہیں دیکھا مگر اسکے خوف سے پورا جسم کانپتا تھا۔کبھی کبھی یہ خیال آتا اور خواہش تھا کہ اسکو ایک بار دیکھ لوں ،مگر پھر یہی خیال آتا اسکے دیکھنے کے بعد شاید میں خود نہ بچ سکوں.
افتار ڈنگی کون تھا؟ جب میں آہستہ آہستہ بڑا ہوتا گیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ بس ایک تخیل ہے اور ڈرامہ ہے جو بس ہمیں ڈرانے کیلئے کہا جاتا تھا اور ایسے وحشی نام استعمال کیا جاتا تھا۔
۔اور پھر میں بھی بچوں کو اسی خوفناک نام سے ڈراتا رہا۔
مگر یوں ہوا کچھ دن پہلے میرے امی کا ڈرامہ حقیقت میں بدل گیا،اور میرا تخیل اب عملی طور پر پیش آیا۔مگر بس فرق اتنا ہے کے یہ ایک نہیں ہزاروں کی تعداد میں ہمارے اردگرد پائے گئے اور اب بھی پائے جاتے ہیں۔۔نام الگ ،چہرے الگ،وحشت الگ،مگر کارنامے ایک۔اور سب سے بڑی بات کہ وہ اڑ کر نہیں بلکہ لوگوں کے سامنے چل کر آتے ہیں،مگر جب یہ آتے ہیں انکو کیوں پکڑا نہیں جاتا؟کیا یہ ان لوگوں کے گھر نہیں جاتے جو لوگ ہماری جان کی حفاظت کر رہے ہیں۔اگر وہ سب سے پہلے ان لوگوں کے گھر جائیں تو ہم خود ان کے قبضے میں آئیںگے۔
شاید ان سے ڈرتے ہیں،اگر ڈرتے ہیں تو ان کے ہونے کئ باوجود بھی ہم پر حملہ کرتے ہیں،بغیر کوئی خوف،بغیر جیجک آرام سے آتے ہیں اور ہم پر حملہ کرتے ہیں یا پھر شاید ان میں سے ہیں .
اب یہ (شاید) میرے ذہن میں سوالیہ نشان کی طرح اپنی جگہ بنا چکا ہے۔کیوں یہ سرےعام گھوم رہے ہیں؟
مگر ایک بات واضع کروں کہ”اب جو خاموش ہیں انہیں قاتل ہی پکارا جائے؟
چلو اب میں بتاتا چلوں کہ میں ایسی باتیں کیوں کر رہا ہوں۔
ایک ایسا واقعہ ڈنک تربت میں پیش آیا۔جہاں ملکناز نامی عورت کو شہید کردیا گیا اور اسکی 4 سالہ بیٹی کو زخمی کیا گیا،اور وجہ صرف اتنی تھی کہ اس نے مزاحمت کی۔ملکناز نے مزاحمت کی کیونکہ اس کی رگوں میں بلوچ خون دوڑ رہا تھا۔ ملکناز نے مزاحمت کی کیونکہ اس کی ثقافت نے اسے مزاحمت کی سیکھ دی تھی۔اس نے مزحمت کی کیوںکہ مزحمت اسکے لئے زندگی تھی۔
رات ڈھائی بجے کسی کے گھر میں گھسنا،کلاشنکوف پیشانی پر رکھنا،بچوں کو ڈرھانا،یہ بلوچ روایت،ثقافت کے خلاف ہے۔مگر اب ہم کیا کریں کہ بندوق بھی ہماری،تیر بھی ہمارا اور جسم بھی ہمارا۔مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی،پھر ایسا ہی واقعہ تمپ دازن میں پیش آیا،جہاں ایک کلثوم نامی عورت کو ایسے ہی درندوں نے چھری سے اسکے سر کو جسم سے جدا کر دیا۔اور ابھی بھی سرعام گھوم رہے ہیں۔اب اس رویہ کو کیا سمجھیں ،یئی سمجھے کہ آپ لوگ جو بھی کر یں ہمارے خلاف آواز اٹھائیں مگر ہم باز نہیں آئیںگے،اور ہم ایک نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایک وبا کی طرح پھیل گئے ہیں،ہمارے انصاف مانگھنے کا جواب یئی تھا۔یہ کون لوگ ہیں؟ بچوں کے سامنے انکی ماؤں کو گولی سے شہید کرنا یا پھر سر کو جسم سے جدا کرنا۔ایسے تو کافر بھی نہیں کرتے،ایک تو مسلمان اور دوسرا بلوچ ہوکر ایک ہی قبیلے سے تعلق رکھنے والا شخص خود ہی لوگوں کو اتنی تشدد سے قتل کرنا،یہ کیا کسی جانور سے کم ہیں.
اب یہ اور کتنے بچوں کے دلوں کے آگ سے یہ اپنے صبع کا ناشتہ اور رات کا کھانا بنائیں گے۔ہمارے پاس گھر تو ہے مگر سکون نہیں،اب یہ زندگی ایک فتپاتھ پہ رہنے والے سے بدتر زندگی بن چکی ہے،اگر اسکے پاس گھر نہیں مگر ٹیک سے سانس تو لے سکتا ہے،ہمیں تو گھر میں رہ کر بھی یہ نصیب نہیں ہوتا۔بہت افسوس ہوتا ہے یہ کہہ کر کہ ہمارے باپ کو وہی پرانی عربوں والا جہالت کا رویہ اپنانا پڑھے گا کہ اب جو بھی بیٹی پیدا ہو تو اسے زندہ دفنا دیں تاکہ بڑے ہوکر یہ زلم نہ سہیں اور مزحمت کرکے ان درندوں کے ہاتھوں گولیوں کا شکار یا پھر تشدد کر کے نہ مارے جائیں۔
ان بچوں نے بھی ضرور یہی کہانی اپنی امی سے سنی ہوگی،مگر یہ سوچ کر پریشان ہونگے کہ ہماری امی نے تو یہی کہا تھا کہ جب تم نہیں سو ہو گے تو یہ آئیں گے۔مگر ہم تو سوئے ہوئے تھے پھر بھی یہ آگئے،انہوں نے خود ہمیں جھگایا،شاید ان کی جگانے سے نہیں جاگھنا تھا چاہے وہ مار دیتے مگر امی تو بچھ جاتی اور وہ بچارے خود کو دوشی ٹہرا رہے ہیں ۔اب انکی امی تو قتل ہوگئی اور یہی سوال انکی ذہن میں گردش کر رہی ہے ۔چائے ہم نیند میں ہوں یا جھاگ رہے ہوں،ہم کچھ کریں یا نہ کریں مگر آدھی رات یہ ضرور آئیں گے اور اپنے کارنامے انجام دیں گے۔اب میں بھی خوف ذدا ہوں کہ میری بچپن کی نہ سمجھی کی خواہش مجھے مینگا نہ پڑہ جائے اور اب ان لوگوں کا ملنا نصیب نہ ہو کیوںکہ اب بھی میں یئی سمجھتا ہوں کہ ان لوگوں کو دیکھنے کے بعد شاید میں خود نہ بچ سکوں
‏اور کس دور میں اُتریں گے فلک سے عیسی’ مہدی؟
شدت ِ شر میں جان ِ خلق آ گئی لبوں تک۔

اپنا تبصرہ بھیجیں